پیر کے روز منعقد ہونے والے کینیڈا کے انتخابات میں لبرل پارٹی کے رہنما مارک کارنی نے فتح حاصل کر لی ہے۔
کینیڈا کے سرکاری ادارے ’الیکشنز کینیڈا‘ کی ویب سائٹ پر جاری کردہ ابتدائی نتائج کے مطابق ان کی جماعت نے 167 نشستیں حاصل کر لی ہیں، جب کی حریف کنزرویٹو جماعت کے حصے میں اب تک 145 نشستیں آئی ہیں۔
الیکشن کی رات آٹووا میں فتح کی تقریر کرتے ہوئے مارک کارنی نے کہا کہ ’صدر ٹرمپ ہمیں توڑنے کی کوشش کر رہے ہیں، تاکہ امریکہ ہم پر قبضہ کر لے۔ یہ کبھی نہیں، کبھی نہیں ہو گا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’ہم امریکی بےوفائی کے دھچکے سے باہر آ چکے ہیں، لیکن اس کے سبق کبھی نہیں بھولیں گے۔‘
نیوز ایجنسیز کے مطابق اب سے چند ماہ قبل تک رائے عامہ کے جائزوں میں لبرل پارٹی کی پوزیشن بہت خراب چل رہی تھی، مگر حالیہ ہفتوں میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے کیے جانے والے اقدامات نے لبرل پارٹی کی فتح میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
اے ایف پی کے مطابق مارک کارنی ووٹروں کو یہ یقین دلانے میں کامیاب رہے کہ وہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا بہتر مقابلہ کر سکتے ہیں۔ ٹرمپ کی کینیڈا کے ساتھ تجارتی جنگ اور کینیڈا کو اپنی 51ویں ریاست بنانے کی دھمکیوں نے کینیڈین باشندوں کو مشتعل کر دیا اور امریکہ کے ساتھ معاملات کو ایک اہم انتخابی مسئلہ بنا دیا۔
مارک کارنی روایتی سیاست دان نہیں ہیں اور اس سے قبل وہ کینیڈا اور برطانیہ دونوں میں مرکزی بینک کے گورنر کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں۔ انہوں نے پچھلے مہینے سابق وزیرِ اعظم جسٹن ٹروڈو کی جگہ وزیرِ اعظم بننے سے قبل کسی عوامی عہدے پر کام نہیں کیا تھا۔
ٹرمپ نے کینیڈا کے عوام کو متحرک کر دیا
60 سالہ سابق بینکر کارنی نے اپنی انتخابی مہم کو ٹرمپ مخالف پیغام پر مرکوز کیا، اور امریکہ پر انحصار کم کرنے کے لیے کینیڈا کے بیرون ملک تجارتی تعلقات کو بڑھانے کا وعدہ کیا، جس ملک کے بارے میں انہوں نے کہا کہ ’ہم اب انحصار نہیں کر سکتے۔‘
انہوں نے انتخابی مہم کے دوران کہا، ’ڈونلڈ ٹرمپ ہمیں توڑنا چاہتا ہے تاکہ امریکہ ہماری ملکیت بنا لے۔ وہ ہمارے وسائل چاہتے ہیں، وہ ہمارا پانی چاہتے ہیں، وہ ہماری زمین چاہتے ہیں، وہ ہمارا ملک چاہتے ہیں۔ وہ یہ حاصل نہیں کر سکتے۔‘
جب سی بی سی کی پیش گوئی کا اعلان کیا گیا تو آٹووا کے اس مقام پر خوشی کے نعرے بلند ہوئے جہاں لبرل حامی اکٹھے ہو کر دیکھ رہے تھے۔
72 سالہ ڈوروتھی گوبالٹ نے اے ایف پی کو بتایا، ’میں اس لحاظ سے خوش ہوں کہ ہمارے پاس کوئی ایسا شخص ہے جو مسٹر ٹرمپ سے ان کی سطح پر بات کر سکتا ہے۔ مسٹر ٹرمپ ایک کاروباری شخص ہیں۔ مسٹر کارنی ایک کاروباری شخص ہیں، اور مجھے لگتا ہے کہ وہ دونوں ایک دوسرے سے تعلق قائم کر سکتے ہیں۔‘
ٹروڈو کے استعفیٰ دینے سے پہلے، ٹرمپ نے ان کا مذاق اڑایا تھا، اور کینیڈا کو 51ویں امریکی ریاست بننے کی ترغیب دیتے ہوئے وزیر اعظم کو ’گورنر‘ کہا تھا۔
گوبالٹ نے کہا کہ وہ اس مذاق کے ختم ہونے کی توقع کرتی ہیں۔ ’یہ اب گورنر نہیں ہے، یہ کینیڈا کا وزیر اعظم ہے، اور یہ اب 51ویں ریاست نہیں ہے۔ یہ ہے ’ہم کینیڈا ہیں!‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کارنی کی کابینہ کے رکن اور لبرل قانون ساز سٹیون گلبیولٹ نے اس نتیجے کو ٹرمپ سے جوڑا۔
انہوں نے سی بی سی کو بتایا، ’صدر ٹرمپ کے کینیڈا کی معیشت پر متعدد حملوں، بلکہ صرف معیشت پر ہی نہیں، ہماری خود مختاری اور ہماری شناخت پر حملوں نے واقعی کینیڈین باشندوں کو متحرک کیا ہے، اور مجھے لگتا ہے کہ کینیڈا کے عوام نے وزیر اعظم کارنی میں ایک ایسا شخص دیکھا ہے جس کا عالمی سطح پر تجربہ ہے، جس کا معیشت کا تجربہ ہے۔‘
کاروباری شخصیت کارنی
کارنی نے 2008-2009 کے مالیاتی بحران میں بینک آف کینیڈا کی قیادت کی اور 2016 کے بریگزٹ ووٹ کے ارد گرد بحرانی دور میں بینک آف انگلینڈ کی سربراہی کی۔
مارک کارنی: ایک عالمی شخصیت
دی انڈپینڈنٹ کے مطابق مارک کارنی 1965 میں شمال مغربی خطے کے شہر فورٹ سمتھ میں پیدا ہوئے اور البرٹا کے شہر ایڈمنٹن میں پرورش پائی جہاں ان کے والدین بطور اساتذہ خدمات انجام دے رہے تھے۔
انہوں نے امریکہ میں سکالرشپ حاصل کی اور ہارورڈ اور آکسفورڈ یونیورسٹیوں سے معاشیات اور مالیات میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔
اس کے بعد مارک کارنی نے بین الاقوامی بینک ’گولڈمین سیکس‘ کے لیے لندن، ٹوکیو اور نیویارک میں اعلیٰ عہدوں پر خدمات انجام دیں۔
وہ برطانوی ماہرِ معیشت ڈیانا فاکس کے شوہر ہیں اور ان کی چار بیٹیاں ہیں۔
کارنی بعد میں کینیڈا واپس آئے اور 2008 سے 2013 تک ملک کے مرکزی بینک کے سربراہ کے طور پر کام کیا جہاں ان کے فوری طور پر شرحِ سود میں کمی کے فیصلے کو کینیڈا کو دوسرے جی سیون ملکوں کے مقابلے پر عالمی مالیاتی بحران کے بدترین اثرات سے بچانے کا سہرا دیا جاتا ہے۔
برطانیہ، بریگزٹ اور بینک آف انگلینڈ
کارنی نے عالمی سطح پر اپنی اٹھان جاری رکھی، اور 2014 میں وہ بینک آف انگلینڈ کی تین صدیوں سے زیادہ کی تاریخ میں پہلے غیر برطانوی سربراہ بن گئے۔ انہیں اپنے پیشروؤں کے مقابلے میں زیادہ بار بار میڈیا میں پیش ہو کر، شرح سود کے اجلاسوں کی تعداد کو سالانہ 12 سے کم کر کے آٹھ کرنے اور شرح سود کے فیصلوں کے ساتھ منٹس شائع کرنے کے ذریعے بینک کی جدیدکاری کا سہرا جاتا ہے۔
جہاں پچھلے گورنر عموماً دبے دبے رہتے تھے، کارنی نے متعدد متنازع اقدامات کیے، جن میں 2014 کے ریفرنڈم سے پہلے یہ انتباہ بھی شامل تھا کہ اگر آزاد سکاٹ لینڈ پاؤنڈ کا استعمال جاری رکھنا چاہتا ہے تو اسے اپنے برطانیہ کو اختیارات سونپنا پڑ سکتے ہیں۔
یورپ سے علیحدگی کے بریگزٹ ریفرنڈم سے پہلے انہوں نے خبردار کیا تھا کہ یورپی یونین سے نکلنے کے لیے ووٹ برطانیہ میں کساد بازاری کو ہوا دے سکتا ہے۔ ڈیوڈ کیمرون کے وزیر اعظم کے عہدے سے استعفیٰ دینے کے بعد یورپی یونین چھوڑنے کے ووٹ کے بعد، انہوں نے پاؤنڈ کی قدر میں تیزی سے گراوٹ کے بعد قوم سے خطاب کر کے لوگوں کو تسلی دینے کی کوشش کی۔
ٹرمپ اور پیئر پوئیلیور کے خلاف محاذ آرائی
اس سال جنوری میں جسٹن ٹروڈو نے تقریباً ایک دہائی اقتدار میں رہنے کے بعد استعفیٰ دینے کا اعلان کیا اور اسی ماہ مارک کارنی نے اپنی انتخابی مہم کا آغاز کیا۔ وہ خود کو ایک ماہر معیشت دان کے طور پر پیش کرتے ہیں جو کینیڈا کی کمزور معیشت اور مہنگائی کے مسائل کو حل کر سکتا ہے۔
ٹرمپ کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد یہ پیغام اور زیادہ واضح ہو گیا ہے کیونکہ امریکہ اور کینیڈا کے روایتی تعلقات میں عدم استحکام دیکھنے میں آیا ہے۔
ٹروڈو کی جگہ وزیرِ اعظم بننے کے بعد مارک کارنی نے وعدہ کیا تھا کہ وہ کینیڈا پر کسی بھی امریکی محصولات کے بدلے مساوی جوابی اقدامات کریں گے کم از کم اس وقت تک ’جب تک کہ امریکی ہمیں عزت دینا نہ سیکھیں۔‘ انہوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ سخت مذاکرات کرنے کا بھی اعلان کیا۔
ان کے بقول: ’ہم نے یہ (تجارتی) جنگ شروع نہیں کی لیکن اگر امریکہ نے چیلنج دیا ہے، تو کینیڈا بھی مقابلے کے لیے پوری طرح تیار ہے۔ یہ مت سمجھیں کہ ہم ہار مان لیں گے، کینیڈا یہ جنگ جیتے گا۔‘
ان کا دوسرا مقابلہ کنزرویٹو پارٹی کے رہنما پیئر پوئیلیور سے ہو گا جن پر مارک کارنی نے الزام لگایا ہے کہ وہ ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں کے پرستار ہیں۔