سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق فروری کے عام انتخابات کے بعد سندھ میں چوتھی بار اقتدار میں آنے والی پاکستان پیپلز پارٹی کو سندھ اسمبلی میں محدود حزب اختلاف کی موجودگی میں صوبے میں ’یک جماعتی حکمرانی‘ جیسی صورت حال میسر ہے۔
168 اراکین پر مشتمل موجودہ سندھ اسمبلی میں 130 جنرل، 29 خواتین کے لیے اور نو مذہبی اقلیتوں کی نشستیں ہیں۔
ان میں خواتین اور مذہبی اقلیتوں کی نشستوں سمیت پاکستان پیپلز پارٹی کے سندھ اسمبلی میں 118 اراکین، جماعت اسلامی کا ایک رکن، متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے 37 اور پاکستان تحریک انصاف کے آٹھ اراکین ہیں۔
اس کے علاوہ امیر جماعت اسلامی رکن اسمبلی بننے کے بعد سیٹ چھوڑنے کا اعلان کر چکے ہیں، تاہم اس سیٹ پر تاحال ضمنی انتخابات نہیں ہو پائے ہیں۔
سانگھڑ اور خیرپور سے پاکستان مسلم لیگ (فکشنل) کے کامیاب ہونے والے دو امیدواروں نے اپنی جماعت کی جانب سے انتخابات کے نتائج پر احتجاج کے باعث سندھ اسمبلی کے اراکین کی حیثیت سے حلف نہیں اٹھایا ہے۔
سیاسی تجزیہ نگار اور سندھی ٹی وی چینل آواز نیوز کے اینکر پرسن فیاض نائچ کے مطابق کسی بھی اسمبلی میں مضبوط حزب اختلاف جمہوریت کی خوبصورتی سمجھی جاتی ہے، جو اس وقت سندھ اسمبلی میں نہ ہونے کے برابر ہے، جس کے باعث سندھ میں ’ون پارٹی رُول‘ یا یک جماعتی حکمرانی قائم ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں فیاض نائچ نے کہا: ’ایوان میں مضبوط حزب اختلاف کی موجودگی میں عوام مخالف منصوبے لانا حکومت کے لیے انتہائی مشکل ہوتا ہے۔ اس وقت انتہائی کمزور حزب اختلاف کے باعث پاکستان پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت جو منصوبے تجویز کرتی ہے انہیں چیلینج کرنے والا کوئی نہیں ہے۔‘
سیاسی تجزیہ نگار اور گذشتہ تین دہائیوں سے سندھ اسمبلی کی کوریج کرنے والے سینیئر صحافی عبدالرزاق ابڑو کے مطابق: ’سندھ میں پی پی پی کی چار صوبائی حکومتوں کے دوران یہ پہلی مرتبہ ہے کہ صوبائی ایوان میں حکمران جماعت کو انتہائی کمزور حزب اختلاف ملی ہے۔‘
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں عبدالرزاق ابڑو نے کہا: ‘’اس وقت سندھ اسمبلی میں حزب اختلاف کی جماعتوں بشمول ایم کیو ایم، جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی کے اراکین کی اکثریت کراچی سے منتخب ہوئی۔ چند اراکین کا تعلق حیدرآباد سے ہے۔ کراچی اور حیدرآباد کے علاوہ تمام اضلاع سے ایک بھی رکن حزب اختلاف نہیں ہے۔
’اراکین کی اکثریت کا تعلق کراچی اور حیدرآباد سے ہونے کے باعث سندھ اسمبلی میں حزب اختلاف ان دو شہروں کے ترقیاتی منصوبے سے متعلق تو آواز اٹھاتے ہیں لیکن صوبے کے دوسرے حصوں کے منصوبوں کے لیے اسمبلی میں آواز موجود نہیں ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اسمبلی میں ایم کیو ایم ماضی کی طرح ایک طاقت ور حزب اختلاف کے بجائے فرینڈلی اپوزیشن کے طور کام کر رہی ہے، جب کہ پی ٹی آئی ملک میں سیاسی بحران کے باعث سندھ اسمبلی میں اپوزیشن کا مؤثر کردار ادا نہیں کر پا رہی۔
’ایسی صورت حال میں سندھ اسمبلی میں حکمران جماعت کی کارکردگی کی شفافیت پر سوالات کا اٹھنا منطقی امر ہے۔‘
سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدواروں کی بڑے پیمانے پر کامیابی اور پی پی پی مخالف امیدواروں کی ناکامی پر بات کرتے ہوئے فیاض نائچ نے کہا: ’ماضی میں پاکستان مسلم لیگ کے نامزد امیدوار سندھ اسمبلی کی کئی نشستوں پر کامیاب ہوتے تھے، جو بعد میں اسمبلی میں بھرپور حزب اختلاف کا کردار ادا کرتے تھے۔
’تجربہ کار پی پی پی قیادت کی مخالفین کے لیے لچکدار پالیسی کے باعث سندھ کے تمام اضلاع کے طاقت ور سیاسی گھرانے پی پی پی کا حصہ بن گئے۔ اس لیے پی پی پی کراچی اور حیدرآباد کے علاوہ تمام اضلاع سے کلین سویپ کرتی ہے۔
’اس کے علاوہ اسمبلی سے باہر موجود سندھی قوم پرست کسی بھی معاملے یا متنازعہ منصوبے پر پی پی پی کی صوبائی حکومت کو ٹف ٹائم دیا کرتے تھے۔ لیکن اب وہ بھی کمزور پڑ گئے ہیں۔ اس لیے پی پی پی کی حکومت تھر کے پہاڑی سلسلے کارونجھر سے گرینائٹ کی کٹائی یا وفاقی حکومت کی جانب سے تھل کنال، رینی کنال سمیت دریائے سندھ پر مختلف نہروں کی تجاویز، انڈس ریور سسٹم اتھارٹی ایکٹ میں ترامیم کی تجاویز سمیت کسی بھی مسئلے پر کوئی احتجاج نہیں ہو رہا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سندھ کی صوبائی حکمران جماعت نے اس تاثر کو یکسر رد کر دیا کہ سندھ میں پی پی پی ’ون پارٹی رُول‘ کے تحت حکمرانی کر رہی ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کراچی ڈویژن کے صدر اور وزیر بلدیات سندھ سعید غنی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں سوال اٹھایا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کو سندھ میں ’ون پارٹی‘ کی حکومت کیسے کہا جا سکتا ہے؟
’اس وقت سندھ کی صوبائی اسمبلی 168 اراکین پر مشتمل ہے، جن میں پاکستان پیپلز پارٹی کے 118 اراکین اور باقی 50 کا تعلق مختلف سیاسی جماعتوں بشمول ایم کیو ایم، جماعت اسلامی، پاکستان تحریک انصاف سے ہے۔
’سندھ اسمبلی میں حزب اختلاف اراکین کی اکثریت کا تعلق کراچی اور کچھ کا حیدرآباد سے ہونے اور باقی صوبے کی نمائندگی کرنے والے حزب اختلاف کے اراکین کی غیر موجودگی میں ہمارا کوئی قصور نہیں۔ ہم باضابطہ طور پر الیکشن کمیشن کی جانب سے منعقد کرائے گئے عام انتخابات میں کراچی اور حیدرآباد کے باقی اضلاع سے بھاری اکثریت سے جیت کر اسمبلی پہنچے ہیں۔‘
سعید غنی کا کہنا تھا: ’پاکستان مسلم لیگ فنکشنل کے دو اراکین کامیاب ہوئے۔ وہ حلف لیتے اسمبلی میں بیٹھتے اور صوبے کے معاملات پر حزب اختلاف کا کردار ادا کرتے۔
’مگر فنکشنل لیگ کے دونوں اراکیں نے اسمبلی کے وجود میں آنے کے کئی ماہ بعد بھی حلف نہیں اٹھایا۔ انہوں نے نہ صرف حلف نہیں اٹھایا، بلکہ اپنی نشستیں بھی خالی نہیں کیں تاکہ کوئی دوسرا الیکشن لڑ کر وہاں کے عوام کی اسمبلی میں نمائندگی کر سکے۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ سندھ اسمبلی میں سندھ کے معاملات پر حزب اختلاف نہ ہونے کے باعث رینی کینال، تھل کینال سمیت دریائے سندھ پر مجوزہ متعدد متنازع منصوبے شروع کیے جا رہے ہیں تو سعید غنی کا کہنا تھا: ’دریائے سندھ پر متنازع منصوبے وفاقی حکومت کی جانب سے شروع کیے جا رہے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے سندھ اسمبلی کے فلور پر ان کی مخالفت کی۔ پارٹی رہنماؤں نے اس پر شدید احتجاج کیا۔
’کارونجھر پر گرینائٹ کی کٹائی والی لِیز ہمارے حکومت سے آنے سے پہلے جاری ہوئی۔ اس کے باوجود ہم نے کٹائی کی مخالفت کی اور کارونجھر پہاڑی کے بڑے حصے کو محفوظ علاقہ قرار دیا۔