خشک و بنجر دوکہ وادی عمان کے ان قیمتی وسائل کا مرکز ہے جو تیل یا گیس نہیں بلکہ لوبان کے درخت ہیں۔ ان درختوں کا خوشبودار رس (گوند) ہزاروں سال سے مقامی لوگ جمع کرتے آ رہے ہیں اور اسے ’سفید سونا‘ کہتے ہیں۔
یمن کی سرحد سے متصل عمان کے جنوبی صوبے ظفار میں واقع یہ وادی دنیا کا سب سے بڑا ذخیرہ ہے، جہاں تقریباً پانچ ہزار لوبان کے درخت موجود ہیں۔
ان درختوں کے تنے خاص خوشبو دار رال خارج کرتے ہیں جس سے لکڑی جیسی خوشبو پھیلتی ہے۔
یمن کی سرحد سے متصل عمان کے جنوبی صوبے ظفار میں واقع یہ وادی دنیا کا سب سے بڑا ذخیرہ ہے، جہاں تقریباً پانچ ہزار لوبان کے درخت بنجر زمین پر جابجا موجود ہیں اور ان کے تنے ایسے دانے لیے ہوئے ہیں جو مخصوص لکڑی جیسی خوشبو خارج کرتے ہیں۔
درخت کے سائے میں آرام کرتے ہوئے لوبان جمع کرنے والے عبداللہ جداد نے کہا: ’ہمارے لیے لوبان سونے سے زیادہ قیمتی ہے، یہ ایک خزانہ ہے۔‘
لوبان کے رس سے حاصل ہونے والا تیل عطر اور سکن کیئر مصنوعات میں استعمال ہوتا ہے، جبکہ اسے مقامی منڈیوں میں خوشبو دار دانوں کی شکل میں بھی فروخت کیا جاتا ہے۔
عالمی شہرت یافتہ عمانی پرفیوم برانڈ امواج، جو اس ذخیرے کی دیکھ بھال کرتا ہے، اپنی خوشبوئیں دنیا بھر میں سینکڑوں ڈالر فی بوتل کے حساب سے فروخت کرتا ہے۔ ایک محدود ایڈیشن پرفیوم جس میں لوبان شامل تھا، تقریباً 2,000 ڈالر میں فروخت ہوا۔
دوقہ وادی دنیا کے ان نایاب مقامات میں سے ایک ہے جہاں بوسویلیا درخت اگتے ہیں، جن سے لوبان کی رال حاصل کی جاتی ہے۔ یہ وادی سنہ 2000 سے یونیسکو کے عالمی ورثہ کی فہرست میں ’ارضِ لوبان‘ کے حصے کے طور پر شامل ہے، جس میں خور روری، البلید اور شصر بھی شامل ہیں۔
تیل کی مانند قیمتی
اپنی منفرد خاکی خوشبو کے باعث لوبان صدیوں سے بطور بخور استعمال ہوتا رہا ہے، لیکن اسے روایتی طب اور حتیٰ کہ مذہبی رسومات میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
جدید ٹیکنالوجی سے پہلے، تیسری صدی قبل مسیح میں شروع ہونے والی لوبان کی تجارت، ظفار سے سمندری اور قافلوں کے راستوں کے ذریعے میسوپوٹیمیا، وادی سندھ، قدیم مصر، یونان، روم اور حتیٰ کہ چین تک پھیلی ہوئی تھی۔
خور روری کے مقام کے سربراہ احمد المرشدی کے مطابق: ’قدیم زمانے میں لوبان کی قیمت تقریباً ویسی ہی تھی جیسی آج تیل کی ہے۔‘
خور روری کے مقام پر واقع قدیم بندرگاہ سمحرام دنیا تک لوبان کی ترسیل کا مرکزی دروازہ تھی۔
عبداللہ جداد نے درختوں سے خشک شدہ دانے جمع کرتے ہوئے اے ایف پی کو بتایا کہ اس وادی میں پایا جانے والا لوبان’نجدی‘ قسم کا ہے، جو چار اہم اقسام میں سے ایک ہے۔
فیصل حسین بن اسکر کے مطابق، جن کے والد نے 1950 کی دہائی میں بن اسکر لوبان کی دکان قائم کی تھی، نجدی اور ہجری اقسام طبی فوائد کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔
انہوں نے کہا: جتنا صاف اور خالص لوبان ہوگا، وہ بطور علاج پینے کے لیے اتنا ہی موزوں ہے، جبکہ باقی بخور کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ظفار میں کئی فیکٹریاں لوبان سے بنی سکن کیئر اور تیل کی مصنوعات میں مہارت رکھتی ہیں۔
اعلیٰ درجے اور نایاب ترین لوبان کا رنگ ہلکا سبز ہوتا ہے۔
جلدی غصہ کرنے والا درخت‘
لوبان کا رس ہاتھ سے روایتی طریقوں کے تحت حاصل کیا جاتا ہے، جس میں درخت کی چھال کو کاٹ کر رس نکالا جاتا ہے اور پھر چند دنوں کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے تاکہ وہ سخت ہو جائے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ عمل نہایت احتیاط اور مہارت کا متقاضی ہے۔
صلالہ کے ارضِ لوبان میوزیم میں سیاحوں کو بریفنگ دیتے ہوئے ایک گائیڈ نے کہا: ’لوبان کا درخت جلدی غصہ کر جاتا ہے۔‘
ذخیرے میں کام کرنے والے مسلم بن سعید جداد نے بتایا: ’ہم درخت کو مخصوص چھوٹے چھوٹے حصوں پر تقریباً پانچ بار ضرب لگاتے ہیں تاکہ اسے محفوظ رکھا جا سکے۔ کسی کو بھی لوبان کے درخت کو مکمل طور پر نہیں کاٹنا چاہیے، ایسا کرنے سے وہ مر سکتا ہے۔‘
سنہ 2022 میں امواج نے عمانی حکام کے ساتھ شراکت داری کر کے دوقہ ذخیرے کی ترقی اور مقامی کمیونٹی کے لیے روزگار کے مواقع فراہم کرنے کا منصوبہ بنایا۔ اس کے تحت درختوں کے صرف پانچویں حصہ سے فصل لی جاتی ہے تاکہ باقی محفوظ رہیں
ہر درخت کا ایک الگ کوڈ ہے اور ماہرین کی ایک ٹیم ان کی نگرانی کرتی ہے۔ عطیات دینے والوں کو سالانہ تحائف کے طور پر لوبان کی مصنوعات بھیجی جاتی ہیں۔
ذخیرے کے نگران محمد فرج اسطنبولی کے مطابق، عنقریب ایک ڈسٹلری قائم کی جائے گی تاکہ لوبان کا تیل وہیں نکالا جا سکے، جو فی الحال فرانس میں تیار ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا: ’حکومت سڑکوں کی تعمیر جیسے ترقیاتی منصوبے کر رہی ہے، جو ان علاقوں کو خطرے میں ڈال دیتے ہیں جہاں لوبان کے درخت اگتے ہیں۔ ہم ان درختوں کو وہاں سے لا کر ذخیرے میں لگاتے ہیں۔ اب تک ہم تقریباً 600 درخت بچا چکے ہیں۔‘