روس نے جمعرات کو یوکرین کے شہر نیپرو پر ایک ہائپرسونک انٹرمیڈیٹ رینج بیلسٹک میزائل داغا ہےجس سے 33 ماہ سے جاری جنگ میں مزید اضافہ ہوا ہے۔
یہ حملہ امریکہ اور برطانیہ کی جانب سے یوکرین کو جدید مغربی ہتھیاروں سے روسی علاقے پر حملہ کرنے کی اجازت کے جواب میں کیا گیا۔
روسی صدر ولادی میر پوتن نے ٹیلی ویژن پر اپنے خطاب میں کہا کہ ماسکو نے یوکرین کی ایک فوجی تنصیب پر درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے ہائپر سونک بیلسٹک میزائل سے حملہ کیا ہے جسے ’اوریشنک‘ (ہیزل) کہا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس طرح کے ہتھیاروں سے مزید حملوں سے قبل شہریوں کو متنبہ کیا جائے گا۔
پوتن نے کہا کہ صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کی منظوری کے بعد یوکرین نے 19 نومبر کو روس کو چھ امریکی ساختہ اے ٹی اے سی ایم ایس اور 21 نومبر کو برطانوی اسٹورم شیڈو میزائلوں اور امریکی ساختہ ایچ آئی ایم اے آر ایس سے نشانہ بنایا۔
ماسکو میں رات آٹھ بجے کے بعد سرکاری ٹیلی ویژن پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے روسی صدر نے کہا، ’اس وقت سے یوکرین میں ایک علاقائی تنازع جو پہلے مغرب کی طرف سے بھڑکایا گیا تھا، اب عالمی سطح پر اثرات مرتب کرنے والا بن چکا ہے۔‘
یوکرین کے صدر وولادی میر زیلینسکی نے کہا ہے کہ نئے میزائل کا استعمال جنگ میں ’واضح اور شدید اضافے‘ کے مترادف ہے اور انہوں نے عالمی سطح پر اس کی سخت مذمت کا مطالبہ کیا۔
ایک امریکی عہدیدار نے کہا کہ روس نے حملے سے کچھ دیر قبل واشنگٹن کو مطلع کیا تھا جبکہ ایک اور عہدیدار نے کہا کہ امریکہ نے کیئف اور اتحادیوں کو اس طرح کے ہتھیار کے ممکنہ استعمال کے لیے تیار رہنے کے بارے میں آگاہ کیا تھا۔
کیئف نے ابتدائی طور پر کہا تھا کہ روس نے بین البراعظمی بیلسٹک میزائل داغا ہے، یہ ہتھیار طویل فاصلے کے جوہری حملوں کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے اور اس سے پہلے کبھی اس جنگ میں استعمال نہیں ہوا تھا۔
تاہم امریکی حکام اور نیٹو نے پوتن کی جانب سے اس ہتھیار کو درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل کے طور پر بیان کیا ہے جس کی رینج 3000 سے 5500 کلومیٹر (1860 سے 3415 میل) ہے۔
گذشتہ کئی دنوں سے روس اور یوکرین میں جاری کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ یوکرین نے رواں ہفتے روس کے اندر اہداف پر امریکی اور برطانوی میزائل داغے حالانکہ ماسکو نے خبردار کیا تھا کہ وہ اس طرح کی کارروائی کو ایک بڑی کشیدگی کے طور پر دیکھے گا۔
زیلینسکی نے پوتن کے ٹیلی ویژن پر آنے کے بعد ایکس پر لکھا کہ روس کی جانب سے نئے ہتھیار کے استعمال کا اعتراف روسی سرزمین پر شمالی کوریا کے فوجیوں کی تعیناتی کے بعد ایک اور کشیدگی ہے۔ زیلنسکی نے کہا کہ جمعرات کو ہونے والا حملہ اس بات کا ’ایک اور ثبوت ہے کہ روس کو امن میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
’دنیا کو اس کا جواب دینا چاہیے۔ فی الحال دنیا کی طرف سے کوئی سخت رد عمل سامنے نہیں آیا ہے۔ روس کے اقدامات پر سخت رد عمل کا فقدان یہ پیغام دیتا ہے کہ اس طرح کا رویہ قابل قبول ہے۔‘
ایک امریکی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ روس کے پاس ممکنہ طور پر جمعرات کے حملے میں استعمال ہونے والےتھوڑے سے ’تجرباتی‘ میزائل موجود ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یوکرین کی فضائیہ کا کہنا ہے کہ میزائل نے وسطی مشرقی یوکرین میں ڈینیپرو کو نشانہ بنایا اور اسے 700 کلومیٹر (435 میل) سے زیادہ دور روسی علاقے استراخان سے داغا گیا۔
اوسلو یونیورسٹی کے ڈاکٹریٹ ریسرچ فیلو فیبین ہوفمین، جو میزائل ٹیکنالوجی اور جوہری حکمت عملی میں مہارت رکھتے ہیں، کا کہنا ہے کہ اس ہتھیار کا سب سے اہم پہلو یہ تھا کہ اس میں ایم آئی آر وی ڈی (متعدد آزادانہ طور پر ہدف بنانے والی ریانٹری وہیکل) پے لوڈ تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ روس نے اس ہتھیار کا انتخاب ’اشارے کے مقاصد سے‘ کیا ہے۔ ’یہ پے لوڈ خاص طور پر جوہری صلاحیت رکھنے والے میزائلوں سے منسلک ہے۔‘
یوکرین کی فضائیہ کا کہنا ہے کہ روس نے کنزال ہائپر سونک میزائل اور سات کے ایچ 101 کروز میزائل داغے جن میں سے چھ کو مار گرایا گیا۔
فضائیہ نے کہا کہ حملے میں ڈنیپرو میں کاروباری اداروں اور اہم بنیادی ڈھانچے کو نشانہ بنایا گیا۔ ڈینیپرو سوویت دور میں میزائل بنانے کا مرکز تھا۔ یوکرین نے جنگ کے دوران اپنی فوجی صنعت میں توسیع کی ہے لیکن اپنے ٹھکانے کو خفیہ رکھا ہے۔
ریجنل گورنر سرہی لیساک نے کہا کہ حملے میں ایک صنعتی ادارے کو نقصان پہنچا اور ڈنیپرو میں آگ بھڑک اٹھی۔ دو افراد زخمی ہوئے۔
سرکاری نشریاتی ادارے سسپیلن نے کہا ہے کہ یوکرین میں جمعے کو ہونے والا پارلیمانی اجلاس سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر ملتوی کر دیا گیا ہے۔