سلیم احمد نے لکھا تھا: ’آزادی رائے کو بھونکنے دو۔۔۔‘ اب تو مگر یہ کاٹنے کو آ رہی ہے، سوال یہ ہے کہ اب کیا کیا جائے؟
فیک نیوز آزادی رائے نہیں ہے۔ آزادی رائے درست طور پر بیان کی خبر پر اختلاف رائے کے حق کا نام ہے۔ فیک نیوز جھوٹ کا دھندا ہے۔
فیک نیوز اب کوئی انفرادی عمل نہیں رہا۔ یہ ایک منظم واردات بن چکی ہے۔ اس غارت گری کو روکا نہ گیا تو اس میں یہ صلاحیت ہے کہ یہ معاشرے اور ریاست کی چولیں ہلا دے۔ کیا اہل صحافت اور اہل اقتدار کو اس معاملے کی سنجیدگی کا کوئی احساس ہے؟
سائبر ٹروپس کو سچ سے کوئی سروکار نہیں۔ ان میں سے بعض وہ ہیں جو شعوری طور پر ریاست کے خلاف نبرد آزما ہیں، کچھ کو ہر حال میں ریٹنگ درکار ہے۔
پوسٹ ٹروتھ کا یہ کشتہ مرجان چاہے تو کسی کالج میں ریپ کی جھوٹی داستان کو بنیاد بنا کر ایسے ایسے رجز پڑھے کہ معاشرہ سہم کر رہ جائے ا ور یہ چاہے توڈی چوک میں قتل عام کی خواہش کو خبر بناتے ہوئے وہاں 270 لاشے گروا دے۔
سچ جب تک سامنے آتا ہے جھوٹ معاشرے میں غارت گری پھیلا چکا ہوتا ہے۔ وطن عزیز میں جھوٹ ایک باقاعدہ حکمت عملی بن چکا ہے اور تکلیف دہ بات یہ ہے کہ یہ حکمت عملی خود حکومتوں کے ہاں بھی موجود رہی ہے۔
حالیہ احتجاج میں موٹر وے کی بندش کی جو وجہ بتائی گئی وہ بھی فیک نیوز ہی تھی۔ بجائے اس کے کہ صاف صاف عوام کو بتایا جاتا کہ تحریک انصاف کے آئے روز کے احتجاج سے ملک کو نقصان پہنچ رہا ہے اور یہ سلسلہ اب برداشت نہیں کیا جا سکتا، کہا گیا ہم نے موٹر وے کو مرمت کے لیے بند کیا ہے۔
یہ وہ جھوٹ تھا جس کا کوئی احمق بھی یقین نہیں کر سکتا تھا۔
سب کو معلوم تھا کہ موٹر وے بندش کی کیا وجوہات ہیں۔ یہ وجوہات منطقی تھیں۔ عوام کو اعتماد میں لیا جا سکتا تھا اور لیا جانا چاہیے تھا۔ لیکن غیر ضروری جھوٹ بولا گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس سے نقصان یہ ہوتا ہے کہ حکومتیں بھی اپنا اعتبار گنوا بیٹھتی ہیں۔ جب حکومت کی بات کا اعتبار نہ رہے تو پھر پروپیگنڈے کی ہلاکت خیزی کو روکنا مشکل ہو جاتا ہے۔
یہ قوالی تو شہر کے ہر چوراہے پر گائی جا رہی ہے کہ آئین ہمیں آزادی رائے کا حق دیتا ہے۔ قوالوں اور ہمنواؤں میں مگر شاید ہی کسی کو معلوم ہو کہ آئین ہی میں آزادی رائے کی لگامیں کس دینے کا پورا پورا بندوبست موجود ہے۔
آئین پاکستان کا آرٹیکل 19 جہاں آزادی رائے کا حق دیتا ہے وہیں وہ یہ بھی قرار دیتا ہے کہ آزادی رائے کی ایسی شکل ناقابل قبول ہے جو دیگر ریاستوں کے ساتھ پاکستان کے دوستانہ تعلقات کی روح کے منافی ہو۔
اس وقت پاکستان کی داخلی سیاست میں جس غیر ذمہ دارانہ انداز سے دیرینہ دوست ممالک کا تذکرہ ہو رہا ہے کیا یہ آرٹیکل 19 سے متصادم نہیں؟
ہمارے جلسوں اور پریس کانفرنسوں سے لے کر ہمارے ٹاک شوز تک آزادی رائے کے نام پر جو دنگل ہو رہے ہیں کیا وہ آرٹیکل 19 میں دیے گئے شائستگی اور اخلاقیات کے تقاضوں پر پورا اترتے ہیں؟
’آئین اور قانون کے تحت‘ آزادی رائے مانگنے والوں کو کیا یہ معلوم ہے کہ حکومت کے خلاف نفرت پھیلانے یا حتیٰ کہ اس کی توہین کرنے کی سزا آج بھی عمر قید ہے؟ شک ہے تو تعزیرات پاکستان کی دفعہ 124 اے پڑھ لیجیے۔
کوئی نومولود انقلابی اگر اس قانون کے خلاف رجز پڑھنا چاہے تو شوق سے پڑھے مگر اتنا یاد رکھیں کہ یہ قانون سادہ اکثریت سے بدل سکتا ہے مگر ن لیگ اور پاکستان پیپلز پارٹی ہی نے نہیں خود تحریک انصاف نے بھی اس کو نہیں بدلا۔ گویا اس پر سب کا اتفاق ہے۔
پیمرا ریگولیشنز 2012 کے باب پنجم میں سیکشن 18 میں ٹاک شوز کے جو معیارات دیے گئے ہیں، کیا ہمارے ٹاک شوز ان پر پورا اتر رہے ہیں؟ کیا ’پیمرا کانٹینٹ ریگولیشنز 2012‘ پر عمل درآمد ہو رہا ہے؟
یہ سب گویا کم تھا کہ اب یوٹیوبرز میدان عمل میں ہیں۔ بعض کانٹینٹ اور تھمب نیل دیکھیں تو لگتا ہے انہیں ابلیس نے چھو لیا ہے۔ نئے پرانے اور جونیئر سینیئر کی تمیز مٹتی جا رہی ہے۔ اب سب کو ویوز چاہییں۔ ریٹنگ کی دوڑ ہے۔
کوئی دبنگ تجزیہ دیتا ہے، کوئی حیران کن۔ کوئی ششدر رہ جانے کی اداکاری کر رہا ہے کوئی اندر کی خبر لا رہا ہے۔ کوئی ڈگڈی بجا رہا ہے کوئی پٹاری سے سانپ نکال رہا ہے۔ بس کمی ہے تو معقولیت کی۔
معاشرہ ’الامان الامان‘ پکار رہا ہے مگر جونیئر اور سینیئر تجزیہ کار کشتوں کے پشتے لگائے جا رہے ہیں۔
سوشل میڈیا اب ایک ہتھیار بن چکا ہے، خطرہ مگر یہ ہے کہ اس سے نمٹتے نمٹتے حکومت نے معاشرے سے وہ قرض بھی وصول کر لینے ہیں جو واجب بھی نہیں ہونے۔
بے لگام سوشل میڈیا اور لگاموں میں جُتا سعادت مند پی ٹی وی، آزادی رائے ان دونوں سے پناہ مانگتی ہے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔