پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں جرائم کی روک تھام کی غرض سے سیف سٹی پروجیکٹ کا آغاز کر دیا گیا ہے، جس کے پہلے فیز میں شہر میں 25 کیمرے نصب کر لیے گئے ہیں۔
ڈائریکٹر جنرل سندھ سیف سٹی اتھارٹی آصف اعجاز شیخ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ ’ابتدائی طور پر پاکستان چوک، حقانی چوک، ایس ایم لا کالج اور آرام باغ کے علاقوں میں کیمرے نصب کیے گئے ہیں۔ یہ جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ کیمرے ہیں، جو انسانی چہرے کی شناخت کے علاوہ گاڑیوں کی نمبر پلیٹس کو بھی پڑھ سکتے ہیں۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ سیف سٹی پراجیکٹ کے پانچ فیزز پر مجموعی طور پر 36 ارب روپے خرچ ہوں گے۔
’مہنگا منصوبہ ہونے کے باعث یہ تاخیر کا شکار رہا۔ اس پر تفصیلی ریسرچ ہوئی، جس کے بعد پہلا فیز شروع کیا گیا اور توقع ہے کہ 2027 تک یہ مکمل کر دیا جائے گا۔‘
ڈی آئی جی سی ٹی ڈی اور ڈائریکٹر سیف سٹی اعجاز شیخ نے کا کہنا تھا کہ کراچی مٰن لگائے گئے کیمرے 12 میگا پکسلز ہیں اور ایسے آالات پاکستان کے کسی دوسرے شہر میں نصبے نہیں ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’یہ جرائم کی روک تھام میں بہترین کردار ادا کرنے کے حامل ہیں اور آگے چل امن و امان کی صورت حال برقرار رکھنے میں مددگار ثابت ہوں گے۔‘
سیف سٹی پراجیکٹ کیا ہے؟
اس منصوبے کے تحت چہروں کی شناخت کا سسٹم، مؤثر ٹریفک منیجمنٹ سسٹم، وسیع تر ڈیٹا اینالائزنگ سسٹم، ای پیٹرولنگ اور ماڈل پولیس سٹیشنز یا سمارٹ پولیس سٹیشنز اور سندھ پولیس کی آٹومیشن کے منصوبے شامل ہیں۔
سیف سٹی پراجیکٹ شہر میں سکیورٹی بڑھانے کی حکمت عملی کا خاکہ پیش کرتا ہے، جس میں نگرانی اور رسک منیجمنٹ کے لیے زیادہ سے زیادہ ڈیٹا برقرار رکھا جاتا ہے۔ اس منصوبے میں شہر کے کچھ مقامات پر لوگوں اور گاڑیوں کی نقل و حرکت کی جانچ کے لیے نگرانی کے کیمرے اور ریڈیو فریکوئنسی ریڈرز کو نصب کیا جانا ہے
کمانڈ سینٹر جو مرکزی سہولت کے طور پر کام کرے گا میں تمام معلومات کی نگرانی اور ریکارڈ رکھا جائے گا تاکہ سکیورٹی کے واقعات کا مؤثر طریقے سے جواب دیا جا سکے اور سکیورٹی کے خطرات کو فعال طریقے سے نمٹا جا سکے۔