سویڈن پولیس نے جمعرات کو بتایا ہے کہ رواں ہفتے ملک کے بدترین ماس شوٹنگ کے واقعے میں جان سے جانے والے 10 افراد میں کئی ملکوں کے شہری شامل ہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق یہ واقعہ منگل کو دارالحکومت سٹاک ہوم کے مغرب میں واقع شہر اوریبرو میں ایک تعلیمی مرکز میں پیش آیا، جہاں تارکین وطن کو سویڈش زبان سکھائی جاتی تھی۔
تحقیقات کی قیادت کرنے والی سویڈش اہلکار اینا برگکوسٹ نے کہا کہ وہ قتل کے محرک کا پتہ لگانے کے لیے ابھی بھی کام کر رہی ہیں۔
انہوں نے رپورٹرز کو بتایا: ’اس قتل عام کا محرک کیا ہے؟ ہمارے پاس ابھی تک اس کا جواب نہیں ہے۔‘
مقامی چینل ٹی وی فور نے ایک ویڈیو نشر کی جو ایک طالب علم نے باتھ روم میں چھپ کر فلمائی، جس میں باہر فائرنگ کی آواز اور ایک شخص کی آواز سنی جا سکتی ہے جو کہہ رہا ہے ’تم یورپ چھوڑ دو گے۔‘
اینا برگکوسٹ نے اے ایف پی کو بتایا کہ مارے جانے والوں میں ’متعدد قوموں، مختلف جنس اور مختلف عمروں کے افراد شامل تھے۔‘
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق یہ سویڈن میں ہونے والا اب تک کا مہلک ترین حملہ ہے۔ سویڈش وزیراعظم نے اسے ملک کے لیے ایک ’دردناک دن‘ قرار دیا۔
سویڈن میں شامی سفارت خانے نے بدھ کی رات اپنے فیس بک پیج پر ایک پوسٹ میں کہا کہ وہ ’متاثرین کے خاندانوں، جن میں شامی شہری بھی شامل ہیں، سے تعزیت اور ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں۔‘
علاقائی پولیس کے سربراہ لارز ویرین نے کہا کہ جائے وقوعہ پر بھیجے گئے پولیس افسران نے بتایا کہ وہاں لاشیں، زخمی افراد، چیخ و پکار اور دھواں بھرا ہوا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پولیس کو یہاں سے 10 خالی میگزین ملے اور مشتبہ حملہ آور کے قریب ’بہت ساری گولیاں‘ ملیں۔ حملہ آور نے پولیس کے پہنچنے پر خود کو گولی مار کر اپنی جان لے لی تھی۔
مشتبہ حملہ آور کی شناخت سوئیڈش میڈیا کے مطابق 35 سالہ ریکارڈ اینڈرسن کے طور پر ہوئی ہے لیکن اس کی کوئی باقاعدہ تصدیق نہیں ہوئی۔
سویڈش میڈیا رپورٹس میں حملہ آور کو ایک مقامی شخص کے طور پر پیش کیا گیا جو کہ الگ تھلگ زندگی گزار رہا تھا اور نفسیاتی مسائل کا شکار تھا۔
رپورٹس کے مطابق حملہ آور نے مبینہ طور پر اپنے ہتھیاروں کو گٹار کیس میں چھپا رکھا تھا، جس نے سکول کے باتھ روم میں فوجی طرز کا لباس تبدیل کرنے کے بعد فائرنگ شروع کی۔
اینا برگکوسٹ نے رپورٹرز کو بتایا کہ پولیس کا خیال ہے کہ وہ حملہ آور کی شناخت جانتے ہیں لیکن وہ ان معلومات کی تصدیق اس وقت تک نہیں کریں گے جب تک ڈی این اے کے ذریعے حملہ آور کی شناخت کی تصدیق نہ ہو جائے۔