کینیڈا میں مقیم فلسطینی پروفیسر غزہ یونیورسٹی کو ’زندہ رکھنے‘ کے لیے کوشاں

الازہر یونیورسٹی کے پروفیسر احمد ابو شعبان غزہ میں جارحیت شروع ہونے کے کچھ دن بعد کینیڈا کے شہر ٹورنٹو منتقل ہو گئے تھے اور اب وہاں سے فلسطینی طلبہ کو آن لائن پڑھا رہے ہیں۔

ٹورنٹو میں مقیم یونیورسٹی کے پروفیسر احمد ابو شعبان اکثر صبح تین بجے غزہ میں موجود اپنے طلبہ کو پڑھانے کے لیے جاگتے ہیں۔ ان کے اس عمل کے پیچھے اپنے شاگردوں کے ساتھ وفاداری اور گہرا احساس جرم کار فرما ہے۔

شعبان جو سات اکتوبر 2023 کو غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے آغاز کے کچھ دن بعد غزہ سے منتقل ہو گئے تھے، کا کہنا ہے کہ ان پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کیونکہ ان کے فلسطینی طلبہ ناقابل تصور چیلنجوں کے خلاف تعلیم حاصل کرنے کے لیے بے چین ہیں۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ غزہ میں اعلیٰ تعلیم کے تحفظ میں مدد کریں جبکہ دنیا کی توجہ انسانی ہنگامی صورت حال پر مرکوز ہے۔

لیکن 50 سالہ پروفیسر احمد شعبان نے یہ اعتراف بھی کیا کہ وہ احساسِ جرم تلے دبے ہوئے ہیں۔

انہوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ وہ ’غزہ چھوڑنے کے قصوروار‘ ہیں۔ ’جیسے ہم نے اپنے ملک، اپنے لوگوں، اپنے ادارے کو چھوڑ دیا ہے۔‘

شعبان اب بھی الازہر یونیورسٹی میں فیکلٹی آف ایگریکلچر اینڈ ویٹرنری میڈیسن کے ڈین ہیں، جو اسرائیلی فضائی حملوں میں دیگر یونیورسٹیوں کی عمارتوں کی طرح تباہ کر دی گئی تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا کہ اسرائیلی جارحیت شروع ہونے کے فوراً بعد وہ مصر کی سرحد عبور کر گئے تھے۔

بعدازاں کینیڈا میں ان کے جاننے والوں نے ٹورنٹو کی یورک یونیورسٹی میں ایک پوسٹ کا اہتمام کیا، جہاں وہ ماحولیات اور شہری تبدیلی کی فیکلٹی میں وزٹنگ پروفیسر ہیں۔

خالی بک شیلف اور خالی دیواروں والے کیمپس کے دفتر میں بیٹھے شعبان نے وضاحت کی کہ وہ کسی نہ کسی شکل میں الازہر یونیورسٹی کو فعال بنانے میں مدد کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وہ پوری دنیا کے لیے واضح پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ’انہوں (اسرائیل) نے ہمارا بنیادی ڈھانچہ تباہ کر دیا۔ انہوں نے ہماری عمارتوں کو تباہ کر دیا، لیکن ہم اب بھی زندہ ہیں اور ہم (اپنی جدوجہد) جاری رکھیں گے۔‘

بقول شعبان: ’یہ دراصل ہمارے طلبہ، ہماری قوم اور مستقبل میں ہماری آزاد ریاست کے لیے ایک ذمہ داری ہے۔‘

پروفیسر شعبان، جو جامعہ الازہر کے بورڈ میں شامل ہیں، نے کہا کہ اسرائیلی جارحیت سے قبل وہاں 14,000 طلبہ زیر تعلیم تھے۔

اس سال کے شروع میں جب آن لائن کورسز کے لیے رجسٹریشن کا آغاز ہوا تو انہیں امید تھی کہ ایک ہزار کے قریب طلبہ ہی اس میں شامل ہوں گے۔

تاہم انہوں نے بتایا کہ 10 ہزار طلبہ نے رجسٹریشن کروائی۔

’یہ میرے لیے واقعی چونکا دینے والا تھا کیونکہ ذرا تصور کریں کہ آپ خیمے میں رہتے ہیں، آپ کے پاس بجلی نہیں ہے، آپ کے پاس انٹرنیٹ نہیں ہے۔ آپ کے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔

’لیکن آپ کے پاس اب بھی امید ہے کہ آپ آن لائن کورسز کے لیے سائن اپ کرنے جائیں گے اور انٹرنیٹ کنکشن حاصل کرنے کے لیے پانچ کلومیٹر پیدل چلیں گے اور یہاں تک کہ بات چیت کرنے، بیٹھنے اور مطالعہ کرنے کے لیے۔ بعض اوقات انٹرنیٹ کی تلاش کے دوران آپ اپنی جان کو خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔‘

پروفیسر شعبان نے تسلیم کیا کہ ان کا ذاتی شیڈول ’تھکا دینے والا‘ ہے، کیونکہ وہ دو ٹائم زونز میں کام کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

گذشتہ ماہ ایک دن وہ صبح چھ بجے الازہر بورڈ کے اجلاس سے پہلے غزہ کے فوڈ سسٹم پر ایک ورکشاپ میں شامل ہونے کے لیے صبح تین بجے اٹھے۔ اس کے بعد انہوں نے غزہ کی جنگ پر ایک گیسٹ لیکچر کی تیاری کے لیے اپنے ٹورنٹو آفس کا رخ کیا۔

شام کو اور ہفتے کے اختتام پر وہ اپنے فلسطینی طلبہ کے لیے لیکچرز ریکارڈ اور اپ لوڈ کرتے ہیں۔

پروفیسر شعبان نے کہا کہ انٹرنیٹ تک رسائی کے چیلنجوں کے پیش نظر یہ پروگرام لچکدار ہے۔ طلبہ اپنی سہولت کے مطابق لیکچر دیکھتے ہیں اور اسائنمنٹ مکمل کرتے ہیں، جب بھی وہ اسے آن لائن حاصل کر سکیں۔

انہوں نے کہا کہ غزہ میں طلبہ ’ناراض‘ اور ’دباؤ‘ میں ہو سکتے ہیں۔ وہ جاننا چاہتے ہیں کہ وہ کب لیبارٹری میں کام کرنے کے قابل ہوں گے جبکہ تمام لیبز تباہ ہو چکی ہیں۔

بقول پروفیسر شعبان وہ طلبہ کی مایوسیوں کو سمجھتے ہیں۔

انہوں نے کہا: ’کبھی کبھی آپ کو لگتا ہے کہ طلبہ ہماری طرف دیکھ رہے ہیں، جیسے ہم وہ کام کر سکتے ہیں، جو حقیقت میں قابل عمل نہیں ہیں، (لہذا) مجھے نرمی سے جواب دینا ہوتا ہے۔‘

جیسے ہی مشتعل طلبہ کے پیغامات آتے ہیں، پروفیسر شعبان کے مطابق وہ خود کو یاد دلاتے ہیں کہ وہ ایک ایسے شہر میں آرام سے رہ رہے ہیں، جہاں بجلی اور گروسری سٹورز پر خوراک کا ذخیرہ موجود ہے۔

انہوں نے کہا: ’(میں) کوشش کرتا ہوں کہ انہیں ہر ممکن مدد فراہم کروں جو میں کر سکتا ہوں۔ بہت سی چیزیں ہیں جو میں نہیں کر سکتا۔‘

غزہ میں جان سے جانے والے طلبہ کا خیال ہمیشہ ان کے ذہن میں آتا ہے۔

انہوں نے جان سے جانے والے انجینیئرنگ کے پانچ طالب علموں کو یاد کیا، جب وہ ایک اسائنمنٹ پر کام کرنے کے لیے انٹرنیٹ کے لیے جمع ہوئے تھے۔

پروفیسر شعبان نے کہا کہ وہ اپنے ’سٹار طالب علم‘ بلال العیش کو کبھی نہیں بھولیں گے، جو جارحیت شروع ہونے سے کچھ دن پہلے یہ فیصلہ کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ جرمنی میں سکالرشپ حاصل کرنی ہے یا امریکی فل برائٹ سکالرشپ۔

’میں نے ان کی آنکھوں میں امید دیکھی تھی، نہ صرف اپنے مستقبل کے لیے، بلکہ اپنے اداروں کے مستقبل کے لیے بھی۔‘

انہوں نے بتایا کہ بلال جارحیت کے شروع میں اسرائیلی حملے میں چل بسے تھے۔

پروفیسر شعبان نے کہا: ’مجھے احساس ہوا کہ وہ (اسرائیلی ہمارے) مستقبل کو ختم کر رہے ہیں۔ یہ میرے لیے واقعی تکلیف دہ تھا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کیمپس