پاکستانی نژاد برطانوی گلوکارہ سائرہ پیٹر نے دنیا کی سٹیج پر اپنی آواز کا جادو تو جگایا ہے ہی تاہم حال ہی میں انہوں نے سعودی عرب میں بھی اپنی صوفی اوپرا گلوکاری کے حسین امتزاج کی وجہ سے داد سمیٹی۔
اگر سائرہ پیٹر کے فنِ گلوکاری پر نظر ڈالی جائے تو وہ نہ صرف تاریخ رقم کرتے ہوئے دنیا کی پہلی صوفی اوپرا سنگر بنیں بلکہ برطانوی قومی ترانے کی ریکارڈنگ پر برطانیہ کے شاہ چارلز سوم نے انہیں سراہا تھا۔
عرب نیوز کے مطابق سائرہ پیٹر نے حالیہ برسوں میں ہونے والی تبدیلیوں کے بارے میں سن کر خود سعودی عرب کے فن اور ثقافت کو دیکھنے کا فیصلہ کیا۔ سعودی دارالحکومت ریاض میں انہوں نے اپنے موسیقی کے سفر، نئے صوفی اوپرا پروجیکٹ، اور سعودی عرب کے بارے میں اپنے تاثرات سے متعلق بات کی۔
انہوں نے کہا: ’آپ کے ارد گرد اتنی ساری تقاریب ہو رہی ہیں۔ یہ سب کچھ بہت بڑا اور دلچسپ ہے۔ خاص طور پر محافل موسیقی دیکھنا۔ میں نے کچھ لوگوں سے ملاقات کی اور انہیں بتایا کہ میں اوپرا گلوکارہ ہوں۔
’جس طرح میں نے سعودی لوگوں کو دیکھا ان کا موسیقی کی طرف رجحان یہ ناقابل یقین ہے۔ لوگوں میں بہترین تال اور سر موجود ہے۔‘
ریاض میں قیام کے دوران، سائرہ پیٹر نے سعودی سامعین کے لیے گھر میں منققدہ محفل میں فن کا مظاہرہ کیا۔ جس میں سامعین نے زودار تالیوں سے ان کے فن کو سراہا۔
سائرہ کا کہنا تھا کہ ’میں نے کبھی کسی اور سامعین سے ایسا تجربہ یا ردعمل نہیں پایا۔ ظاہر ہے مجھے اپنے تمام سامعین سے محبت ہے لیکن یہاں کا تجربہ بالکل مختلف تھا اور میں بہت جذباتی ہو گئی۔ یہ شاندار لمحہ تھا۔ ان کی آنکھیں نم تھیں اور انہوں نے دل کی گہرائیوں سے میری تعریف کی۔‘
جیسے جیسے سعودی عرب ایک نمایاں ثقافتی تبدیلی کی جانب گامزن ہے اوپرا بھی آہستہ آہستہ اپنی جگہ بنا رہا ہے اور اپنے موسیقی کے ورثے کے ساتھ امتزاج کر رہی ہے۔ یہ سعودی فنون کے ارتقا کا نیا باب ہے جس کی حالیہ مثال اپریل میں پیش کیا جانے والا پہلا سعودی اوپرا ’زرقا الیمامہ‘ ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اگرچہ سائرہ پیٹر کا ماننا ہے کہ محنت اور تربیت کا کوئی شارٹ کٹ نہیں ہوتا لیکن وہ ابھرتے ہوئے فن کاروں اور پیشہ ور افراد کو اہم مشورہ دیتی ہیں۔
’جب مجھے احساس ہوا کہ میں گانے کی صلاحیت رکھتی ہوں تو میں نے فیصلہ کیا کہ میں موسیقی کو لوگوں کی خدمت کے لیے استعمال کروں گی اور دنیا بھر میں امن اور مفاہمت کا پیغام پھیلاؤں گی۔‘
لندن میں مقیم یہ گلوکارہ این جے آرٹس لندن کی ڈائریکٹر ہیں، جہاں وہ موسیقی کی تعلیم بھی دیتی ہیں۔ وہ دنیا بھر کے کئی سٹیجز پر اپنے فن کا مظاہرہ کر چکی ہیں۔ ان کے دورے اکثر اپنے شوہر اور موسیقار سٹیفن سمتھ کے ساتھ۔ ہوتے ہیں، جن کی ڈسکوگرافی میں 17 زبانوں میں گانے شامل ہیں۔
ان کا شاندار کیریئر حیران کن نہیں۔ موسیقی ان کی زندگی کا حصہ بچپن سے تھی اور انہوں نے اپنے گھر میں کلاسیکی موسیقی سنتے پرورش پائی۔
سائرہ پیٹر کو بینجمن بریٹن، موزارٹ، بیتھوون جیسے مغربی موسیقاروں کے ساتھ ساتھ عربی اور مشرقی گلوکاروں جیسے ام کلثوم سے بھی بے حد لگاؤ رہا۔ اپنا پہلا ماسٹرز فزیکل کیمسٹری میں مکمل کرنے سے انہیں موسیقی کی باریکیوں کو بہتر سمجھنے میں مدد ملی۔
سائرہ کہتی ہیں کہ یونانی تاریخ میں لوگ موسیقی کو سائنس اور فنون کا حصہ مانتے تھے۔ تمام سر مختلف فریکوئنسیز پر مبنی ہوتے ہیں اور ہر سر کی مخصوص فریکوئنسی ہوتی ہے جو اصل میں سائنس ہے یعنی فزکس۔‘
لندن کی کوئن میری یونیورسٹی سے تاریخ میں دوسری ماسٹرز مکمل کرنے اور اسلامی و مغربی تاریخ کا مزید گہرائی سے مطالعہ کرنے کے بعد انہوں نے موسیقی کو پیشے کے طور پر اپنانے کا فیصلہ کیا۔
انہوں نے کہا: ’میرے خیال میں موسیقی بہت اہم ہے۔ یہ ایک زبان ہے۔ آپ اپنے جذبات اور خیالات کو بہت نازک انداز میں بیان کر سکتے ہیں۔ اور آپ پوری دنیا سے بات چیت کر سکتے ہیں۔
’جب میں گاتی ہوں تو میرا جذبہ اور میرا مقصد یہ ہوتا ہے کہ میں اپنے سامعین کی خدمت کیسے کر سکتی ہوں اور امن اور مفاہمت کا پیغام ان تک کیسے پہنچا سکتی ہوں۔‘
صوفی اوپرا کے مطابق ان کا طرز موسیقی مشرقی اور مغربی کلاسیکی موسیقی کے درمیان پل بنانے کی کوشش ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’امتزاج کا مطلب یہ ہے کہ جب آپ دو ثقافتوں یا موسیقی کی دو اصناف کو یکجا کریں تو انہیں ایک دوسرے کو نمایاں کرنا چاہیے۔ اور وہ پہلے سے موجود خوبصورتی میں اضافہ کریں۔‘
وہ اس وقت لندن میں اپنی ٹیم کے ساتھ اس طرز کے پہلے مکمل اوپرا ’ماروی کے آنسو‘ نامی پروجیکٹ پر کام کر رہی ہیں۔ یہ کہانی قدیم سندھ کی تہذیب سے متاثر ہے جو آج کے پاکستان، افغانستان، اور انڈیا کے علاقے میں واقع تھی۔ یہ ایک نوجوان لڑکی ماروی اور اس کے گاؤں میں انصاف لانے کے لیے ان کے جرات مندانہ سفر کی داستان ہے۔
یہ اوپرا حال ہی میں آکسفورڈ یونیورسٹی میں ورکشاپ کے مرحلے سے گزرا جس میں معروف برطانوی کمپوزر پال نائٹ، جو سائرہ پیٹر کے ووکل کوچ بھی ہیں، اور ڈائریکٹر جانی ڈینزیگر بھی شامل ہیں۔ اس اوپرا کو 2025 میں سٹیج پر پیش کیا جائے گا۔
سائرہ پیٹر کا کہنا تھا کہ یہ منفرد قسم کا اوپرا ہے کیوں کہ یہ دو دنیاؤں کا امتزاج ہے۔ یعنی مغربی کلاسیکی اور مشرقی کلاسیکل موسیقی۔ اگر آپ مغربی کلاسیکل گاتے ہیں تو کچھ چیزیں آپ کو کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ مثلاً آپ کو ’پورٹامنٹو‘ یعنی نچلے سروں کو گانے کی اجازت نہیں ہوتی۔
’عربی گلوکاروں کے اوپر سے نیچے آتے ہوئے سر شاندار ہوتے ہیں، اور ان کے پاس کوارٹر ٹونز اور دلکش وائبراٹوس بھی ہوتے ہیں جو بہت خوبصورت ہیں۔‘
اپنے نسلی پس منظر کو مدنظر رکھتے ہوئے، سائرہ پیٹر کی منفرد خصوصیت یہ ہے کہ وہ اپنی آواز کو موسیقی کی دونوں دنیاؤں کے انداز میں استعمال کر سکتی ہیں، اور دونوں کے درمیان کے رنگ بھی ادا کر سکتی ہیں۔ یہ خاصیت ان کے کوچ پال نائٹ نے دریافت کی۔
سائرہ نے کہا: ’(میرے کوچ کے مطابق) آپ کے پاس منفرد قسم کی آواز ہے جو آپ کو مغربی کلاسیکی اور مشرقی کلاسیکل دونوں انداز میں گانے کا موقع دیتی ہے، بغیر آواز کے معیار کو بدلنے۔
’چوں کہ میں مشرقی ہوں اس لیے میرے ڈی این اے میں وہ خاصیت اور وہ آواز شامل ہے۔‘