میں اس بکھرتی ہوئی دنیا پر بڑھتی ہوئی بے چینی محسوس کرنے والی واحد انسان نہیں ہوں۔ ہم آن لائن پہلے سے کہیں زیادہ جڑے ہوئے ہیں لیکن حقیقت میں ہم تنہا اور منقسم ہوتے جا رہے ہیں جہاں گمنام پروفائلز بغیر کسی نتیجے کے گالیاں دے سکتے ہیں اور شائستگی و نفاست جیسے لگتا ہے ماضی کا قصہ بن چکی ہیں۔ چونکہ مجھے جھگڑے اور سختی سے نفرت ہے اس لیے میں نے سوچنا شروع کیا کہ اگر ہم اس صورت حال کو پلٹ دیں تو کیا کیسا ہو گا؟
اگر ہم شعوری طور پر یہ فیصلہ کریں کہ ہماری ہر حقیقی ملاقات کسی کے لیے خوشی کا باعث بنے تو کیا ہو گا؟ اپنی اہمیت ظاہر کرنے کے لیے نہیں بلکہ اس سچے جذبے سے کہ ہم مہربان بنیں، کسی کی تعریف کرنا، شکرگزاری کا اظہار کرنا یا دوسروں کو خلوص سے سراہنا۔
میری دوست پولی ہمیشہ گرم جوشی اور اعتماد سے بھرپور دکھائی دیتی ہے، یہ ایسی خصوصیات ہیں جن پر مجھے رشک آتا تھا۔ وہ عام سے مقامات جیسے بینک کی قطار، سپر مارکیٹ یا ٹرین میں اجنبی لوگوں سے بات کر لیتی ہے اور ان سے کہہ دیتی ہے کہ وہ کتنے اچھے لگ رہے ہیں۔ میں ہمیشہ یہ کرنے سے ڈرتی تھی کہ میری بات کہنے کا طریقہ ٹھیک نہیں لگے گا یا اس خوف سے کہ میری بات عجیب یا غیر مناسب محسوس نہ ہو اور ہم دونوں شرمندہ ہو جائیں۔
لیکن آج کل میں نے یہ محسوس کیا ہے کہ کسی کے چہرے پر مسکراہٹ دیکھنا، چاہے ایک لمحے کے لیے ہی کیوں نہ ہو، ایک ایسا اثر پیدا کرتا ہے جو مزید خوشیوں کو جنم دیتا ہے۔ دماغ کی کیمسٹری بھی عجیب چیز ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ کسی کی تعریف کرنا دونوں کے دماغ میں ڈوپامین اور آکسیٹوسن جیسے خوشی کے ہارمون خارج کرتا ہے۔ یہ ہارمون موڈ بہتر کرتے ہیں، کارٹیسول کے لیول کو کم کرکے تناؤ کم کرتے ہیں اور دماغ کے ریواڈ سسٹم کو متحرک کرتے ہیں۔ یہ مثبت سوچ کی راہیں مضبوط کرتے ہیں اور سماجی تعلق اور بھروسہ پیدا کرتے ہیں۔ میں نے فیصلہ کیا کہ مجھے تھوڑا سا پولی جیسا بننا چاہیے۔
میں نے اپنے دندان ساز اور اسسٹنٹ سے پوچھا کہ وہ کیسے ہیں اور میں اس وقت حیران رہ گئی جب انہوں نے جواب دیا کہ کوئی ان سے یہ سوال نہیں کرتا۔ تب مجھے اندازہ ہوا کہ ہم سب کتنے زیادہ سچے اور مثبت انسانی تعلق کے بھوکے ہیں چاہے وہ کسی بھی چھوٹے لمحے میں ہو۔
یہ احساس اس وقت مزید گہرا ہوا جب مجھے لندن کے شاندار مے فیئر ریسٹورنٹ میں دوپہر کے کھانے کی دعوت ملی۔ ہماری میز پر جو ویٹر تعینات تھا وہ واضح طور پر نیا تھا لیکن تھوڑا نروس، خوش اخلاق اور محنتی۔
باتوں میں انہوں نے بتایا کہ وہ صرف دو ہفتے پہلے گاڑیاں دھونے کا کام چھوڑ کر اپنے ایک بااثر کزن کی مدد سے یہاں آیا ہے۔ میں نے ویٹر سے پوچھا کہ ان کا مینجر کون ہے۔
انہوں نے ایک دبلی پتلی، تھکی ہوئی سی عورت کی طرف اشارہ کیا جو ایک نفیس سوٹ میں ملبوس تھی۔ دو کاک ٹیلز پینے کے بعد حوصلہ ملا اور میں بھرے ہوئے ریسٹورنٹ میں جا کر اس سے بات کرنے چلی گئی۔ جب میں نے ان کے نئے ملازم کی تعریف کی تو وہ فوراً نرم پڑ گئیں اور ان کے چہرے پر فخر اور سکون واضح تھا۔ میں اپنی میز پر واپس آئی، اور خود کو تھوڑا سا ’پولی‘ محسوس کرنے لگی۔
بعد میں میں نے ایک چھوٹی بچی کی سافٹ ٹوائے والے خرگوش کی پسند پر تعریف کی اور وہ فخر سے اسے اور زور سے گلے لگانے لگی۔ بچوں سے بات کرتے ہوئے ’کول‘ جیسے نیوٹرل اور پرجوش الفاظ کا استعمال ’خوبصورت‘ جیسے صنفی توقعات سے جوڑے بغیر ان کی پسند کی توثیق کرتے ہے۔
اور میں نے ٹریفک سگنل پر ایک شاندار سبز کڑھائی والا دوپٹہ پہنے ایک بزرگ خاتون سے بات کرنے کا رسک لیا جو کسی سوچ میں غرق اور ناراض نظر آ رہی تھیں۔ میں نے ان سے کہا: ’کتنا خوبصورت دوپٹہ ہے۔ یہ میرا پسندیدہ رنگ ہے،‘ وہ اس پر شرما گئیں اور سڑک پار کرتے ہوئے کئی بار ’شکریہ‘ کہا۔
ان لمحات میں میں نے سوچا کہ ایک سادہ سی تعریف کا اثر کتنا ہوتا ہے، شاید صرف ایک منٹ، جو دوپہر کے کھانے تک بھلا دیا جائے یا شاید یہ ان کے دن کی ایک چھوٹی سی خوشی بن جائے، جو کچھ دیر تک ان کے ساتھ رہے۔‘
اگر آپ کسی عالمی طاقت یا اثر و رسوخ والے عہدے پر نہیں ہیں تو ہم میں سے اکثر لوگ بڑی نظامی تبدیلیاں نہیں لا سکتے مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم بےبس ہیں۔
ایک ایسی دنیا میں جہاں سوشل میڈیا پر کھوکھلے جملے، فائر ایموجی اور دل والے ری ایکشن معمول بن چکے ہیں اور ان کا اثر چند لمحوں میں غائب ہو جاتا ہے۔ وہ بات کچھ اور ہی ہوتی ہے جب آپ کسی کی آنکھوں میں دیکھ کر سچائی سے کہیں کہ آپ کو ان کے جوتے پسند آئے یا ان کی خیال رکھنے کی عادت کا شکریہ ادا کریں۔
تو کیوں نہ ہم اسے اپنی روزمرہ عادت بنا لیں؟ میں آپ سے گزارش کرتی ہوں کہ اسے ایک بار ضرور آزمائیں۔ اس نے مجھے یقینی طور پر خوشی دی۔ ہماری اصل طاقت ان تعلقات میں ہے جو ہمیں یہ یاد دلاتے ہیں کہ ہم سب انسان ہیں۔ اور کیا یہ دنیا کو ذرا سی بہتر جگہ نہیں بنا دے گا؟