عام انتخابات 2024 میں منتخب ہونے والے اراکین سندھ اسمبلی نے صوبائی اپوزیشن جماعتوں کے شدید احتجاج کے باوجود ہفتے کو عہدے کا حلف اٹھایا۔
اسمبلی کے اجلاس میں جہاں نومنتخب اراکین نے حلف سندھی زبان میں لیا وہاں ایوان میں بے شمار سیلفیاں (تصاویر) بھی لی گئیں، ساتھ ہی اراکینِ اسمبلی کی تواضع پرتعیش کھانوں سے بھی کی گئی۔
نومنتخب اراکین سندھ اسمبلی کے حلف لینے کے لیے اسمبلی کا اجلاس صبح 11 بجے سندھ اسمبلی کی نئی عمارت میں بلایا گیا تھا۔
اجلاس 40 منٹ کی تاخیر سے سپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی کی صدارت میں شروع ہوا۔
نگران حکومت کے دور میں کیونکہ اسمبلی کا اجلاس نہیں بلایا جاتا تو ہر پانچ سال بعد اسمبلی کی مدت پوری ہونے کے بعد اس لیے اس دوران اسمبلی ہال کی تزین و آرائش کی جاتی ہے۔
اس بار بھی نگران حکومت کے دوران سندھ اسمبلی کی تاریخی عمارت سے متعصل نئی عمارت کی تزین و آرائش کی گئی ہے۔ اراکین کے لیے نئی کرسیاں لگائی گئیں تھیں۔
گذشتہ روز خدشہ ظاہر کیا جارہا تھا کہ اپوزیشن جماعتوں کے احتجاج کے باعث حلف برداری والے اجلاس میں زیادہ مہمانوں کو نہیں بلایا جائے جائے، مگر جیسے اجلاس شروع ہوا تو مہمانوں کی گیلریاں کھچا کھچ بھری ہوئی تھی۔
اجلاس سے قبل مہمانوں کی گیلیروں سے سندھ کی حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے حق میں ’جئے بھٹو‘ کے نعرے گونجتے رہے۔
اجلاس میں مہمانوں کی اتنی تعداد تھی کہ اراکین کی جانب سے بلائے گئے مہمان پریس گیلیری میں بیٹھ گئے۔
اجلاس کے دوران پہلی بار رکن اسمبلی منتخب ہونے والے اراکین موبائل فون سے سیلفیاں لیتے دیکھے گئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اراکین سندھ اسمبلی نے اردو، انگریزی اور سندھی میں حلف لیا۔
سندھ میں سندھی زبان سرکاری زبان ہے۔ اس لیے نہ صرف اراکین اسمبلی اگر چاہیں تو حلف سندھی زبان میں بلکہ عام اجلاس کی کارروائی بھی سندھی زبان میں چلائی جاتی ہے۔ جس کا باظابطہ ترجمے کا بھی بندوبست ہے۔
اراکین ہیڈفون پر انگریزی، اردو اور سندھی زبانوں میں کسی بھی زبان میں کارروائی سن سکتے ہیں۔
سندھ اسمبلی کی قدیم عمارت کے داخلی راستے کے ساتھ شیڈ کے نیچے بنے میڈیا کارنر میں مقامی میڈیا کے درجنوں کیمرا پرسن کیمرا لگائے صبح سے موجود تھے۔ اجلاس کے بعد مختلف رہنما میڈیا کارنر میں آکر میڈیا سے بات کر رہے تھے۔
اسمبلی کی عمارت میں نومنتخب اراکین کے ظہرانے کے لیے چکن قورمہ، تکے، مچھلی، چکن بوٹی، پوری، پراٹھے، روغنی نان، چائے اور قہوہ بنایا جارہا تھا۔
اسمبلی سے باہر اپوزیشن کے احتجاج کے باعث پولیس کی بھاری نفری تعینات کی گئی تھی۔
ان میں خواتین پولیس اہلکار بھی شامل تھیں۔ اسمبلی کی طرح آنے والے راستے کنیٹینر لگا کر بند کردیے گئے تھے۔
اردو بازار کی طرف سے آنے والے راستے کو حنفیہ مسجد کے پاس کنٹینر لگا کر بند کردیا گیا تھ جبکہ۔ برنس روڈ کی جانب نیو سندھ سیکریٹریٹ کے پاس کنٹینر سے بلاک کر دیا تھا۔
آئی آئی چندریگر روڈ والے راستے کو سپریم کورٹ کے پاس بند کر دیا گیا۔ کراچی پریس کلب کی جانب سے آنے والے راستے کو کوسٹ گارڈز، دین محمد وفائی روڈ کو سندھ وائلڈ لائیف کی آفیس کے پاس بلاک کردیا گیا تھا۔
صرف آرٹلری میدان کی جانب سے آنے والا راستہ کھلا تھا، جہاں پر بھاری نفری نومنتخب اراکین یا اسمبلی کا انٹری پاس رکھنے یا میڈیا نمائندگان کو آنے کی اجازت دی جا رہی تھی۔
سندھ میں مختلف سیاسی جماعتوں کے اتحاد گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے)، پاکستان تحریک انصاف، جماعت اسلامی، جمعیت علما اسلام کی جانب سے گذشتہ روز اعلان کیا گیا تھا کہ انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف سندھ اسمبلی کے سامنے احتجاجی دھرنا دے کر حلف نہیں لینے دیا جائے گا۔
مگر پولیس کی جانب سے راستے بند کرنے کے باعث اپوزیشن اراکین اسمبلی تک نہیں پہچ سکے۔ چند اراکین پہنچے، جنہیں پولیس نے گرفتار کرلیا۔ ان میں خواتین بھی شامل تھیں۔
دوسری جانب مختلف شہروں کے کارکنان کے ساتھ آنے والے جمعیت علما اسلام سندھ کے رہنما راشد سومرو کو سپر ہائی وے پر پولیس نے روک دیا۔ اس کے بعد وہاں جی یو آئی کے کارکنوں نے دھرنا دے دیا۔
انہیں سندھ اسمبلی کے اجلاس ختم ہونے کے بعد پولیس نے شہر کی جانب جانے کی اجازت دی۔
راستے میں پولیس نے لاٹھی چارج اور آنسو گیس کا بھی استعمال کیا۔
مختلف اپوزیشن جماعتوں کا کراچی پریس کلب کے سامنے احتجاج شام تک جاری رہا۔