اندرونِ شہر کے مکینوں کی آواز: ’یہاں محبت بھی ہے اور مسائل بھی‘

ملتان اندرون شہر کے رہائشیوں کے مطابق رات کے دو بجے بھی کوئی مدد کو بلا لے تو محلے والے پہنچ جاتے ہیں۔ یہی اپنائیت ہے جو ہمیں یہ شہر چھوڑنے نہیں دیتی لیکن مشکلات بہرحال اپنی جگہ ہیں۔

ملتان کے اندرونِ شہر کے باسی صدیوں سے یہاں آباد ہیں۔ یہ علاقہ تاریخی اہمیت تو رکھتا ہے لیکن یہاں کے مکینوں کی زندگی مسائل اور بدانتظامی کی ایک طویل کہانی سناتی ہے۔

پرانے مکان، ٹوٹی نالیاں، بکھرے بجلی کے تار اور صفائی کی ناقص صورتحال یہاں کے رہائشیوں کے روزمرہ مسائل ہیں۔

اندرونِ شہر کے رہائشی سید محمود احمد نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا’ :میرے آباؤاجداد پاکستان بننے کے بعد ہجرت کر کے یہیں آباد ہوئے اور میں بھی یہیں پیدا ہوا۔ اندرونِ شہر ہمیشہ سے مسائل کا شکار رہا ہے کیونکہ یہاں کوئی منصوبہ بندی نہیں۔ گلیاں ٹوٹی ہوئی ہیں، کوڑا کرکٹ ہر جگہ بکھرا پڑا ہے، بجلی کے تار حادثات کا سبب بنتے ہیں۔ گھروں کی حالت اتنی خستہ ہے کہ کئی مرتبہ دیواریں گرنے کے واقعات پیش آ چکے ہیں۔ حکومت نئی کالونیاں بنانے میں مصروف ہے لیکن اندرونِ شہر کو آج تک کسی بجٹ میں کوئی اہمیت نہیں دی گئی۔‘

انہوں نے کہا کہ صاف ستھرا پنجاب مہم سے امیدیں وابستہ کی گئی تھیں لیکن حالات بدستور خراب ہیں۔ ان کے مطابق اندرونِ شہر تاریخی عمارتوں کی وجہ سے سیاحوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے، مگر گندگی اور خستہ حالی دیکھ کر اکثر سیاح واپس لوٹ جاتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اندرونِ شہر کے ایک اور رہائشی عبدالرحمان نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا’ہمارے باپ دادا ہجرت کے بعد یہاں آباد ہوئے۔ بچپن کی گلیاں، رشتے داروں کے ساتھ کا نظام، شادی بیاہ اور دکھ سکھ میں ایک دوسرے کا ساتھ — یہی وہ محبت ہے جو ہمیں اس جگہ سے باندھے رکھتی ہے۔ باہر جا کر وہ اپنائیت نہیں ملتی جو یہاں ہے۔ وسائل کی کمی اور وراثتی جائیداد کی تقسیم بھی ایسی ہے کہ ہم چاہیں بھی تو کہیں اور منتقل نہیں ہو سکتے۔‘

اسی طرح محمد جمیل سلیم نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ یہاں کے لوگ ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں ہمیشہ ساتھ کھڑے ہوتے ہیں: ’رات کے دو بجے بھی کوئی بلا لے تو محلہ والے مدد کو پہنچ جاتے ہیں۔ یہی اپنائیت ہے جو ہمیں یہ شہر چھوڑنے نہیں دیتی۔ مشکلات اپنی جگہ ہیں مگر یہاں کا ماحول اور محبت ہمیں باندھے رکھتی ہے۔‘

جبکہ محمد فاروق، جن کی پیدائش 1976 میں ہوئی، اپنے علاقے کے مکانات کی خستہ حالی پر فکرمند ہیں۔ ان کا کہنا ہے: ’یہاں کے زیادہ تر مکان ہندوؤں کے زمانے کے ہیں۔ کئی گر چکے ہیں اور باقی کسی وقت بھی گر سکتے ہیں۔ کچرا، تنگ گلیاں اور خستہ عمارتیں یہاں کے حالات کو مزید خراب کر رہی ہیں۔ اگر حکومت ہماری مدد کرے تو ہم یہاں سے منتقل ہونے کے لیے تیار ہیں، ورنہ غریب آدمی اپنی مجبوریوں کے ساتھ یہی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا