پاکستان کے سب سے بڑے شہر اور تجارتی مرکز کراچی مختلف صعنتی زونز میں واقع چمڑے اور ٹیکسٹائل ملز میں کم عمر بچوں بچوں سے مشقت کے خاتمے کے لیے چائلڈ رائٹس ایکشن ہب قائم کیا گیا ہے۔
چائلڈ رائٹس ایکشن ہب یورپی یونین کے اشتراک سے پاکستان میں بچوں کے حقوق اور تحفظ کے لیے کام کرنے والی تنظیم سوسائٹی فار دی پروٹیکشن آف دی رائٹس آف دی چائلڈ ’سپارک' اور سنٹر فار چائلڈ رائٹس اینڈ بزنس (دی سینٹر) نے مشترکہ طور پر قائم کیا ہے۔
اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسف کے مطابق پاکستان میں بچوں کو مشقت، جسمانی، نفسیاتی اور جنسی تشدد کے ساتھ ساتھ معاشی استحصال اور سمگلنگ جیسے سنگین خطرات لاحق ہیں۔
اگرچہ پاکستان نے قریب 30 برس قبل بچوں کے حقوق کے کنونشن (سی آر سی) کی توثیق کی تھی لیکن تاحال ایسا کوئی قومی سطح کا مربوط اور بین الاقوامی معیار کے مطابق بچوں کے تحفظ کا کیس مینجمنٹ اور ریفرل سسٹم قائم نہیں کیا جا سکا۔
’سپارک‘ کے عہدیدار کاشف مرزا کے مطابق: 'چائلڈ رائٹس ایکشن ہب کے قیام سے نہ صرف کم عمر بچوں کے ساتھ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا خاتمہ ہوگا بلکہ بچوں کی مشقت کے خاتمے سے یورپی مارکیٹ میں پاکستان کی چمڑے اور ٹیکسٹائل مصونوعات میں بھی اضافہ ہوگا۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کاشف مرزا نے کہا کہ چائلڈ رائٹس ایکشن ہب بنگلہ دیش، ملائیشیا اور ڈیموکریٹک ریپبلک آف کانگو میں پہلے سے کام کرنے والے ایک ثابت شدہ ماڈل پر بنایا گیا ہے۔ جس کی مالی اعانت یورپی یونین کرتی ہے۔
کاشف مرزا کے مطابق: 'یورپی یونین پاکستان کی مصنوعات کا سب سے بڑا خریدار رہا ہے۔ یورپی یونین پاکستان کو زیادہ تر مصنوعات پر ٹیرف میں چھوٹ دیتی ہے۔مگر اس کے بدلے پاکستانی صعنتوں کو ماحولیاتی اور گورننس کے معیار کو بہتر بنانے کے ساتھ اس بات کا پابند بنایا جاتا ہے کہ وہ مصونوعات کی تیاری میں کم عمر بچوں سے کام نہ کرائیں۔‘
ان کے بقول: ’پاکستان کے ٹیکسٹائل اور چمڑے کے شعبے صنعتی روزگار میں 40 فیصد سے زائد حصہ رکھتے ہیں اور عالمی تجارت میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔‘
کاشف مرزا کے مطابق کراچی پاکستان کا تجارتی مرکز ہے جہاں ایک درجن کے قریب چھوٹے بڑے صعنتی زونز میں تقربیاً 10 ہزار کارخانے کام کرتے ہیں جہاں چمڑے اور ٹیکسٹائل سیکٹر کی کسی بھی فیکٹری میں کم عمر بچے کام نہیں کرتے مگر ان صعنتوں کی سپلائی چین جیسے ٹیکسٹائیل کے دھاگہ بننے، سپنگ، وونگ سمیت مختلف مراحل ابھی بھی کم سن بچوں سے کام کرایا جاتا ہے جس کے باعث ان سیکٹر کی مصنوعات کا یورپی مارکیٹس میں منفی اثر ہوتا ہے۔
ان کے بقول پاکستان میں کسی فیکٹری میں چائلڈ لیبر کی اطلاع پر یورپی کمپنیز اپنا آرڈر کینسل کر سکتی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کاشف مرزا کے مطابق چائلڈ رائٹس ایکشن ہب کے تحت کارخانوں میں کام کرنے والے کم عمر بچوں کو کام سے ہٹا کر ان کی سرکاری طور پر تعلیم مکمل کرانے، انہیں ووکیشنل تربیت دینے کا بندوبست کرے گا۔
ان کے بقول: 'کارخانوں میں کام کرنے والے کم عمر بچوں سے مشقت کے خاتمے کے لیے سندھ ٹیکنیکل ایجوکیشن اینڈ ووکیشنل ٹرینگ اتھارٹی، محکمہ تعلیم سندھ، لیبر ڈاپرٹمنٹ سمیت کراچی کے مختلف چیمبر آف کامرس کا بھی اشتراک ہوگا۔‘
یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق ملک میں صرف 34 فیصد بچوں کی پیدائش کا اندراج کیا جاتا ہے، جس کے باعث ان کی قانونی شناخت، تعلیم اور صحت جیسے بنیادی حقوق متاثر ہوتے ہیں۔
یونیسف نے بتایا کہ تقریباً 33 لاکھ بچے چائلڈ لیبر میں جکڑے ہوئے ہیں جبکہ خواتین کی ایک بڑی تعداد کی شادی 18 برس سے پہلے ہی کر دی جاتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق کم عمری کی شادی، چائلڈ لیبر اور بچوں کے تحفظ سے متعلق دیگر مسائل کو صنفی امتیاز پر مبنی سماجی رویوں اور بار بار پیش آنے والی قدرتی و انسانی آفات مزید پیچیدہ بنا دیتے ہیں جبکہ سرکاری سطح پر ان مسائل سے نمٹنے کی کوششیں مستند اعداد و شمار کی کمی کے باعث بری طرح متاثر ہو رہی ہیں۔
کاشف مرزا کے بقول: 'کسی بھی کارخانے میں کم عمر بچے کے کام کی اطلاع ملنے پر اس بچے کو وہاں سے نکال کر سرکاری پر تعلیم دینے کے ساتھ اس کی ووکیشنل تربیت کی جائے گی تاکہ بڑے ہونے پر انہیں باآسانی ملازمت مل سکے۔
کسی بھی فیکٹر میں اگر کوئی بچہ 14 سال سے کم عمر کا نوکری کی درخاست دے تو وہ فیکٹری پابند ہے کہ اس بچے کی اطلاع چائلڈ رائٹس ایکشن ہب دے تاکہ اس بچے کی مدد کی جاسکے۔‘