افغانستان کے جنوبی صوبے قندھار کے باغات میں پیدا ہونے والے انار عالمی سطح پر افغانستان کی پہچان ہیں اور پاکستان اور انڈیا کی منڈیوں میں خاصی اہمیت رکھتے ہیں لیکن حالیہ برسوں میں پاکستان افغانستان سرحد پر تجارتی مشکلات کے ساتھ ساتھ سیاسی تنازعات کے باعث قندھار کے انار کی درآمدات میں نمایاں کمی آئی ہے۔
انار کی مارکیٹ اور کولڈ سٹوریج کی سہولیات نہ ہونے کے سبب اب ان اناروں کو پرانی اور روایتی طرز پر محفوظ کرنے کے لیے انار دانے کی شکل دی جا رہی ہے۔
افغانستان کے صوبہ قندھار کے تحصیل ارغنداب کے علاقے خوجمک سے تعلق رکھنے والے انار دانے کے تاجر یاقوت نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ مقامی سطح پر انار دانے کی تجارت میں روز بروز مشکلات بڑھ رہی ہیں جس کا بنیادی سبب پاکستان افغانستان سرحد پر بڑھتے ہوئے ٹیکسز اور مقامی منڈی میں انار دانے کی کم قیمتیں ہیں۔
یاقوت کا کہنا ہے کہ یہ مشکلات ان کے کاروبار کو نقصان پہنچا رہی ہیں اور اگر صورت حال یہی رہی تو زیادہ تر تاجر اپنا کاروبار ترک کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔
انار دانہ کیا ہے؟
انار دانہ، انار کے پھل کا ایک خاص قسم کا پروڈکٹ ہے، جسے انار کے بیجوں کو نکال کر اور خشک کرکے تیار کیا جاتا ہے۔ یہ دانے نہ صرف ذائقہ دار ہوتے ہیں بلکہ ان میں وٹامنز کی ایک بڑی مقدار بھی ہوتی ہے۔ انار دانے مختلف کھانوں، چٹنیوں اور مٹھائیوں میں استعمال کیا جاتے ہیں اور یہ مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیائی کھانوں میں استعمال ہونے والے مصالحوں کا خاص جُز مانا جاتا ہے۔
انار دانہ کیسے بنایا جاتا ہے؟
یاقوت نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انار کے دانے نکالنے کا یہ عمل کافی محنت طلب ہوتا ہے۔
’ہم وہ انار بازار سے خرید کر گھر لے آتے ہیں جو پھٹے ہوتے ہیں اور دور دراز علاقوں تک لے جانے کے قابل نہیں ہوتے۔ گھروں میں خواتین، بچے اور مرد سب مل کر ان انار کے دانے نکالتے ہیں، یہ دانے نکالنے کے بعد انہیں خشک کرنے کے لیے ہموار میدانوں میں بچھا لیا جاتا ہے جہاں یہ دانے تقریباً پانچ سے چھ دن تک رہتے ہیں، اس کے بعد جب انار کے یہ دانے مکمل طور پر خشک ہو جاتے ہیں تو انہیں اکٹھا کر کے پارسلز میں بھر کر گاڑیوں کے ذریعے مارکیٹ میں فروخت کے لیے بھیجا جاتا ہے۔‘
انار دانے کا استعمال
انار دانے کا استعمال مختلف کھانوں اور مٹھائیوں میں کیا جاتا ہے، اسے مختلف مصالحہ جات، چٹنیوں، سلاد اور مختلف مٹھائیوں میں شامل کیا جاتا ہے۔ اس کا استعمال نہ صرف ذائقے کے لیے ہوتا ہے بلکہ یہ اچھی صحت کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے، جیسے کہ دل اور مدافعتی نظام کو مضبوط کرنا۔
انار دانے کو خشک کر کے استعمال کرنے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ اس طریقہ کار سے انار کی مدتِ استعمال بڑھ جاتی ہے جس سے یہ طویل عرصے تک محفوظ رہتا ہے۔
ٹیکسز اور تجارتی نقصان کا سامنا
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
قندھار چیمبر آف کامرس کےمطابق سال 2022 میں قندھار سے پاکستان، بھارت اور چند خلیجی ممالک کو تقریباً 88 ہزار ٹن انار اور انار دانہ برآمد کیا گیا تھا، لیکن سال 2023 میں یہ مقدار تقریباً 73 ہزار ٹن تک ہی محدود رہی اور رواں سال اس میں مزید تنزلی دیکھنے میں آ رہی ہے۔
قندھار چیمبر آف کامرس کے مطابق اس کمی کی بڑی وجہ پاکستان افغانستان سرحد سپن بولدک اور چمن کے درمیان تجارتی راستے کی وقتا فوقتا بندش اور نئے لاگو کیے جانے والے ٹیکسز ہیں۔
قندھار کے تاجر اور کسان یاقوت کہتے ہیں کہ افغانستان اور پاکستانی حکام کی جانب سے عائد ٹیکسوں کی وجہ سے انار دانے کی قیمت میں اضافے کے باوجود منافع کی شرح انتہائی کم ہو چکی ہے۔
’قندھار میں اس وقت ایک من انار دانے کی قیمت تقریباً 105 افغانی ہے، جبکہ پچھلے سال یہی انار دانہ 600 افغانی تک میں فروخت ہوتا تھا۔ اس قیمت میں کمی کے باعث کئی مقامی تاجر بھاری نقصان اٹھا رہے ہیں۔‘
قندھار کے چیمبر آف کامرس کے نائب صدر عبدالباقی کہتے ہیں کہ انہوں نے کئی بار یہ مطالبہ کیا ہے کہ ’سیاست اور تجارت کو الگ رکھا جائے تاکہ ہماری تجارت کو نقصان نہ پہنچے، مگر کوئی شنوائی نہیں ہو رہی۔‘
متبادل منڈیوں کی تلاش
قندھار کے محکمہ زراعت کے مطابق صوبے میں اس وقت 18 ہزار ہیکٹرز (180 مربع کلومیٹر) پر پھیلے انار کے باغات سے سالانہ لگ بھگ تین لاکھ میٹرک ٹن انار اکھٹے ہوتے ہیں۔
قندھار کے چیمبر آف کامرس کے نائب صدر عبدالباقی کا کہنا ہے کہ موجودہ مشکلات کے باوجود، افغان تاجر انار اور انار دانے کو انڈیا، روس، قازقستان اور دیگر ایشیائی اور یورپی ممالک کو ایران کی براستہ بندر عباس اور چاہ بہار کے برآمد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ اگرچہ پاکستان ان کا بنیادی تجارتی راستہ ہے لیکن وہ کوشش کر رہے ہیں کہ دوسرے ممالک تک رسائی حاصل کریں تاکہ افغان تاجروں کا پاکستان پر انحصار کم کیا جا سکے۔
قندھار کے یاقوت اور دیگر تاجر چاہتے ہیں کہ دونوں ممالک کی حکومتیں ان پر عائد ٹیکسز میں کمی کریں تاکہ وہ اپنا کاروبار جاری رکھ سکیں۔
یاقوت کا کہنا ہے ’اگر ہمیں افغان اور پاکستانی حکام سرحدی ٹیکسز میں ریلیف دیں تو ہماری مصنوعات پاکستان کی منڈیوں میں اچھی قیمت پر فروخت ہو سکتی ہیں، جس سے ہم دوبارہ سے اپنے کاروبار میں استحکام لا سکتے ہیں۔
’پاکستان میں ایک کلو انار دانہ 700 روپے تک پہنچ جاتا ہے، جبکہ ہمیں یہاں افغان منڈی میں اس کا خاطر خواہ منافع نہیں ملتا۔ اگر ٹیکسز کم نہیں ہوئے اور ہماری محنت کا مناسب معاوضہ نہ ملا تو ہم اپنا کاروبار چھوڑنے پر مجبور ہو جائیں گے۔‘