اسلم چچا کو میں نے ساری زندگی یہی کہتے سنا کہ یار خواہ مخواہ چھوٹی چھوٹی چیزوں کے لیے ڈاکٹر کے پاس مت بھاگا کرو، انہیں اس پہ عمل کرتے ہوئے بھی دیکھا اور خدا انہیں زندگی صحت دے فرسٹ کلاس رہا سب کچھ۔
دوسری طرف بچپن سے میں سنتا آیا تھا کہ یار امریکہ یورپ میں لوگوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ سال میں کم از کم ایک بار پورے جسم کا میڈیکل چیک اپ کروائیں، پچھتر قسم کے ٹیسٹ ہوتے ہیں اور ’وہ لوگ دیکھو کیسے فٹ فاٹ رہتے ہیں۔‘
سات آٹھ سال پہلے یوں ہوا کہ ایک ڈینٹسٹ میرا دوست بنا تھا، جوان جہان آدمی، بالکل فٹ، کرکٹ کا شوقین، ورزش باقاعدگی سے، مطلب سمجھ لیجے کہ باقاعدہ یونانی دیوتاؤں جیسا خوبصورت انسان تھا اور ایک دن اس کا واٹس ایپ سٹیٹس میں نے لکھا دیکھا ۔۔۔ ’ختم ہو گیا سب کچھ، بھاڑ میں گئی کرکٹ۔‘
میں اتنا حوصلہ مند نہیں تھا کہ ڈائریکٹ پوچھ لیتا، میں نے فرقان سے پوچھا، اپنے کزن سے، جس کا اصل میں وہ دوست تھا، کیا ہوا یار، یہ کیوں لکھا اس نے ۔۔۔ تب مجھے علم ہوا کہ 30 سال کے اس نوجوان کو آخری سٹیج کا کینسر تھا۔
اس جواں مرگ کا مجھ پہ بہت طرح سے اثر ہوا، ٹھیک جسم کی قدر سمجھ میں آئی لیکن اُس کا ناقابل اعتبار ہونا بھی اندر کہیں ڈیرے ڈال گیا۔ دو باتیں جان لیں میں نے؛ ایک تو جو کچھ ہے وہ بس آج ہے، ابھی ہے اور دوسری یہ کہ اسلم چچا کی بات ٹھیک ہے، بہت ضرورت ہے تو بابا ضرور جاؤ ہسپتال ورنہ شروع میں صبر کرو، او پی ڈی دوائیں وغیرہ لو، نہیں بنتا معاملہ تو فبھہا!
لیکن یہ سب میرے ذاتی تجربے تھے۔ جیسے میں ہومیو پیتھی کے فضائل جب بھی بیان کرتا ہوں تو شاہ جی مجھے صرف ایک بات سے چپ کرا دیتے ہیں کہ آپ نے کبھی کوئی ایک پراپر گروپ سٹڈی دیکھی ہے اس علم پر؟ اور پھر باقاعدہ مسکراتے بھی ہیں۔ وہ بڑے آدمی ہیں اور اس قدر ریشنل عالم کہ بحث ممکن ہی نہیں۔
تو وہ شاہ جی کل کہنے لگے کہ آپ کو پتہ ہے وہ سالانہ چیک اپ بالکل بھی ضروری نہیں ہوتا؟ اگر آپ صحت مند ہیں اور چل پھر رہے ہیں آرام سے تو بس سکون کریں۔ اب میں باقاعدہ کھلے منہ اور ناک کی آخری حد پہ ٹکی عینک کے ساتھ انہیں گھور رہا تھا۔
یعنی میں کروں یہ بات، اسلم چچا کریں، ابو کریں تو سمجھ میں آتی ہے، شاہ جی؟ فنا فی العقل انسان یہ بات کر رہا ہے؟ چلتی پھرتی سائنس ایک اتنا اہم بنا بنایا نظریہ جھٹلا رہی ہے۔
اب میں سیریس تھا، میں نے پوچھا کوئی سٹڈی؟ کہنے لگے بھری پڑی ہیں۔ خود چیک کیا، واقعی موجود ہیں بے شمار، مثلاً ٹائم میگزین کے ایک آرٹیکل میں امریکن کالج آف فزیشنز کی ڈاکٹر نے یہ تک کہا کہ ’سال میں ایک بار آ کر کئی ٹیسٹ کروا لینا، چاہے ان کی ضرورت ہو یا نہ ہو، کسی لحاظ سے فائدہ مند نہیں ہوتا۔ اس دوران ایب نارمل فائنڈنگز بھی سامنے آ سکتی ہیں، لیکن ان کا تعلق ہمیشہ صحت کے مسائل نہیں ہوتا۔ ان معائنوں کے نقصان کے شواہد فائدوں سے زیادہ ہیں۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ان میں ایسی چیزیں سامنے آ جاتی ہیں جنہیں جاننے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی، اور پھر اس سے مزید ٹیسٹ، اخراجات، سائیڈ ایفیکٹس، پریشانیاں اور دیگر مسائل جنم لیتے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اب یہ پڑھ کے میں سوالیہ نشان بنا ہوا شاہ جی کو دیکھ رہا تھا کہ پھر کہنے لگے، بیس ریٹ فیلسی (Base Rate Fallacy) کا پتہ ہے آپ کو؟ بولا نہیں، کہنے لگے کہ فرض کریں ایک ڈاکٹر کسی میڈیکل ٹیسٹ کی بنیاد پہ مریض کو ایسی بیماری تشخیص کرتا ہے جو تین لاکھ میں سے صرف ایک انسان کو ہونے کا امکان ہے، اور وہ ایسا صرف ایک پازیٹو ٹیسٹ کی بنیاد پر کرتا ہے، تو کتنا زیادہ امکان ہے کہ اس ٹیسٹ کا نتیجہ کسی بھی وجہ سے غلط آیا ہو؟ اب ڈاکٹر کا صرف ایک ٹیسٹ کی بنیاد پر یہ فرض کر لینا کہ تین لاکھ میں سے ایک والی بیماری کا شکار سامنے بیٹھا ہے، اور یہ ٹیسٹ غلطی سے پازیٹو نہیں آیا ہو گا ۔۔۔ بیس ریٹ فیلسی کہلاتا ہے، تو فالتو کے ٹیسٹ یہ مسائل بھی پیدا کرتے ہیں۔
باقی ساری باتیں ایک طرف رکھ دیں، مجھے یہ بتائیں ہسپتال جا کے آپ کا دل خواہ مخواہ تیزی سے نہیں دھڑکتا؟ اس ماحول سے خوف نہیں آتا؟ نارمل آدمی کو یہ مسئلے ہوتے ہیں اور انہیں ’وائٹ کوٹ سنڈروم‘ کہا جاتا ہے یعنی ڈاکٹر کے سفید کوٹ کو دیکھ کے ایویں بلڈ پریشر کا اوپر نیچے ہو جانا۔ تو اب بطور ایک نارمل انسان چیک اپ کروانے جائیں اور واپسی پہ بلڈ پریشر کا تحفہ ساتھ لائیں، یہ بھی ہو جاتا ہے اس فانی زندگی میں۔
کُل ملا کر اس ساری کہانی کا مقصد یہ ہے کہ دوائیں، ڈاکٹر، ہسپتال، میڈیکل ٹیسٹ، سرجری، خدا رحم کرے یہ سب ہر انسان کی زندگی کا حصہ ہیں لیکن انہیں آواز تب دیں جب آپ کو لگے کہ استاد اب گزارہ نہیں ہو رہا، عمر بہت زیادہ ہے یا کوئی سنگین مسئلہ لاحق ہے، ورنہ اسلم چچا والا فارمولا رکھیں، چھوٹی موٹی تکلیف کو گھر پہ بھگتیں، سالانہ پھیروں یا خواہ مخواہ کے ٹیسٹوں سے دور بھاگیں، خود سے گوگل پہ علامات نہ ڈھونڈیں، نارمل ہیں تو نارمل رہیں، مولا شفا دینے والا ہے، صحت کی بادشاہی رہے!