سچ بھی تو اڈیالہ میں قید ہے

آج اگر ریاستی اداروں کو جھوٹی خبروں سے تکلیف ہورہی ہے تو گزارش یہ ہے کہ جناب ان جھوٹ ناموں کے ایڈیٹر اِن چیف بھی آپ ہی ہیں۔

دو دسمبر 2023 کو راولپنڈی میں واقع اڈیالہ جی کے مناظر، جہاں عمران خان اور شاہ محمود قریشی کے خلاف سائفر کیس کی سماعت ہوئی (مونا خان/ انڈپینڈنٹ اردو)

کیسی لاوارثی سچ کے حصے میں آئی ہے جسے رونے والا کوئی نہیں۔ یہاں اپنے پیاروں کا ماتم کرنے والے سینے چھیل لیتے ہیں۔ جن کے اپنے لاپتا ہوجائیں وہ سڑکوں سے ٹلنے کو راضی نہیں ہوتے۔ جن کے بچے گھر نہیں لوٹے وہ ان کی تصویر لیے خود بے بسی کی تصویر بنے پھرتے ہیں۔

جن کا عزیز بے خطا مارا جائے وہ کچھ نہ کرسکے تو کم از کم  ہائی وے پہ لاش والی چارپائی رکھ ہی کر احتجاج کرلیتا ہے۔ جن کا لیڈر دھر لیا جائے وہ شہر کے شہر بند کرا دیتے ہیں۔ وہ ریاست کو چیلنج کرتے ہیں۔ نعرے لگاتے ہیں، املاک جلاتے ہیں، مرنے مارنے پہ اتر آتے ہیں۔

لیکن عجب قصہ ہے سچ کے ساتھ جس کا روز قتل ہوتا ہے لیکن انصاف دلانے والا کوئی نہیں۔ یہ سچ رات کے اندھیروں میں لاپتہ کر دیا جاتا ہے لیکن کوئی اس گمشدہ کی رپورٹ درج کرانے تھانے نہیں پہنچا۔

سچ کو دن دیہاڑے کبھی گھر، کبھی دفتر، کبھی سڑک، کبھی پولنگ سٹیشن، کبھی کمرہ عدالت اور کبھی اسمبلی کے فلور پہ مغوی بنالیا جاتا ہے لیکن سچ کے لیے تاوان بھرنے والا کوئی نہیں۔ سچ بھی تو اڈیالہ میں قید ہے لیکن اس قیدی کی رہائی کے لیے آسمان سر پہ اٹھانے والا کوئی نہیں۔

ہمیشہ سے یہی مانا گیا کہ صحافی سچ کا سپاہی ہوتا ہے۔ صحافت کا پیشہ اس مشکل سمجھوتے سے شروع ہوتا ہے کہ جو کہوں گا سچ کہوں گا اور سچ کے سوا کچھ نہیں کہوں گا۔ اس سچ کی حفاظت ایک صحافی کا واحد فرض ہے۔

لیکن پاکستان میں سچ کی لاوارثی بتاتی ہے کہ کم از کم صحافت میں اب سچ کی کوئی جگہ نہیں رہی۔ جنہیں سچ کی خاطر ڈنڈے کھانے چاہیے تھے وہ تو کب کے ریاست کو پیارے ہوگئے۔ جنہیں سچی خبروں سے کم  کسی بات پہ راضی نہیں ہونا تھا وہ تو کب کا راضی ناموں پہ دستخط کرچکے۔

سچ بھی تو ریاستی ڈنڈے کے زور پہ اڈیالہ میں قید ہے لیکن اس قیدی کی وکالت کرنے والے تو خود مخالف پارٹی سے جا ملے۔ پاکستان کا مین سٹریم میڈیا جس کا گلا سچ  سچ کی گردان سے خشک نہیں ہوتا وہ تو کب کا سچ کی قبر کھودے بیٹھا ہے کہ کب ریاستی حکم نامہ آئے اور یہ سچ کی لاش کو اڈیالہ سے وصول کریں۔

پاکستان میں جھوٹی خبروں، پراپیگنڈے اور فیک نیوز کو دوام کسی اور نے نہیں خود ریاست نے بخشا ہے۔ ملک کے قابل اعتماد صحافتی اداروں کو کسی دشمن کی طرح نیوٹرل کرنے میں کچھ دقت ہوئی، کچھ وقت لگا، کچھ لعن طعن برداشت کی لیکن بہرحال ریاستی اداروں نے یہ ٹارگٹ کامیابی سے حاصل کیا۔

اداروں نے پاکستانی صحافت کو سیاست اور بزنس کےایسے گند میں لتھیڑا کہ اب عوام میڈیا پہ اعتماد کے بجائے ان کی تواضع گالیوں سے کرتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جب حکمران، ریاستی ادارے اور ان کے گماشتے یہ طے کریں کہ نیوز ٹی وی کی سکرینوں پہ کیا چلے گا، اخبار کی سرخی کیا ہوگی، کس لیڈر کی آواز چلانے پہ پابندی ہوگی، کون سے لیڈر کی شکل دکھانے پہ قدغن ہوگی، مرنے والوں کی تعداد کیا ہوگی، زخمی کتنے ہوں گے، کون سا رپورٹر کس بیٹ کی کوریج کرے گا، کس پارٹی کو کون سا صحافی ہی رپورٹ کرسکتا ہے، عسکری معاملات کی رپورٹنگ کون رپورٹر کرے گا اور معیشت کی رپورٹ میں کتنے عدد بتائے جائیں گے، تو کون کم بخت ایسے  نیوز میڈیا سے خبر لے گا جو خود محصور ہے، جو خود مغوی ہے، جو خود کمپرومائزڈ ہے۔

جب حکمران اور ان حکمرانوں کے بھی حاکم یہ طے کریں کہ سرکاری اشتہار کسے ملے گا، کس بزنس مین کو نیوز چینل کھولنے کا لائسنس ملے گا، کس اینکر کو سرکار نوازے گی ، کسے سرکاری دوروں میں جہاز کی مفت چڈی دی جائے گی اور کسے سرکاری ٹی وی کی سکرین پہ لامحدود ایئر ٹائم ملے گا تو پھر ایسے میڈیا کو رجیم میڈیا کیوں نہ کہا جائے۔

ٹی وی سکرین کے ذریعے فاصلاتی تعلیم کے زمانے لد گئے۔ سوئی میں دھاگہ کیسے پڑے گا، کپاس کی فصل سے سُنڈی کیسے بھاگے گی، معیشت واپس پٹڑی پہ کون لائے گا، دخترِ پاکستان کس کا فیتہ کاٹیں گی، خادم اعلیٰ کیسے مسکائیں گے، یہ سب تو سرکاری نیوز میڈیا عرصے سے بتا رہا ہے، پاکستانی عوام کو صحافیوں اور نیوز میڈیا سے سچ سننے کی امید تھی جو اب ختم ہوچکی ہے۔

پاکستان میں سچ کے خلا کواب یوٹیوبرز، ٹک ٹاکرز، انسٹاگرامز اور فیس بُکیے سچ، جھوٹ اور من گھڑت کہانیوں سے پُر کررہے ہیں۔

ہر کوئی صحافت کا استاد نہیں کہ سچ اور پراپیگنڈے میں فرق جانچ سکے۔ آج اگر ریاستی اداروں کو جھوٹی خبروں سے تکلیف ہورہی ہے تو گزارش یہ ہے کہ جناب ان جھوٹ ناموں کے ایڈیٹر اِن چیف بھی آپ ہی ہیں۔

یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر