ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی نے ہفتے کو مسقط میں ایرانی سرکاری ٹی وی سے بات کرتے ہوئے امریکہ کے ساتھ ایٹمی مذاکرات کے عمل اور رفتار کو اطمینان بخش قرار دیا۔
برطانوی خبر رساں ایجنسی کے مطابق انہوں نے کہا کہ اب تک مکمل ہونے والے تیسرے دور میں دونوں جانب سے ’سنجیدگی اور عزم‘ کا مظاہرہ کیا گیا۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی نے رپورٹ کیا کہ عباس عراقچی نے کہا فریقین کے درمیان اختلافات بدستور موجود ہیں۔’اہم معاملات اور تفصیلات دونوں میں اختلافات ہیں۔‘
سرکاری ٹی وی کے مطابق انہوں نے بتایا کہ امریکہ کے ساتھ جوہری مذاکرات کا اگلا دور ’ممکنہ طور پر اگلے ہفتہ‘ ہو گا جبکہ مقام کا تعین عمان کرے گا۔عراقچی نے کہا کہ آئی اے ای اے کے ماہرین بھی ان بالواسطہ مذاکرات کے اگلے دور میں شریک ہو سکتے ہیں۔
امریکی انتظامیہ کے ایک سینیئر عہدے دار نے بتایا کہ امریکہ مذاکرات کو ’مثبت اور نتیجہ خیز ‘ سمجھتا ہے اور یہ کہ دونوں فریق جلد یورپ میں دوبارہ ملاقات پر متفق ہو گئے ہیں۔
عہدے دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا: ’تازہ ترین براہ راست اور بالواسطہ بات چیت کا دور چار گھنٹے سے زیادہ جاری رہا۔ ابھی بہت سا کام باقی ہے، لیکن معاہدے تک پہنچنے میں مزید پیش رفت ہوئی ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا ’ہم جلد یورپ میں دوبارہ ملاقات پر متفق ہوئے ہیں اور ان مذاکرات میں سہولت فراہم کرنے پر اپنے عمانی شراکت داروں کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔‘
دونوں کے درمیان اعلیٰ سطحی جوہری مذاکرات کا تیسرا دور آج عمان میں اختتام پذیر ہو گیا جس میں عمانی وزیر خارجہ بدر البوسعیدی کے مطابق بنیادی اصولوں، مقاصد اور تکنیکی خدشات کو دور کیا گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اے ایف پی کے مطابق ایران کے سرکاری ٹیلی ویژن نے بتایا کہ دونوں وفود، جو ایک دوسرے کے ساتھ بالواسطہ بات چیت کر رہے تھے، مشاورت کے لیے اپنے دارالحکومتوں کو واپس جا رہے ہیں۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق یہ مذاکرات کئی گھنٹوں تک جاری رہے۔مسقط اور روم میں مذاکرات کے پچھلے دو دور کی ثالثی کرنے والے عمان کے وزیر خارجہ بدر البوسعیدی نے مذاکرات کے اختتام پر مثبت تبصرہ کیا ہے۔
البوسعیدی نے کہا کہ دونوں ملکوں نے باہمی احترام اور پائیدار وعدوں کی بنیاد پر سمجھوتے تک پہنچنے کی مشترکہ خواہش کا اظہار کیا ہے
ایران اور امریکہ کے درمیان جاری جوہری مذاکرات کئی دہائیوں سے جاری تناؤ کے بعد سامنے آئے ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ با رہا دھمکی دے چکے ہیں کہ اگر کوئی معاہدہ نہیں ہوا تو ایران کے پروگرام کو نشانہ بنانے کے لیے فضائی حملے کیے جائیں گے۔
ایرانی حکام نے خبردار کیا ہے کہ وہ یورینیم کے ذخیرے کے ساتھ جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔
عالمی طاقتوں کے ساتھ ایران کے 2015 کے جوہری معاہدے نے تہران کے پروگرام کو محدود کر دیا تھا۔
تاہم، ٹرمپ نے 2018 میں یکطرفہ طور پر اس سے دستبرداری اختیار کر لی تھی، جس کے نتیجے میں کئی سالوں سے کشیدگی جاری تھی۔
پوپ فرانسس کی آخری رسومات میں شرکت کے لیے روم جانے والے ٹرمپ نے ایک بار پھر کہا کہ انہیں امید ہے کہ مذاکرات ایک نئے جوہری معاہدے کا باعث بنیں گے۔
ٹرمپ نے کہا کہ ایران کی صورت حال بہت اچھی طرح سامنے آ رہی ہے۔ ’ہم نے ان کے ساتھ بہت سی بات چیت کی ہے اور مجھے لگتا ہے کہ ہم ایک معاہدہ کرنے جا رہے ہیں۔‘