نیپال میں بدعنوانی کے خلاف احتجاج کرنے والے نوجوانوں نے چیٹ ایپ ڈسکارڈ (Discord) پر ایک فوری ووٹنگ کے ذریعے سشیلا کرکی کو ملک کی پہلی عبوری خاتون وزیرِاعظم کا انتخاب کیا۔
یہ پیش رفت چند دن بعد سامنے آئی ہے جب نوجوانوں نے اُس خونی احتجاجی تحریک کے ذریعے کے پی شرما اولی کی حکومت کا تختہ الٹ دیا جو ملک بھر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی تھی۔
ملک میں اگلے عام انتخابات پانچ مارچ 2026 کو ہوں گے تاکہ نئے مستقل وزیرِاعظم کا فیصلہ کیا جا سکے۔ اس وقت تک سابقہ چیف جسٹس 73 سالہ سشیلا کرکی عبوری طور پر ملک کی قیادت کریں گی۔
یہ احتجاج اس وقت بھڑکا جب حکومت نے کئی مقبول سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پابندی لگا دی۔ جلد ہی یہ تحریک بدعنوانی اور بیروزگاری کے خلاف ایک بڑے بیانیے میں بدل گئی کیونکہ ’جنریشن زی‘ یعنی نوعمر اور بیس سال کی عمر تک کے نوجوان بینرز اور نعروں کے ساتھ سڑکوں پر نکل آئے۔ ملک گیر مظاہروں کے دوران کم از کم 51 افراد مارے گئے اور 1300 سے زائد زخمی ہوئے لیکن حکومت کی جانب سے فیس بک اور انسٹاگرام جیسے پلیٹ فارمز بند کرنے کی کوشش سے عوامی غصہ مزید بھڑک اٹھا۔
یہ مظاہرے اس وقت پرتشدد ہوگئے جب سکیورٹی فورسز نے احتجاج کرنے والوں پر براہِ راست فائرنگ، آنسو گیس اور لاٹھیاں استعمال کیں جس کے بعد مظاہرین نے رکاوٹیں ہٹا دیں، مارکیٹس میں لوٹ مار کی اور سرکاری دفاتر اور سیاست دانوں کے گھروں کو نذرِ آتش کر دیا۔
مظاہرین نے سنگھا دربار محل (نیپالی حکومت کا مرکزی دفتر) کو بھی جلا دیا اور ہوائی اڈوں اور ایک ٹی وی نیوز چینل کی عمارت کو نقصان پہنچایا۔
گذشتہ ہفتے نیپالی وزیرِاعظم اور ان کی کابینہ کے چار وزرا نے استعفیٰ دے دیا جبکہ فوج نے دارالحکومت کا کنٹرول سنبھالتے ہی ملک بھر میں کرفیو نافذ کر دیا۔ بعدازاں فوج نے چند گھنٹوں کے لیے کرفیو نرم کیا تاکہ عوام ضروری سامان خرید سکیں۔
ڈسکارڈ ایپ کیا ہے؟
این ڈی ٹی وی کے مطابق معزول وزیر اعظم اولی کے استعفے اور اعلیٰ سیاسی قیادت کے منظر سے ہٹنے کے بعد جب نیپال میں اقتدار کا خلا پیدا ہوا تو مظاہرین نے امریکی چیٹ ایپ ’ڈسکارڈ‘ پر اپنے اگلے اقدامات کی منصوبہ بندی شروع کی۔
رپورٹ کے مطابق ایک سرور، جس پر ایک لاکھ 45 ہزار سے زائد ممبر موجود تھے، میں اس بات پر بحث ہوئی کہ عبوری رہنما کون ہو سکتا ہے۔ ہفتے بھر کے دوران احتجاجی تحریک کے نمائندوں نے ڈسکارڈ ایپ پر مختلف پولز کرائے تاکہ ممکنہ امیدواروں کے نام سامنے آئیں۔ ان میں سشیلا کرکی سب سے نمایاں رہیں اور انہیں ان کی دیانتداری کے باعث وسیع پیمانے پر سراہا گیا۔
سابقہ چیف جسٹس کرکی بدعنوانی کے خلاف اپنے سخت مؤقف کے باعث بھی جانی جاتی ہیں۔
23 سالہ کونٹینٹ کریئٹر سڈ گھمیری نے نیویارک ٹائمز سے بات کرتے ہوئے کہا: ’اس وقت نیپال کی پارلیمان ڈسکارڈ پر چل رہی ہے۔‘
رپورٹ کے مطابق اس ایپ کے چینل کے منتظمین شہری تنظیم ’ہامی نیپال‘ کے ارکان ہیں اور شریک افراد وہی ہیں جنہوں نے احتجاج میں حصہ لیا۔
سشیلا کرکی کون ہیں؟
سشیلا کرکی کی بطور عبوری وزیرِاعظم حلف برداری کا فیصلہ صدر رام چندر پاؤڈیل، نیپال آرمی کے سربراہ جنرل اشوک راج سگدل اور جنریشن زی احتجاجی تحریک کے نمائندوں کے درمیان اتفاقِ رائے سے ہوا۔
چیف جسٹس کے طور پر سشیلا کرکی نے کئی تاریخی مقدمات کی سماعت کی، جن میں اطلاعات و مواصلات کے وزیر جیا پرکاش پرساد گپتا کو بدعنوانی کے جرم میں سزا سنانا بھی شامل ہے۔ انہوں نے ایک ایسے فیصلے کی بھی سربراہی کی جس میں حکومت کی پولیس چیف کی تقرری کو کالعدم قرار دیا گیا۔
جب 2016 میں سشیلا کرکی سپریم کورٹ کی مستقل جج کے طور پر مقرر ہوئیں، تو صرف ایک سال کے اندر اندر حکمران جماعتوں نیپالی کانگریس اور سی پی این کے اراکینِ پارلیمان نے ان کے خلاف مواخذے کی تحریک پیش کر دی۔ ان کا الزام تھا کہ کرکی اپنے فیصلوں میں غیر جانبدار نہیں رہیں، خاص طور پر اس وقت جب انہوں نے پولیس چیف کی تقرری کو کالعدم قرار دیا۔
مواخذے کی اس تحریک کے نتیجے میں سشیلا کرکی کو عہدے سے معطل کر دیا گیا اور ساتھ ہی بدعنوانی کے خلاف کام کرنے والے کمیشن کے طاقتور سربراہ کو بھی عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ لیکن عوام نے اسے عدلیہ کی آزادی پر حملہ سمجھا اور بڑی تعداد میں سڑکوں پر نکل کر احتجاج شروع کر دیا جس کے بعد سپریم کورٹ نے کارروائی روک دی اور مواخذے کی تحریک واپس لے لی گئی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عبوری وزیرِاعظم بننے کے بعد کرکی کا پہلا اقدام پارلیمان کو تحلیل کرنا اور نئے عام انتخابات کا اعلان کرنا تھا جو مارچ 2026 میں ہوں گے۔
کرکی اور ان کے شوہر دورگا پرساد سوبیدی نے 1990 کی دہائی میں نیپال کی عوامی تحریک میں حصہ لیا جس کے نتیجے میں مطلق العنان بادشاہت اور پنچایت نظام کا خاتمہ ہوا۔ اس دوران کرکی کو قید و بند کا بھی سامنا کرنا پڑا اور انہوں نے اپنے اس تجربے پر مبنی ناول’ کارا‘ تحریر کیا۔
مختلف میڈیا رپورٹس کے مطابق ان کے شوہر، جو اُس وقت نیپالی کانگریس کے نوجوان رہنما تھے، کو بھی قید کیا گیا۔ ان پر الزام تھا کہ وہ رائل نیپال ایئرلائنز کے ایک ہائی جیکنگ واقعے میں ملوث تھے جس کا مقصد بادشاہت کے خلاف مسلح جدوجہد کے لیے فنڈز اکٹھا کرنا تھا۔
سشیلا کرکی کی عبوری وزیرِاعظم کے طور پر تقرری ایک وسیع پیمانے پر چلنے والی بدعنوانی مخالف تحریک کا نتیجہ ہے جو آخرکار اولی کے استعفے پر ختم ہوئی۔
ملک بتدریج معمول کی طرف لوٹ رہا ہے۔ پولیس نے کٹھمنڈو میں آپریشنز بحال کر دیے ہیں جبکہ سپریم کورٹ اور بینکوں کی عمارتوں کو، جو مظاہروں میں متاثر ہوئیں، مرحلہ وار دوبارہ کھولا جا رہا ہے۔
© The Independent