پاکستان کی وفاقی وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی شزہ فاطمہ خواجہ نے جمعرات کو کہا ہے کہ حکومت 2025 کے آخر تک ملک میں فائیو جی موبائل سروس متعارف کرانے کی کوشش کر رہی ہے۔
اسلام آباد میں صحافیوں سے ملاقات کے دوران انہوں نے بتایا ’ہم اس سال دسمبر تک فائیو جی سروس پاکستان میں لانے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن سپیکٹرم سے متعلق عدالتی کارروائیاں اس میں رکاوٹ پیدا کر رہی ہیں۔‘
فائیو جی موبائل نیٹ ورک کی پانچویں جنریشن ہے جو فور جی کے مقابلے میں کئی گنا تیز انٹرنیٹ، کم لیٹنسی (تاخیر)، اور زیادہ صارفین کو بیک وقت کنیکٹ کرنے کی صلاحیت فراہم کرتی ہے۔
دنیا کے بیشتر ممالک میں یہ ٹیکنالوجی پہلے ہی رائج ہے، جو ریموٹ سرجری، خودکار گاڑیوں، سمارٹ شہروں اور جدید انٹرنیٹ آف تھنگز (IoT) کے لیے بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔
پاکستان میں فی الحال فور جی ٹیکنالوجی زیر استعمال ہے۔
شزہ فاطمہ کے مطابق ملک میں فائیو جی سپیکٹرم کی نیلامی میں تاخیر کی بڑی وجوہات میں پی ٹی سی ایل اور ٹیلی نار کے درمیان مذاکرات اور مسابقتی کمیشن آف پاکستان (سی سی پی) کے فیصلے شامل ہیں۔
انہوں نے بتایا ’پاکستان میں فی الحال سپیکٹرم کی دستیاب گنجائش 274 میگا ہرٹز ہے، جو فائیو جی کے آغاز کے بعد تقریباً دوگنی ہو کر 550 میگا ہرٹز تک پہنچ سکتی ہے۔
یاد رہے کہ گذشتہ برس چیئرمین پی ٹی اے نے کہا تھا کہ پچھلے پانچ سالوں میں ٹیلی کام انفراسٹرکچر پر حکومت نے ایک روپیہ خرچ نہیں کیا، بلکہ تمام سرمایہ کاری یو ایس ایف (یونیورسل سروس فنڈ) کے ذریعے نجی ٹیلی کام سیکٹر کرتا رہا ہے۔
گلگت بلتستان اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں ناقص انٹرنیٹ پر ایک سوال کے جواب میں وزارت کے حکام نے بتایا کہ ہر سال وزارت آئی ٹی کو تقریباً نو ارب روپے ملتے ہیں جن میں سے سات ارب روپے ’سپیشل کمیونیکیشن آرگنائزیشن (ایس سی او)‘ کو جاتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
فوج اور وزارت آئی ٹی کے ماتحت ایس سی او ان دو خطوں میں موبائل فون، لینڈ لائن، براڈبینڈ اور فور جی سروس فراہم کرتا ہے کیونکہ نجی آپریٹرز کو ان علاقوں میں محدود یا کوئی کوریج حاصل نہیں۔
صحافیوں سے ملاقات کے بعد انڈپینڈنٹ اردو کے ایک سوال پر شزا فاطمہ نے بتایا کہ پاکستان میں سٹار لنک سمیت چینی اور روسی کمپنیوں کی رجسٹریشن کا عمل جاری ہے۔
سٹار لنک کو پہلے ہی نو آبجیکشن سرٹیفیکیٹ (NOC) جاری ہو چکا ہے۔
سٹار لنک ایلون مسک کی کمپنی سپیس ایکس کا حصہ ہے اور دنیا کے 100 سے زائد ممالک میں سیٹلائٹ انٹرنیٹ فراہم کر رہی ہے۔
اس کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ یہ انٹرنیٹ کے روایتی ڈھانچے (ٹاورز یا فائبر کیبلز) پر انحصار نہیں کرتی بلکہ زمین کے مدار میں موجود ہزاروں سیٹلائٹس کے ذریعے براہِ راست انٹرنیٹ فراہم کرتی ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ صارفین پہاڑوں، صحراؤں، سمندروں، غاروں یا ہوائی جہاز میں سفر کے دوران بھی انٹرنیٹ سے جڑے رہ سکتے ہیں۔