جدید ترین روبوٹک نظاموں کو برطانیوی نیشنل ہیلتھ سروس (این ایچ ایس) میں استعمال کے لیے منظور کر لیا گیا ہے جو کہ انگلینڈ بھر میں ہزاروں افراد کے علاج میں انقلاب لا سکتے ہیں۔
یہ ٹیکنالوجی، جس کی نیشنل انسٹیٹیوٹ فار ہیلتھ اینڈ کیئر ایکسیلینس (این آئی سی سی) نے اپنے ابتدائی جائزہ پروگرام کے تحت منظوری دی ہے، مختلف مقاصد کے لیے استعمال کی جا سکتی ہے، جیسے ٹیومر کو ہٹانا یا مریض کے گھٹنے کی تبدیلی۔
اس ٹیکنالوجی کے متعارف ہونے سے توقع ہے کہ مریضوں کے ہسپتال میں قیام کا وقت کم، صحتیابی کی رفتار تیز اور پیچیدگیوں میں کمی ہو گی۔
کل 11 نظاموں کو منظوری دی گئی ہے، جن میں سے پانچ کو سافٹ ٹشوز کی سرجری کے لیے استعمال کیا جائے گا، جیسے ٹیومر نکالنا، ہرنیا کی مرمت اور پتہ نکالنا، جبکہ چھ نظام آرتھوپیڈک (ہڈیوں کے امراض) کے لیے ہیں، جیسے گھٹنے اور کولہے کی تبدیلی۔
کچھ نظام ایسے ہیں جن سے سرجن میکینیکل بازوؤں کے ذریعے کنسول سے آپریشن کرتے ہیں، جبکہ کچھ نظام ہاتھ سے چلائے جاتے ہیں۔
این آئی سی ای کی ہیلتھ ٹیک پروگرام کی ڈائریکٹر ڈاکٹر اناستاسیا چالکیڈو نے کہا: ’یہ جدید ٹیکنالوجیز این ایچ ایس میں سافٹ ٹشو اور آرتھوپیڈک سرجیکل کیئر کو یکسر بدلنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔
’روبوٹک سرجری روایتی طریقوں کی اہم خامیوں کو درست حرکت اور بہتر تھری ڈی ویژولائزیشن کے ذریعے دور کر سکتی ہے، جس سے این ایچ ایس مریضوں کے لیے آپریشن اور اس کے نتائج بہترین ہو سکتے ہیں۔
’یہ جدید طریقے ان مریضوں کے لیے بھی فائدہ مند ہو سکتے ہیں جنہیں پہلے جدید یا کم تکلیف دہ آپریشن کروانے کا موقع نہیں ملتا تھا۔‘
رہنمائی کے مطابق، ان 11 نظاموں کو آئندہ تین سالوں تک استعمال کیا جا سکتا ہے، اس دوران مزید شواہد اکٹھے کیے جائیں گے۔
این آئی سی او ان معاملات کا بھی جائزہ لے گا کہ یہ ٹیکنالوجی ہسپتال میں قیام کے وقت، ویٹنگ لسٹوں اور عملے کی تربیت میں کتنے وسائل استعمال ہوتے ہیں، اور ان نظاموں کو لاگو کرنے کی لاگت کیا ہے۔
این ایچ ایس کے مالیاتی نگران ادارے کے مطابق، ان میں سے ہر نظام کی قیمت پانچ لاکھ پاؤنڈ سے 15 لاکھ پاؤنڈ کے درمیان ہے، اور یہ عام طور پر ان سپیشلسٹ سینٹرز میں استعمال ہوتے ہیں جہاں ہر سال سینکڑوں آپریشن کیے جاتے ہیں۔
ڈاکٹر چالکیڈو نے مزید کہا: ’آنے والے تین سالوں میں اکٹھے کیے گئے ڈیٹا سے ہمیں یہ جانچنے کا موقع ملے گا کہ یہ ٹیکنالوجیز کس طرح مریضوں کی نگہداشت کو بہتر بنا سکتی ہیں، اور یہ یقینی بنانے میں مدد ملے گی کہ این ایچ ایس کے وسائل ان طبی اقدامات کی جانب مرکوز کیے جائیں جو واضح طبی فوائد اور طویل مدتی قدر فراہم کرتی ہیں۔‘
این آئی سی ای کے مطابق 2011-12 میں، زیادہ تر روبوٹک سرجریاں یورولوجیکل کینسر (پیشاب کی نالی کے سرطان، جیسے مثانہ، گردے، پروسٹیٹ اور خصیوں کے سرطان) کے لیے ہوتی تھیں۔
لیکن گذشتہ سال تک، ان میں سے تقریباً نصف آپریشنز دیگر بیماریوں کے لیے کیے جا رہے تھے، جن میں آنتوں کے کینسر کے لیے روبوٹک سرجریوں میں تیزی سے اضافہ ہوا، اور اب یہ تمام روبوٹک سرجریوں کا ایک چوتھائی حصہ بنتی ہیں۔
آرتھوپیڈک میں بھی ٹیکنالوجی کے استعمال میں اضافہ دیکھنے میں آیا، جہاں 2023 میں 4,000 روبوٹک آپریشنز ہوئے، جو کہ 2018-19 کے 300 آپریشنز سے کہیں زیادہ ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
این ایچ ایس میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز کے بڑھتے ہوئے استعمال کو حکومت کی آنے والی 10 سالہ صحت پالیسی میں تین اہم تبدیلیوں میں شامل کیا جائے گا۔
اس پالیسی میں بیماریوں کی روک تھام اور ہسپتال سے کمیونٹی میں علاج کی منتقلی پر بھی زور دیا جائے گا۔
این ایچ ایس انگلینڈ کے قومی میڈیکل ڈائریکٹر پروفیسر سر اسٹیفن پاؤس نے کہا: ’یہ مریضوں کے لیے ایک اچھی خبر ہے اور ظاہر کرتا ہے کہ این ایچ ایس صحت کی دیکھ بھال میں بہتری کے لیے جدید ٹیکنالوجی کو اپنانے کے نئے طریقے تلاش کر رہا ہے۔
یہ 10 سالہ ہیلتھ پلان کا ایک اہم حصہ ہوگا جسے آنے والے مہینوں میں شائع کیا جائے گا۔
روبوٹک سرجری اعلیٰ معیار کی صحت کی دیکھ بھال کے مستقبل کے لیے نہایت اہم ہے — اور کم وقت کے ہسپتال میں قیام، مریضوں کے لیے جلد صحت یابی، اور کم تکلیف دہ ’طریقہ کار جیسے فوائد کے ساتھ، یہ ترقی پورے نظام پر مثبت اثر ڈالے گی اور مریضوں کے علاج کے وقت کو کم کرے گی۔
’یہ ایک اہم قدم ہے جیسا کہ ہم سب کو اعلیٰ معیار کی نگہداشت فراہم کرنے کی کوشش جاری رکھے ہوئے ہیں۔‘
رائل کالج آف سرجنز آف انگلینڈ کی کونسل کی رکن اور ماہر کرولرکٹل سرجن نوہا یاسین نے این آئی سی کی رہنمائی کو ’ایک اہم پیش رفت‘ قرار دیا۔
انہوں نے کہا: ’جلد صحت یابی، پیچیدگیوں میں کمی، اور کم تکلیف دہ طریقہ علاج تک بڑھتی ہوئی رسائی مریضوں کی نگہداشت کو یکسر بدل سکتی ہے۔
یہ ضروری ہے کہ ان نئی ٹیکنالوجیز کو متعارف کرواتے وقت این ایچ ایس کے ٹرسٹ اور سرجیکل ٹیمز رائل کالج آف سرجنز آف انگلینڈ کی جانب سے طے کردہ رہنما اصولوں کے مطابق عمل کریں، تاکہ مریضوں کے لیے ان کا نفاذ زیادہ سے زیادہ محفوظ انداز میں ہو۔‘
© The Independent