اسلام آباد کا شمار دنیا کے خوبصورت ترین شہروں میں ہوتا ہے اس کی خوبصورتی کی وجہ جہاں پر اس کے ارد گرد سر سبز و شاداب پہاڑیاں ہیں وہاں پر اس کی منصوبہ بندی کے تحت بنائی جانے والی آبادیاں بھی ہیں۔
لیکن اب وہ شہر جو اس کے آرکیٹیکٹس نے ڈیزائن کیا تھا اس سے کہیں زیادہ بڑا ایسا شہر بھی اس کے ارد گرد آباد ہو گیا ہے جہاں نہ کوئی منصوبہ بندی ہوئی نہ ہی کسی نے اس بے ہنگم اضافے کو روکنے کی کوشش کی۔ یہ صورتحال نہ صرف جاری ہے بلکہ آئے روزبد سے بد تر ہوتی چلی جا رہی ہے۔
ایک جانب ایک ریسٹورنٹ کو پہاڑیوں سے اس لیے گرا دیا جاتا ہے کہ اس سے جنگل کا فطری ماحول تباہ ہو رہا ہے مگر اسی جنگل کا وہ حصہ جو یہاں سے چند سو قدم کے فاصلے پر ہے وہاں ہر طرح کی تعمیرات کی اجازت ہے۔
وہاں کے ضابطے الگ ہیں کیونکہ وہ جگہ اسلام آباد میں نہیں بلکہ خیبر پختونخوا کی حدود میں ہے۔ گزرے سالوں میں دو مرتبہ ایسی کوششیں ہوئیں کہ پہاڑیوں کی دوسری جانب بھی کسی ضابطے کے تحت شہر بسایا جائے مگر یہ دونوں کوششیں ناکام ہو گئیں۔
مارگلہ ٹنل کا آئیڈیا کس کا تھا ؟
یہ 2012 کی بات ہے پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض نے میڈیا سے گفتگو میں دعویٰ کیا تھا کہ حکومت مارگلہ سے ایک سرنگ نکالنے کی اجازت دے تو وہ پاکستان کا کل بیرونی قرضہ اتار سکتے ہیں۔
منصوبے کی تفصیلات میں انہوں نے بتایا تھا کہ وہ اسلام آباد جیسا ایک اور شہر مارگلہ پہاڑیوں کی دوسری جانب بسانا چاہتے ہیں جہاں اتنی بیرونی سرمایہ کاری آ سکتی ہے کہ اس سے پاکستان کا تمام قرضہ اتر سکتا ہے۔
ملک ریاض کے اس منصوبے کے بعد حکومت بھی جاگ اٹھی اور اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کی ہدایت پر ستمبر2013 میں وفاقی ترقیاتی ادارے نے دن رات کی محنت سے جڑواں دارالحکومت کا ایک منصوبہ بنایا اور اسے وزیراعظم کو پیش کر دیا۔
اس منصوبے کے دو حصے تھے۔ مارگلہ سے سرنگ نکال کر ہری پور کے علاقے تک اسلام آباد کو توسیع دی جانی تھی جسےجڑواں دارالحکومت کا نام دیا گیا۔ جبکہ دوسرے حصے میں فیض آباد سے روات تک اسلا م آباد ایکسپریس وے کو دوبئی کے شیخ زید روڈ کی طرح ترقی دے کر یہاں کثیر المنزلہ عمارات تعمیر کی جانی تھیں۔
روات میں 25,000 ہزار ایکڑ پر مشتمل ایک اکنامک زون جس میں کارگو ائیر پورٹ بھی شامل تھا اس منصوبے کا حصہ تھا۔
اس مقصد کے لیے راولپنڈی کے 42 دیہات کی زمین ایکوائر کی جانی تھی جس کے لیے پنجاب حکومت کو خط بھی لکھ دیا گیا تھا۔ سی ڈی اے نے زمینوں کی خریداری کے لیے 70ارب روپیہ بھی مانگ لیا تھا۔ سی ڈی اے کے بورڈ نے ایک الگ کمپنی پاکستان ایونیو ڈویلپمنٹ لمیٹڈ کے قیام کی منظوری دے دی تھی جس نے اس منصوبے کو پایۂ تکمیل تک پہنچانا تھا۔ توقع تھی کہ اس سے 12ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہو گی اور جو شہر بے ہنگم طریقے سے بڑھ رہا ہے اس کو کسی ضابطے کے تحت لایا جائے گا۔
جب انڈیپنڈنٹ اردو نے سی ڈی اے کے ان افسران سے رابطہ کیا جو اس منصوبے کا حصہ تھے تو ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ یہ منصوبہ دراصل صدر مشرف کے دور میں شروع ہوا تھا۔
مشرف چاہتے تھے کہ مارگلہ سے ایک سرنگ نکال کر دوسری طرف کے خوبصورت نظاروں میں بھی اسلام آباد کا ایک جڑواں شہر بسایا جائے۔ جس کے لیے سی ڈی اے نے ابتدائی کام بھی مکمل کر لیا۔ مگر پھر ایک روز بتایا گیا کہ اس منصوبے کو بند کر دیا جائے۔
اس کی وجہ یہ بیان کی گئی کہ خان پور کی طرف پہاڑیوں کے اندر حساس تنصیبات ہیں جن کی سکیورٹی متاثر ہو سکتی ہے۔ نوازشریف کے دور میں پھر زورو شور سے کام شروع ہوا۔ سی ڈی اے نے ایک مکمل پلان بھی بنا لیا مگر پھر سپریم کورٹ حرکت میں آئی تو نواز شریف حکومت بھی اس منصوبے سے دست بردار ہو گئی۔
روئیداد خان جن کی درخواست پر سپریم کورٹ نے منصوبہ بند کروایا
نامور سابق بیوروکریٹ روئیداد خان مارگلہ ہلز سو سائٹی کے صدر تھے انہیں جب مشرف دور میں مارگلہ ٹنل منصوبے کی بھنک پڑی تو انہوں نے اکتوبر 2005 میں سپریم کورٹ کو ایک چٹھی ڈال دی کہ جنرل مشرف ایک پراپرٹی ٹائیکون کے کہنے پر مارگلہ کی پہاڑیوں سے سرنگ نکالنا چاہتے ہیں تاکہ پہاڑیوں کی دوسری جانب ایک نیا شہر بسایا جا سکے۔
روئیداد خان نے مؤقف اپنایا تھا کہ اس سے مارگلہ کے قدرتی ماحول اور وہاں موجود جنگلی حیات شدید خطرے سے دوچار ہو جائے گی اس لیے اس منصوبے کو روکا جائے۔ یہ وہ دور تھا جب اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری اپنے سو موٹو کے خصوصی اختیارات کی وجہ سے ہر روز سرخیوں میں رہتے تھے۔ انہوں نےایک خصوصی بنچ بنا کر حکومت سے وضاحت طلب کر لی اور اکتوبر 2013 میں سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ اس منصوبے کو بند کر دیا جائے۔
سی ڈی اے حکام نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ جب اسلام آباد بنا تھا تو تب ون یونٹ تھا۔ مری سے لے کر ہری پور تک کسی بھی منصوبے کو اس وقت تک شروع نہیں کیا جاتا تھا جب تک اسلام آباد سے اس کا این او سی نہیں لیا جاتا تھا مگر پھر 1970 میں ون یونٹ بحال ہو گیا تو مسائل نے جنم لینا شروع کر دیا۔
سب سے بڑا مسئلہ تو راولپنڈی سے ہے جہاں سڑک کے دوسری طرف قانون بھی بدل جاتا ہے اور انتظامیہ بھی ،ایسے میں اسلام آباد کے ماسٹر پلان پر نظر ثانی کی ضرورت ہےجس کے لیے ابھی تک کوئی سنجیدہ کوشش نہیں ہوئی۔
مارگلہ ہلز نیشنل پارک، کیا اسلام آباد کا ماحول بچا پائے گا ؟
شہباز شریف نے پچھلے دور میں مارگلہ ہلز پر شاہ اللہ دتہ سے خان پور تک سکندراعظم روڈ کی تعمیر کا سنگ بنیاد رکھا تھا۔
اس سڑک کی تعمیر کے بعد خان پور ڈیم کا اسلام آباد سے فاصلہ آدھے گھنٹے کا رہ جائے گا۔ وہاں زمینوں کی خریداری عروج پر ہے کیونکہ اسلام آباد کی توسیع اب اسی طرف ہو سکتی ہے۔ خیبر پختونخواہ کی حکومت نے بھی ہزارہ موٹر وے کو اسلام آباد سے ملانے کے لیے خان پور انٹر چینج سے اسلام آباد کے سیکٹر ڈی 12 تک ایک روڈ کا منصوبہ پیش کیا ہے جس میں 2.8 کلومیٹر کی ایک ٹنل بھی شامل ہے۔ اس کی تعمیر کے بعد ہزارہ موٹر وے خان پور انٹر چینج سے اسلام آباد کا فاصلہ 16 کلومیٹر رہ جائے گا۔
سول سوسائٹی کی رکن جیا جگی جو اسلام آباد کے قدرتی ماحول کے تحفظ کے لیے سرگرم ہیں انہوں نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ اسلام آباد میں اگر ماحولیاتی ایمرجنسی نافذ نہ کی گئی تو یہ بھی چند سالوں میں لاہور بن جائے گا۔ مارگلہ پہاڑیوں کی دوسری جانب ایم ایل ون کا میگا پراجیکٹ حویلیاں ڈرائی پورٹ تعمیر کیا جانا ہے۔ مستقبل میں یہاں سے چین تک ریلوے لائن بننی ہے۔ اس لیے پہاڑیوں کی دوسری جانب کا علاقہ اکنامک ہب بن جائے گا۔ ٹنل آج نہیں بنی تو کل بنانی ہی پڑے گی۔ کیا یہ وقت نہیں ہے کہ وہاں بے ہنگم آبادیوں کی جگہ منظم آبادیوں کی منصوبہ بندی کی جائے جو ماحول دوست بھی ہوں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
فہد رضوان کا شمار ان نوجوانوں میں ہوتا ہے جو سوشل میڈیا پر اسلام آباد کے قدرتی ماحول پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مونال ریسٹورنٹ گرایا جا چکا ہے۔ مارگلہ ہلز میں ٹنل بنانے کا منصوبہ بھی بند کر دیا گیا ہے۔ بظاہر یہ سمجھا جا رہا ہے کہ 42,960 ایکڑ پر قائم مارگلہ ہلز نیشنل پارک کو بچا کر اسلام آباد کے قدرتی ماحول کو بچا لیا گیا ہے۔ مگر مارگلہ ہلز نیشنل پارک کے حدود اربعے کے باہر چند سو قدم کے فاصلے پر ہوٹلز، موٹلز، پارک، ریسٹورنٹس، تعمیراتی اور تجارتی سرگرمیوں کی قطار لگی ہوئی ہے۔ کیونکہ یہ علاقے خیبر پختونخواہ میں آتے ہیں جہاں الگ قانون اور ضابطے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ، وفاق اور سول سوسائٹی شانت ہو گئے ہیں کہ ایک ریسٹورنٹ گرا کر انہوں نے ماحول کو تباہ ہونے سے بچا لیا ہے مگر وہاں پر آباد چرند پرند اور درخت یہ نہیں جانتے کہ مارگلہ کی پہاڑیوں میں نیشنل پارک کی حدود کہاں سے شروع ہوتی ہے اور کہاں ختم ہو جاتی ہے، کہاں وہ محفوظ ہیں اور کہاں انہیں خطرہ ہے۔
وکیل ، کالم نگار اور مارگلہ ہلز کے تحفظ کی ایک توانا آواز آصف محمود نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا سپریم کورٹ کو اتنے دور مونال نظر آ گیا مگر اپنے ساتھ شکرپڑیاں نظر نہیں آیا جو مارگلہ ہلز نیشنل پارک کا ہی حصہ ہے جہاں اشرافیہ نے اپنے کلب بنا رکھے ہیں۔
ایگرو ٹورازم کے ماہر خواجہ مظہر اقبال نے بتایا کہ اسلام آباد راولپنڈی کے 70 فیصد علاقے پانی کی شدید کمی کا شکار ہیں۔ آلودگی بڑھ رہی ہے جس کی وجہ سے راولپنڈی اسلام آباد کے امرا کی چشمِ انتخاب اب خان پور پہ ہے۔ یہاں بڑے بڑے فارم ہاؤسز بننا شروع ہو چکے ہیں۔ ان کی دیکھا دیکھی عام لوگ بھی وہاں آباد ہونا شروع ہو چکے ہیں۔ اگر وہاں ریگولیشنز نہ بنائی گئیں تو اسلام آباد کے قدرتی ماحول کے ساتھ جڑواں شہروں کو صاف پانی فراہم کرنے والا خان پور ڈیم بھی راول ڈیم کی طرح آلودہ ہوجائے گا۔