چینی اور روسی صدور کی طول العمری پر گفتگو اور چینی پریڈ

شی جن پنگ اور ولادی میر پوتن کو مدت اقتدار کی کسی عملی حد کا سامنا نہیں، اس لیے کسی قانونی پابندی کی بجائے جسمانی صلاحیت ہی ان کے دائمی اقتدار کی واحد رکاوٹ ثابت ہو سکتی ہے۔

روس کے صدر ولادی میر پوتن تین ستمبر 2025 کو چین کے صدر شی جن پنگ اور شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ اُن کے ساتھ جاپان پر فتح کی 80 ویں سالگرہ اور دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے موقع پر ایک فوجی پریڈ سے پہلے چہل قدمی کر رہے ہیں (اے ایف پی)

سب سے زیادہ بدنام ’غلطی‘ سرد جنگ کے عروج پر اس وقت کی گئی جب اس وقت کے امریکی صدر رونالڈ ریگن نے ملک گیر سے خطاب سے قبل اعلان کیا کہ ’ہم پانچ منٹ میں بم باری شروع کر دیں گے۔‘

(خوش قسمتی سے یہ اعلان پہلے سے ریکارڈ شدہ تھا اس لیے یہ انتباہ کبھی نشر نہیں ہوا۔) لیکن اس ہفتے روس اور چین کے رہنماؤں کے درمیان ہونے والی گفتگو کے کچھ حصوں کا ترجمہ بھی تقریباً اسی طرح عجیب و غریب تھا۔

اگر یہ سوال ہے کہ جب دنیا کے مطلق العنان حکمران آپس میں دوستانہ گپ شپ کرتے ہیں تو وہ کیا باتیں کرتے ہیں؟ تو یہاں اس کا جواب اعضا کی پیوند کاری اور اس کی بدولت ملنے والی طویل یا شاید دائمی، زندگی کے امکانات ہیں۔

جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ کیا اس پورے واقعے کو پروپیگنڈا کرنے کے لیے گھڑا گیا تو اس موضوع کی غیر متوقع نوعیت سے لگتا ہے کہ ایسا ہرگز نہیں۔

کوئی بھی شخص 10 لاکھ سال میں بھی یہ بات نہیں سوچ سکتا، حالاں کہ اسے اس سوچ کے مطابق بنایا جا سکتا ہے کہ آمر حکمران ہمیشہ اقتدار میں رہنا چاہتے ہیں اور اگر اعضا کے عطیے میں ہونے والی ترقی اس میں ان کی مدد کرتی ہے، تو وہ اسے خوش آمدید کہیں گے۔

شی جن پنگ اور ولادی میر پوتن کو مدت اقتدار کی کسی عملی حد کا سامنا نہیں ہے، اس لیے کسی قانونی پابندی کی بجائے جسمانی صلاحیت ہی ان کے دائمی اقتدار کی واحد رکاوٹ ثابت ہو سکتی ہے۔

سن لی جانے والی یہ باتیں کسی بھی صورت میں مغربی دنیا کی توجہ چین کی کئی روزہ نمائش سے خوشگوار انداز میں دوسری جانب مبذول کرانے کا باعث بنیں۔ اس نمائش سے عالمی مغرب کے مقابلے میں متبادل عالمی نظام کی کی قیادت کی بڑھتی ہوئی صلاحیت کا اظہار ہوتا ہے۔

یوکرین پر 2022 کے حملے سے بھی پہلے روس کو عملاً اس بلاک میں دھکیل دیا گیا جسے وہ مغرب کی طرف سے خود کو تنہا کرنے کی کوشش سمجھے گا۔ روسی تیل نہ خریدنے کے لیے انڈیا پر امریکی دباؤ کے باعث نئے امریکہ انڈیا اتحاد کے امکانات ختم ہو گئے۔ اس صورت میں چین کی قیادت میں غیر مغربی بلاک اب کہیں زیادہ مضبوط دکھائی دیتا ہے جتنا کہ وہ گذشتہ ہفتے ہی دکھائی دیا۔

بیجنگ نے اپنی فوجی طاقت دکھانے کے لیے بہت بڑی پریڈ کا اہتمام کیا۔ اس پریڈ کا مقصد یہ ظاہر کرنا تھا کہ چین ایک نئی حقیقت کے طور پر ابھرا ہے۔

لیکن اس تصویر کو دو باتوں نے پیچیدہ بنا دیا۔ وہ دو باتیں یہ تھیں کہ چین کو صرف مغرب کے لیے ایک خطرہ نہیں سمجھا جا سکتا اور نہ ہی وہ امریکہ سے لڑنے کی تیاری کر رہا ہے جسے کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ زوال کا شکار ہے۔

پہلے شمالی کوریا کا ذکر کرتے ہیں۔ کم جونگ اُن جو چھ سال میں پہلی بار چین کا دورہ کر رہے تھے اور پہلی بار کسی بین الاقوامی اجتماع میں دکھائی دیے، اب کی بار شمالی کوریا ایک بڑے بلاک کا حصہ سمجھا گیا۔ اس سے بڑھ کر، پوتن شی کم کی تینوں رہنماؤں کی تصاویر مغرب کے لیے ایک خطرہ قسم کا اتحاد ظاہر کرنے کے لیے بنائی گئی تھیں۔ تاہم سوال یہ ہے کہ شمالی کوریا کو ’نارمل‘ قرار دینا کتنا خطرناک ہے؟

یہ ایک ایسا عمل تھا جو ممکنہ طور پر ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے دور اقتدار کے اب بھی متنازع سمجھے جانے والے فیصلے سے شروع ہوا جب انہوں نے کم سے ملاقات کی اور انہیں ایک جائز قومی رہنما کے طور پر تسلیم کیا۔

اس ساکھ نے شمالی کوریا کی خطرناک جوہری توجہ حاصل کرنے کی کوششوں کو تقریباً روک دیا، اس سے پہلے کہ جو بائیڈن کی جنوبی کوریا کے لیے کھلی حمایت اس رجحان کو پلٹا دے۔

تاہم بیجنگ میں کم کو دیکھ کر ایسا لگا جیسے وہ ایک اچھے سوٹ میں ملبوس اپنی بیٹی (ممکنہ طور پر ان کی وارث) کے ساتھ مناسب رویہ اختیار کرنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔ کیا سفارتی قبولیت، نہ کہ بائیکاٹ، ایسے جوہری شمالی کوریا کے یقینی خطرے کو بے اثر کرنے کی کلید ہے جو تمام بین الاقوامی پابندیوں سے آزاد ہو کر کام کر رہا ہے؟

اس سے بھی زیادہ غیر متوقع بات وہ طریقہ تھا جس سے کام لیتے ہوئے امریکہ، یا زیادہ درست کہیں تو ٹرمپ نے، شی جن پنگ اور ان کے مہمانوں کی طرف سے اس واضح چیلنج کا جواب دیا۔ امریکی سیاسی اسٹیبلشمنٹ نے طویل عرصے سے چین کے خلاف انتہائی جارحانہ رویہ اختیار کر رکھا ہے، جسے وہ اپنا عالمی حریف اور ابھرتی ہوئی طاقت سمجھتی ہے۔ لیکن چین کی طرف سے طاقت کے مظاہرے کے جواب میں جارحانہ بیان بازی اور جوابی کارروائی کرنے کی بجائے، جیسا کہ کانگریس شاید ابھی بھی کر سکتی ہے، ٹرمپ نے ایک بالکل مختلف راستہ اختیار کیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اپنے مختلف اعلانات میں، جو سوشل میڈیا پر اور صحافیوں کے سامنے کیے گئے گئے، انہوں نے کبھی سوالیہ اور کبھی احترامی لہجہ اپنایا لیکن کسی بھی صورت میں چین کو قیادت کے معاملے میں خود سے آگے نہیں بڑھنے دیا۔

شی، پوتن، اور کم کی ایک ساتھ تصاویر پر انہوں نے جواب دیا: ’جب آپ امریکہ کے خلاف سازش کریں تو براہ کرم میری طرف سے ولادی میر پوتن اور کم جونگ کو پرجوش آداب کہیں۔‘

چین میں پریڈ پر انہوں نے شی کو ’خوبصورت‘ اور ’بہت، بہت متاثر کن‘ تقریب پر مبارک باد دی، جب کہ یہ بھی کہا کہ ’چین کی فتح اور  شان کی جستجو میں بہت سے امریکی مارے گئے‘ اور امید ظاہر کی کہ ’انہیں ان کی بہادری اور قربانیوں کے لیے صحیح معنوں میں عزت دی جائے گی اور یاد کیا جائے گا۔‘

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا چین امریکہ مخالف اتحاد بنانے کی کوشش کر رہا ہے، تو انہوں نے کہا کہ انہیں ایسا ’بالکل نظر نہیں آتا۔‘ انہوں نے زور دے کر کہا کہ ’چین کو ہماری ہم سے کہیں زیادہ ضرورت ہے۔‘

اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ چین کو اب بھی کچھ آگے بڑھنا ہے، جو سچ ہے، کیوں کہ وہ فوجی طاقت میں ابھی بھی امریکہ سے پیچھے ہے اور اس کی فی کس مجموعی قومی پیداوار امریکہ سے چھ گنا کم ہے۔ ٹرمپ کے جوابات میں غصے یا لڑاکا پن کا نہ ہونا بیجنگ سے آنے والی تصاویر کا مقابلہ کرنے کا سب سے مؤثر طریقہ ثابت ہو سکتا ہے جب کہ بہتر تعلقات کا دروازہ بھی کھلا رہ سکتا ہے۔

ان دونوں بڑی طاقتوں کے درمیان مسلح تصادم کا خطرہ، جو بیجنگ کے فوجی طاقت کے اظہار سے ایک پیغام کے طور پر لیا جا سکتا تھا، اب پہلے سے زیادہ دور کا لگتا ہے۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر