میرے والد دوسری عالمی جنگ کے بعد برطانیہ آنے والے ابتدائی بنگلہ دیشی تارکین وطن مردوں میں شامل تھے۔ جب وہ 1950 کی دہائی کے آخر میں مشرقی لندن کی بندرگاہوں پر کام کرنے کے لیے برطانیہ پہنچے تو وہاں حلال گوشت دستیاب نہیں تھا، اس لیے انہوں نے کئی برس بغیر گوشت کے گزارے۔
حلال گوشت سے مراد وہ گوشت ہے، جو اسلامی قوانین کے مطابق تیار کیا گیا ہو، جس میں جانور ذبح کرتے وقت ایک تیز دھار چھری سے اس کا گلا کاٹا جاتا ہے اور اس دوران تکبیر پڑھنا لازمی ہے۔
انہوں نے سب سے پہلے ٹاور ہیملٹس میں رہائش اختیار کی۔ یہ خستہ حال گھروں پر مشتمل ایک علاقہ تھا، جہاں پر کم اجرت والے مزدور رہائش پذیر تھے اور جہاں وہ اور سلہٹ سے آئے دوسرے افراد کبھی کبھار مرغیاں خرید کر خود اسلامی اصولوں کے مطابق ذبح کرتے تھے۔
ان چھوٹے، تنگ فلیٹس میں وہ اکٹھے کھانا بناتے اور کھاتے، صرف زندہ رہنے کے لیے نہیں، بلکہ اپنی عزتِ نفس، اپنے ایمان اور ایک اجنبی ملک میں گھر جیسا نازک احساس قائم رکھنے کے لیے بھی۔
اب برطانوی پارلیمنٹ میں ایک عوامی پٹیشن پر بحث ہونے والی ہے، جس کا مقصد بغیر بے ہوش کیے (non-stun) جانوروں کو ذبح کرنے پر پابندی لگانا ہے۔ بظاہر یہ پٹیشن جانوروں کی فلاح کا معاملہ ہے لیکن درحقیقت یہ برطانیہ میں مسلم اور یہودی اقلیتوں کی ثقافتی تنہائی کا ایک بڑا مسئلہ اجاگر کرتی ہے۔
مسلمانوں کی طرح یہودی قوانینِ خور و نوش، جنہیں کاشروت کہا جاتا ہے، میں بھی شِحیطہ شامل ہے، جو جانور کو ذبح کرنے سے پہلے بے ہوش کرنے کی ممانعت کرتا ہے۔
اس پٹیشن میں ’وحشیانہ‘ جیسے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں اور ’جدید برطانوی اقدار‘ کا حوالہ دے کر اس بات پر دلالت کی گئی ہے کہ کچھ اقلیتیں قومی شناخت سے مطابقت نہیں رکھتیں۔ یہ پٹیشن حلال اور کوشر طریقوں کو چیلنج کرتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسلام میں ہمیں جانوروں کے ساتھ رحم کرنے کا سکھایا گیا ہے۔ اسلامی قانون میں جانوروں کو غیر ضروری تکلیف سے بچانے کے واضح اصول موجود ہیں، حتیٰ کہ ذبح کرتے وقت بھی۔
صدیوں سے مختلف ثقافتوں اور مذاہب میں جانور خوراک، لباس، سواری، حفاظت اور جذباتی قربت کا ذریعہ رہے ہیں۔ اس مشترکہ تاریخ کے ساتھ ایک مشترکہ ذمہ داری بھی وابستہ ہے۔
تاہم فروری 2024 میں یورپی عدالت برائے انسانی حقوق نے بیلجیئم میں بغیر بے ہوش کیے جانور ذبح کرنے پر پابندی کو برقرار رکھا اور کہا کہ یہ فیصلہ یورپی کنونشن کے آرٹیکل نو کی خلاف ورزی نہیں ہے۔
عدالت نے مؤقف اختیار کیا کہ ’عوامی اخلاقیات‘ میں افراد کے رہائشی ماحول کی فکر شامل ہے اور بالواسطہ طور پر جانوروں کی بھی۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کس کی اخلاقیات کو فوقیت دی جا رہی ہے؟ اور وہ بھی کس مذہبی آزادی کی قیمت پر؟
یہ فیصلہ کسی اخلاقی غیر جانبداری کا مظہر نہیں بلکہ اقدار کی ایک درجہ بندی کو ظاہر کرتا ہے، جہاں اکثریتی ثقافتیں طے کرتی ہیں کہ کیا قابل قبول ہے اور اقلیتوں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ خود کو اس کے مطابق ڈھالیں۔
اقلیتوں کو الگ تھلگ کرنے والا یہ بیانیہ اس بات کو نظرانداز کرتا ہے کہ برطانوی روایات، خوراک اور ضروریات بھی تاریخ اور حالات کے تحت تشکیل پائی ہیں۔
1980 کی دہائی میں جب ہم بہن بھائیوں نے اپنے والد سے خرگوش پالنے کی اجازت مانگی تو وہ ہنس پڑے۔ انہوں نے کہا کیا ہم اسے کھائیں گے بھی؟ یہ بات آدھی مذاق اور آدھی یاد داشت تھی۔ ان کے لیے خرگوش کا مطلب ضرورت تھا، جذبات نہیں۔
دوسری عالمی جنگ کے دوران اور اس کے بعد خرگوش کا گوشت برطانوی غذا کا اہم حصہ تھا۔ مشرقی لندن جیسے علاقوں میں گھروں کے صحنوں میں خرگوش پالے جاتے تھے، بطور پالتو جانور نہیں بلکہ کھانے کے لیے۔ یہ عام، عملی اور بلا شبہ برطانوی عمل تھا۔ ان طریقوں کو تنقید کا نشانہ نہیں بنایا جاتا تھا بلکہ سمجھداری سمجھا جاتا تھا۔
برطانیہ میں خوراک تحفظ اور صفائی کے نگران ادارے فوڈ سٹینڈرڈز ایجنسی (ایف ایس اے) کے تحت تمام مذبح خانوں (چاہے حلال ہوں یا نہ ہوں) کی نگرانی کرتی ہے۔ اپنی 24-2023 کی رپورٹ میں ایف ایس اے نے جانوروں کی فلاح کی 362 خلاف ورزیوں کی نشاندہی کی، لیکن یہ نہیں بتایا کہ یہ خلاف ورزیاں حلال تصدیق شدہ اداروں میں ہوئیں یا عام مذبح خانوں میں۔
برطانیہ میں اب تقریباً 88 فیصد حلال جانوروں کو ذبح کرنے سے پہلے بے ہوش کیا جاتا ہے جب کہ 2015 میں شرح 80 فیصد تھی اور اب بغیر بے ہوش کیے جانے والے حلال و کوشر مذبح خانے بہت قلیل تعداد میں رہ گئے ہیں، اس لیے غالب امکان یہی ہے کہ زیادہ تر خلاف ورزیاں عام (غیر حلال) مذبح خانوں میں ہوئی ہوں گی۔
اس کے باوجود حلال طریقوں کو غیر متناسب تنقید کا سامنا ہے، حالانکہ حکومت کی حمایت یافتہ ’ڈیمونسٹریشن آف لائف‘ پروٹوکول نے ثابت کیا ہے کہ بغیر بے ہوش کیے حلال ذبح بھی فلاحی اصولوں پر پورا اتر سکتا ہے۔ یہ پروٹوکول 2021 میں شروع کیا گیا اور اسے جانوروں کی فلاح کے لیے آل پارٹی پارلیمانی گروپ کی حمایت حاصل ہے۔
اس کا مقصد برطانیہ اور بیرون ملک مقیم مسلم صارفین کو یقین دلانا ہے کہ صرف سر پر بجلی کی ہلکی چوٹ کے ذریعے بھیڑوں اور بکریوں کو بے ہوش کرنا حلال اصولوں کے مطابق ہو سکتا ہے۔
یہ پٹیشن، جو بغیر بے ہوشی کے ذبح کرنے پر پابندی کی حمایت میں ہے، برطانیہ میں مسلمانوں کی زندگیوں پر بڑھتی ہوئی نگرانی کا حصہ ہے۔ مسلمانوں کے معمولات کو طویل عرصے سے ’لبرل فکرمندی‘ کے پردے کے پیچھے سے مشکوک نگاہوں سے دیکھا جاتا رہا ہے، چاہے وہ حلال گوشت ہو، برقعہ ہو یا شریعت۔
ایک حالیہ مثال بدھ کو اس وقت سامنے آئی جب ریفارم یوکے پارٹی کی رکن پارلیمنٹ سارہ پوچن نے وزیر اعظم کیئر سٹارمر سے پوچھا کہ آیا وہ مسلم خواتین کے جسم اور چہرے کے پردے پر پابندی کی حمایت کریں گے جیسا کہ فرانس، ڈنمارک اور بیلجیئم میں پہلے سے ہو چکا ہے۔
یہ سب ایک فوری سوال کو جنم دیتا ہے اور وہ یہ کہ یہاں کن اقدار کا تحفظ کیا جا رہا ہے اور برطانوی اقلیتوں کو بار بار اپنی اقدار کا جواز کیوں دینا پڑتا ہے؟
آخر میں سوال یہ نہیں کہ جانوروں کو بے ہوش کیے بغیر ذبح کرنے پر پابندی لگائی جائے یا نہیں بلکہ یہ ہے کہ ہم جانوروں کی فلاح اور مذہبی آزادی دونوں کو کس طرح برقرار رکھ سکتے ہیں، بغیر اس کے کہ اقلیتی برادریوں کو ہی ہمیشہ کی طرح قربانی کا بکرا بنایا جائے۔
© The Independent