پاکستان کا غزہ فائر بندی کا خیر مقدم، مکمل عمل درآمد کا مطالبہ

پاکستانی دفتر خارجہ نے جمعرات کو ایک بیان میں کہا ہے کہ امید ہے کہ یہ فائر بندی مستقل رہے گی اور اس سے انسانی امداد کو بڑھانے میں مدد ملے گی۔

قطر کے وزیر اعظم نے بدھ کو اعلان کیا ہے کہ حماس اور اسرائیل کے درمیان سیز فائر معاہدے پر عمل درآمد اتوار (19 جنوری) سے شروع ہو جائے گا۔

وزیر اعظم محمد بن عبدالرحمٰن آل ثانی نے بدھ کو دوحہ میں ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے اعلان کیا کہ غزہ میں سیز فائر کا آغاز اتوار، 19 جنوری ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ ’اسرائیل اور حماس کے درمیان معاہدے پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے قطر، مصر اور امریکہ کے ساتھ مل کر کام جاری رکھے گا۔‘

قطر کے وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ’معاہدے سے اسرائیلی قیدیوں کی رہائی ہو گی اور غزہ میں انسانی بنیادوں پر امداد میں اضافہ ہو گا۔‘


16 جنوری، شام سات بج کر 25 منٹ

افغان طالبان حکومت کے نے حماس اور اسرائیل کے درمیان سیز فائر معاہدے کا خیر مقدم کرتے ہوئے ثالثی کرنے والے ممالک باالخصوص قطر اور مصر کی سہولت کاری کی کوششوں کو سراہا ہے۔

افغان وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں فلسطینی عوام کو مبارک باد پیش کرتے ہوئے معاہدے کے تمام مراحل پر مکمل عمل درآمد کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ پائیدار امن جنگ بندی کے موثر نفاذ اور غزہ میں انسانی امداد کی فوری ترسیل پر منحصر ہے۔


16 جنوری، دن 15 بج کر 35 منٹ

پاکستان کے نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے حماس اور اسرائیل کے درمیان ہونے والے معاہدے کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’شکر ہے جو بربریت اور مسلمانوں کی پر ڈھائے جانے والے ظلم کا اختتام ہوا۔‘

اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ ’دوست ممالک سعودی عرب، قطر، مصر، امریکہ اور دوسرے ممالک نے بہت اچھا کردار ادا کیا ہے۔‘


16 جنوری، صبح 11 بج کر 43 منٹ

اسرائیل نے غزہ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کیں: ترجمان دفتر خارجہ

دفتر خارجہ کے ترجمان شفقت علی خان نے پریس کانفرنس کی اور کہا کہ غزہ میں فائر بندی معاہدے کا خیر مقدم کرتے ہیں تاہم اسرائیل نے غزہ میں انسانی حقوق کی بے پناہ خلاف ورزیاں کیں۔


16 جنوری، صبح 10 بج کر 23 منٹ

پاکستان کا غزہ فائر بندی کا خیر مقدم، مکمل عمل در آمد کا مطالبہ

پاکستان کے دفتر خارجہ نے جمعرات کو کہا کہ غزہ فائر بندی کا خیر مقدم کرتے ہیں اور اس پر فوری اور مکمل عمل درآمد کا مطالبہ کرتے ہیں۔

دفتر خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ امید ہے کہ یہ فائر بندی مستقل سیز فائر کا باعث بنے گی اور اس سے انسانی امداد کو بڑھانے میں مدد ملے گی۔

’اسرائیلی قابض افواج کی طرف سے طاقت کے اندھا دھند استعمال سے لاتعداد جانوں اور املاک کا نقصان ہوا ہے اور لاکھوں بے گناہ فلسطینی شہری بے گھر ہو چکے ہیں۔ اسرائیل کے قابضانہ عزائم نے پورے خطے کو غیر مستحکم کر دیا ہے۔‘

بیان میں کہا گیا کہ پاکستان مسئلہ فلسطین کے منصفانہ، جامع اور پائیدار حل کے لیے اپنی حمایت کا اعادہ کرتا ہے۔

’جس کے نتیجے میں جون 1967 سے پہلے کی سرحدوں پر مبنی ایک خودمختار فلسطینی ریاست کا قیام عمل میں آئے، اور جس کا دارالحکومت القدس الشریف ہو۔‘


16 جنوری، صبح نو بج کر 40 منٹ

فائر بندی معاہدے کے باوجود اسرائیل کے غزہ پر فضائی حملے، 32 اموات

فلسطینی علاقے کے رہائشیوں اور حکام نے بدھ کو بتایا کہ اسرائیل نے فائر بندی معاہدے کے اعلان کے چند گھنٹوں بعد غزہ پر حملے تیز کر دیے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق طبی عملے نے بتایا کہ بدھ کو دیر گئے غزہ میں شدید اسرائیلی بمباری سے 32 افراد جان سے گئے۔

رہائشیوں نے بتایا کہ حملے جمعرات کی صبح جاری رہے اور جنوبی غزہ میں رفح، وسطی غزہ میں نصیرات اور شمالی غزہ میں مکانات کو تباہ کر دیا۔

اسرائیل کی فوج نے اس پر فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔


16 جنوری، صبح آٹھ بج کر 25 منٹ

دنیا بھر کے رہنماؤں کا معاہدے کا خیر مقدم، امداد کی فراہمی پر زور

دنیا بھر کے رہنماؤں نے اسرائیل اور حماس کے درمیان فائر بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کے اعلان کا خیرمقدم کیا اور دونوں فریقوں سے مطالبہ کیا کہ وہ اس پر قائم رہیں اور غزہ کے شہریوں کو امداد پہنچانے میں تیزی لائیں۔

برطانوی وزیر اعظم کیئر سٹارمر نے اسے ایک طویل عرصے سے زیر التوا خبر قرار دیا جس کا اسرائیلی اور فلسطینی عوام بے صبری سے انتظار کر رہے ہیں۔ انہوں نے ’مستقل طور پر بہتر مستقبل‘ کے لیے اقدامات پر زور دیا ... جو دو ریاستی حل پر مبنی ہے۔‘

ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان امید ظاہر کی کہ یہ معاہدہ ’ہمارے خطے اور پوری انسانیت کے لیے فائدہ مند ہوگا، خاص طور پر ہمارے فلسطینی بھائیوں کے لیے، اور یہ پائیدار امن اور استحکام کی راہ کھولے گا۔‘

مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی نے غزہ میں فوری انسانی امداد کے داخلے کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ معاہدہ مصر، قطر اور امریکہ کی ’سخت کوششوں‘ کے بعد ہوا ہے۔

اردن کے وزیر خارجہ ایمن صفادی نے عالمی طاقتوں پر زور دیا ہے کہ وہ غزہ کے لیے ’مناسب اور پائیدار‘ امداد کی فراہمی کو یقینی بنائیں۔

عراق کی وزارت خارجہ نے غزہ پٹی اور فلسطینی علاقوں میں فوری طور پر انسانی امداد کی اجازت دینے اور اسرائیل کے غزہ پر حملے کے دوران تباہ ہونے والے علاقوں کی تعمیر نو کے لیے بین الاقوامی کوششوں کو تیز کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔

یورپی کمیشن کی سربراہ ارسلا وان ڈیر لیین نے کہا کہ ’دونوں فریقوں کو خطے میں پائیدار استحکام کی طرف ایک قدم کے طور پر اس معاہدے پر مکمل طور پر عمل درآمد کرنا چاہیے۔‘

فرانس کے صدر ایمانوئیل میکروں نے کہا ہے کہ اس معاہدے کی ’پاسداری‘ کی جانی چاہیے اور اس کے بعد ’سیاسی حل‘ نکالا جانا چاہیے۔

جرمنی کے چانسلر اولاف شولز نے کہا کہ اس معاہدے سے لڑائی  کے مستقل خاتمے اور غزہ میں خراب انسانی صورت حال میں بہتری کے دروازے کھلیں گے۔

ہسپانوی وزیر اعظم پیڈرو سانچیز نے کہا کہ فائر بندی ’علاقائی استحکام کے حصول کے لیے اہم ہے‘ اور ’دو ریاستی حل اور بین الاقوامی قانون کا احترام کرنے والے منصفانہ امن کی راہ میں ایک ناگزیر قدم ہے۔‘


16 جنوری، صبح آٹھ بج کر 01 منٹ

امداد میں حائل سکیورٹی، سیاسی رکاوٹیں دور کی جائیں: اقوام متحدہ

فرانسیسی خبر رساں ایجنسی (اے ایف پی) کے مطابق اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گویتریش نے معاہدے پر کہا کہ ’یہ ضروری ہے کہ یہ فائربندی غزہ میں امداد پہنچانے میں حائل سکیورٹی اور سیاسی رکاوٹوں کو دور کرے، تاکہ ہم فوری اور جان بچانے والی انسانی امداد میں بڑے پیمانے پر اضافہ کر سکیں۔‘

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ وولکر ترک نے کہا کہ یہ معاہدہ ’ناقابل برداشت درد اور تکلیف کے بعد ایک بڑی راحت کی نوید ہے ... اور یہ ضروری ہے کہ اب یہ معاہدہ برقرار رہے‘۔

اقوام متحدہ کی فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے امدادی ایجنسی کے سربراہ فلپ لازارینی نے ’لڑائی کے باعث پیدا ہونے والے  سنگین مصائب کا جواب دینے کے لیے تیز، بلا روک ٹوک اور مسلسل انسانی امداد اور رسد‘ کی فراہمی کا مطالبہ کیا۔


16 جنوری، صبح سات بج کر 45 منٹ

ٹرمپ کا اسرائیل اور اتحادیوں سے تعاون کا اعلان

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق امریکہ کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عہد کیا کہ وہ ’اسرائیل اور اپنے اتحادیوں کے ساتھ قریبی تعاون کریں گے تاکہ غزہ دوبارہ کبھی دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہ نہ بنے۔‘

امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا کہ وہ قیدیوں کی رہائی کے اعلان پر ’انتہائی خوش‘ ہیں اور اس معاہدے کے برقرار رہنے کے لیے ’پرامید‘ ہیں۔ انہوں نے ایک نشریاتی بیان میں کہا، ’میں گہرے اطمینان کے ساتھ کہہ رہا ہوں کہ یہ دن بالآخر آ ہی گیا۔‘


16 جنوری، صبح سات بج کر 05 منٹ

غزہ میں اسرائیلی جارحیت کا خاتمہ، فائر بندی کا اطلاق ہونا چاہیے: سعودی عرب

غزہ میں فائر بندی کے معاہدے کا سعودی عرب کی وزارت خارجہ نے خیرمقدم  کیا۔

سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اس پیش رفت پر قطر، مصر اور امریکہ کی کوششوں کو سراہا۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق سعودی عرب کی وزارت خارجہ نے ’معاہدے کی پاسداری اور غزہ پر اسرائیلی جارحیت کو روکنے کی ضرورت‘ پر زور دیا۔

سعودی عرب نے مطالبہ کیا کہ ’اسرائیلی قابض افواج غزہ کی پٹی اور تمام دیگر فلسطینی و عرب علاقوں سے مکمل طور پر نکل جائیں اور بے گھر افراد کو ان کے علاقوں میں واپس بھیجا جائے۔‘


15 جنوری، رات 11 بج کر 45 منٹ

امریکہ کی طویل سفارت کاری کے بعد اسرائیل حماس فائر بندی معاہدہ طے پایا: بائیڈن

امریکی صدر جو بائیڈن نے بھی حماس اور اسرائیل کے درمیان معاہدے کی تصدیق کرتے ہوئے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’آج امریکہ کی جانب سے کئی ماہ کی سفارت کاری کے بعد مصر اور قطر کے ساتھ اسرائیل اور حماس کے درمیان سیز فائر اور قیدیوں کا معاہدہ طے پا گیا ہے۔‘

جو بائیڈن کا کہنا ہے کہ ’اس معاہدے سے غزہ میں لڑائی رک جائے گی، فلسطینی شہریوں کے لیے انتہائی ضروری انسانی امداد میں اضافہ ہوگا اور قیدیوں کو 15 ماہ سے زائد عرصے تک قید میں رکھنے کے بعد ان کے اہل خانہ سے ملایا جائے گا۔‘

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق حماس کے ایک عہدیدار نے معاہدے کو ’ایک عظیم کامیابی‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’یہ معاہدہ اس داستان کی عکاسی کرتا ہے جو غزہ کی ثابت قدمی، اس کے عوام اور اس کی مزاحمت کی بہادری کے ذریعے حاصل کیا گیا۔‘

امریکی ترجمان میتھیو ملر نے پریس کانفرنس میں کہا فائر بندی کا یہ معاہدہ صدر بائیڈن، وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن، قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیون، سینٹرل انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر ولیم برنز، بریٹ میک گرک اور حکومت کے دیگر عہدیداروں کے ساتھ ساتھ قطر اور مصر کی حکومتوں میں ہمارے شراکت داروں کی وسیع سفارتی کوششوں کے نتیجے میں ہوا ہے۔


معاہدے کے اہم نکات

روئٹرز کے مطابق معاہدے پر بریفنگ پانے والے حکام نے اس کے یہ اہم نکات بتائے ہیں۔

سیز فائر کے ابتدائی چھ ہفتوں میں اسرائیلی فوج کا مرکزی غزہ سے بتدریج انخلا اور بے گھر فلسطینیوں کی شمالی غزہ میں واپسی ہو گی۔

سیزفائر کے دوران روزانہ غزہ میں 600 ٹرکوں پر مشتمل انسانی امداد کی اجازت دی جائے گی، جن میں سے 50 ٹرک ایندھن لے کر آئیں گے اور 300 ٹرک شمال کے لیے مختص ہوں گے۔

حماس 33 اسرائیلی قیدیوں کو رہا کرے گی، جن میں تمام خواتین (فوجی اور شہری)، بچے اور 50 سال سے زیادہ عمر کے مرد شامل ہوں گے۔

حماس پہلے خواتین قیدیوں اور 19 سال سے کم عمر بچوں کو رہا کرے گی، جس کے بعد 50 سال سے زیادہ عمر کے مردوں کو۔

اس دوران اسرائیل اپنے ہر سویلین قیدی کے بدلے 30 فلسطینیوں اور ہر اسرائیلی خاتون فوجی کے بدلے 50 فلسطینی قیدیوں کو رہا کرے گا۔

اسرائیل سات اکتوبر، 2023 کے بعد سے گرفتار تمام فلسطینی خواتین اور 19 سال سے کم عمر کے بچوں کو پہلے مرحلے کے اختتام تک رہا کرے گا۔

رہائی پانے والے فلسطینیوں کی کل تعداد اسرائیلی قیدیوں کی رہائی پر منحصر ہوگی، اور یہ تعداد 990 سے 1,650 قیدیوں تک ہو سکتی ہے، جن میں مرد، خواتین اور بچے شامل ہیں۔

پہلے مرحلے کے 16ویں دن معاہدے کے دوسرے مرحلے کے لیے مذاکرات شروع ہوں گے، جس میں باقی تمام قیدیوں کی رہائی، بشمول اسرائیلی مرد فوجیوں، مستقل فائر بندی اور اسرائیلی فوجیوں کا مکمل انخلا شامل ہوگا۔

تیسرے مرحلے میں توقع ہے کہ تمام باقی ماندہ لاشوں کی واپسی اور غزہ کی تعمیر نو کا آغاز شامل ہوگا، جس کی نگرانی مصر، قطر اور اقوام متحدہ کریں گے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس سے قبل غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت کے خاتمے کے لیے قطر میں ہونے والے مذاکرات کے مصالحت کاروں نے بدھ کو اعلان کیا تھا کہ اسرائیل اور حماس سیز فائر معاہدے پر متفق ہو گئے ہیں۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق قطر کے دارالحکومت دوحہ میں کئی ہفتوں تک جاری رہنے والے مذاکرات کے بعد طے پانے والے اس معاہدے میں حماس کے زیر حراست قیدیوں کی مرحلہ وار رہائی، اسرائیل میں قید سینکڑوں فلسطینی قیدیوں کی رہائی اور غزہ میں بے گھر ہونے والے لاکھوں افراد کو اپنے گھروں میں واپس جانے کی اجازت دینے پر اتفاق کیا گیا ہے۔

قطر اور حماس کے عہدیداروں نے معاہدے کی تصدیق کی ہے جبکہ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق امریکہ کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی کچھ لمحے قبل کہا کہ ’مشرق وسطیٰ میں قیدیوں کے لیے معاہدہ ہو گیا ہے۔ انہیں جلد ہیں چھوڑ دیا جائے گا۔‘

برطانوی خبر رساں ایجنسی نے معاہدے پر بریفنگ پانے والے ایک حکام کے حوالے سے رپورٹ کیا کہ ’معاہدے کے چھ ہفتوں پر مشتمل پہلے مرحلے میں 33 قیدی رہا کیے جائیں گے جبکہ معاہدے کے مطابق ’اس دورانیے کے دوران ہر ہفتے کم از کم تین قیدی رہا کیے جائیں گے۔‘

تاہم خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اسرائیل نے بدھ کو کہا ہے کہ ’معاہدے کے کئی نکات کو حل کرنے کی ضرورت ہے لیکن امید ہے کہ انہیں آج رات حتمی شکل دے دی جائے گی۔‘

اے ایف پی کے مطابق اسرائیلی وزیر اعظم کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’فریم ورک کی کئی شقیں ابھی تک حل نہیں ہو سکی ہیں اور ہمیں امید ہے کہ انہیں آج رات حتمی شکل دے دی جائے گی۔‘

اسرائیل کے وزیر خارجہ جدعون ساعر نے بتایا کہ وہ بدھ کو یورپ کا اپنا دورہ مختصر کر رہے ہیں تاکہ وہ قیدیوں کی رہائی اور سیز فائر معاہدے پر سیکورٹی کابینہ اور حکومت کے ووٹوں میں حصہ لے سکیں۔

اسرائیلی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’قیدیوں کی رہائی کے مذاکرات میں پیش رفت کے پیش نظر وزیر ساعر نے اپنا سفارتی دورہ مختصر کر دیا، وہ آج رات (بدھ) اسرائیل واپس آئیں گے تاکہ سکیورٹی کابینہ اور حکومت میں متوقع بات چیت اور ووٹوں میں حصہ لے سکیں۔‘

دوسری جانب حماس اور اسرائیل کے درمیان معاہدے کی خبریں سامنے آنے کے بعد جنوبی غزہ کے شہر خان یونس میں فلسطینی شہری سڑکوں پر نکل آئے جنہوں نے فلسطین کے پرچم اٹھا رکھے تھے۔

غزہ شہر کے ایک بے گھر شخص اشرف سہویل نے، جو اس وقت دیر البلح میں اپنے خاندان کے پانچ افراد کے ساتھ ایک خیمے میں رہ رہے ہیں، فون پر ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ ’لوگ معاہدے کے اعلان کا جشن منا رہے ہیں۔‘ 

’لوگ خوش ہیں اس تمام تکلیف کے بعد جو انہوں نے ایک سال سے زیادہ عرصے تک دیکھی۔ ہم امید کرتے ہیں کہ یہ معاہدہ نافذ ہو جائے گا۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’ہر کوئی گذشتہ چند دنوں سے مذاکرات کو قریب سے دیکھ رہا ہے، یہاں تک کہ بچے بھی گھر واپس جانے کی امید اور خوشی رکھتے ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا