عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر و سینیٹر ایمل ولی خان نے چار اکتوبر کو دعویٰ کیا تھا کہ وفاقی و خیبر پختونخوا حکومت نے ان سے سرکاری سکیورٹی واپس لے لی ہے۔
یہ معاملہ ایمل ولی خان پر پاکستان مسلم لیگ کے سینیٹر طلال چودھری کی جانب سے تنقید کے بعد سامنے آیا جب طلال چودھری نے ایمل ولی خان کو طعنہ دیتے ہوئے کہا کہ ’آپ انڈر 19 تھے اور ہم نے پکڑ دھکڑ کر بلوچستان سے سینیٹر بنایا۔‘
ایمل ولی خان کی تین اکتوبر کو سینیٹ میں اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کے جواب میں طلال چودھری نے کہا تھا کہ جو اپنی ذمہ داریاں پوری کرتی ہے، ان پر اگر کوئی تنقید کرے گا تو بھرپور جواب دیا جائے گا۔
عوامی نیشنل پارٹی کے عہدیداروں پر ماضی میں خودکش حملے اور دھماکے ہوئے ہیں جن میں پارٹی کے سینئر رہنما بشیر احمد بلور اور ہارون بلور بھی جان سے گئے تھے۔ وفاقی حکومت نے ایمل ولی خان اور ان کے خاندان سے سکیورٹی واپس لینے کی وجہ ابھی تک نہیں بتائی ہے۔
The federal government/ Interior Ministry has taken back all the security personnel allotted to me and my father and family.
— Aimal Wali Khan (@AimalWali) October 4, 2025
Two things
1. If anything happens to me or my family the responsibility will be yours
2. I’ll keep on speaking for the public and am ready for anything…
اسی طرح پارٹی کے سینیئر رہنما اور ایمل ولی خان کے والد اسفندیار ولی خان کو بھی ماضی میں دھماکوں سے نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی ہے لیکن وہ محفوظ رہے اور اسی وجہ سے ان کے پاس سرکاری سکیورٹی تعینات رہتی ہے۔
ایمل ولی خان بلوچستان سے سینیٹر بنے ہیں اور ان کے ساتھ اور چارسدہ میں ان کے گھر پر وفاقی و صوبائی حکومت کی جانب سے پولیس اہلکار تعینات ہوتے ہیں۔
تاہم ایمل ولی خان نے گذشتہ روز فیس بک کے آفیشل اکاؤنٹ پر جاری بیان میں بتایا کہ وفاقی حکومت نے ان کی اور والد و اہلِ خانہ کو دی گئی حفاظتی نفری واپس لے لی ہے۔
بیان میں ایمل ولی نے بتایا ہے، ’اگر مجھے یا میرے اہلِ خانہ کو کچھ بھی ہوا تو اس کی ذمہ داری ریاست پر ہو گی۔ میں عوام کی آواز بن کر بات کرنا جاری رکھوں گا اور آنے والی ہر صورتحال کے لیے تیار ہوں۔‘
اس بیان کے چند لمحوں بعد ایمل ولی کی جانب سے ایک دوسرا بیان جاری کیا گیا جس میں انہوں نے بتایا تھا کہ اب صوبائی حکومت کی جانب سے بھی میری سکیورٹی واپس لے لی گئی ہے۔
تاہم بعد میں بیان جاری کرتے ہوئے بتایا کہ وزیرِ اعلیٰ علی امین گنڈاپور نے فون کر کے وضاحت کی کہ ’صوبائی حکومت کا اس سارے ڈرامے سے کوئی تعلق نہیں۔‘
ایمل ولی نے لکھا ہے، ’علی امین نے مجھے بتایا کہ وزارتِ داخلہ نے براہِ راست آئی جی کو سکیورٹی واپس کرنے کے یہ تمام احکامات دیے ہیں۔ میں ان کا (علی امین) شکر گزار ہوں کہ انہوں نے صورتحال واضح کر دی اور سچ سامنے لے آئے۔‘
The CM Pakhtunkhwa @AliAminKhanPTI again contacted me and assured me that the security of me and my family will be intact. Indebted.
— Aimal Wali Khan (@AimalWali) October 4, 2025
علی امین گنڈاپور کے ڈیجیٹل میڈیا کے لیے ترجمان یار محمد خان نے گذشتہ روز انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ایمل ولی خان کی سکیورٹی واپس نہیں لی گئی ہے جبکہ متعلقہ ریجنل پولیس افسر کو ایمل ولی کے پسند کے سکیورٹی اہلکار دینے کی ہدایت کی گئی ہے۔
یار محمد نے بتایا، ’موجودہ حالات میں ایمل ولی کے اعتماد کے پولیس اہلکاروں کو ان کی سکیورٹی پر تعینات کیا جائے گا اور متعلقہ ریجنل پولیس افسر اس حوالے سے ایمل ولی سے رابطے میں ہے۔‘
اس حوالے سے وزیرِ اعلیٰ ہاؤس کی جانب سے کچھ تصاویر بھی جاری کی گئی ہیں جن میں ایمل ولی خان کے چارسدہ میں گھر ولی باغ کے سامنے پولیس اہلکار کھڑے نظر آ رہے ہیں۔
وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخوا کی جانب سے سکیورٹی دینے کے احکامات تو جاری کیے گئے تھے لیکن عوامی نیشنل پارٹی کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا ہے کہ آئی جی نے وزیرِ اعلیٰ کے احکامات بھی نہیں مانے۔
پارٹی کے مرکزی ترجمان انجینئر احسان اللہ نے بتایا، ’مقامی خانمائی پولیس سٹیشن کے آٹھ پولیس اہلکاروں کو فوٹو سیشن کے لیے ولی باغ کے سامنے کھڑا کیا گیا ہے اور فوٹو سیشن کے بعد اہلکار واپس چلے گئے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’وزیرِ اعلیٰ کی جانب سے اہلکاروں کے نام مانگنے اور تعینات کرنے کا ڈرامہ رچا کر وزیرِ اعلیٰ وفاقی حکومت کے سہولت کار بننے کی کوشش کر رہے ہیں اور یہ باور کرانے کی کوشش میں ہیں کہ پولیس ان کے کنٹرول میں ہے۔‘
جب کارکنان نے خود ہتھیار اٹھا لیے
ایمل ولی خان نے سکیورٹی واپس لینے کے بعد ایک بیان میں بتایا ہے کہ سکیورٹی کے فرائض اب ان کے کارکنان سنبھالیں گے اور اس کے بعد مختلف علاقوں سے مسلح افراد نے ولی باغ کا رخ کیا۔
مردان سے تعلق رکھنے والے اے این پی کے سابق ناظم حمایت اللہ مایار نے کلاشنکوف اٹھائے جاری بیان میں بتایا ہے کہ جن کے پاس جو بھی اسلحہ ہے، وہ اٹھا کر ایمل ولی اور ولی باغ کی سکیورٹی کے لیے پہنچ جائے۔
تاہم ایمل ولی خان نے اس حوالے سے بتایا کہ وہ اسلام آباد پہنچ گئے ہیں اور چارسدہ میں ان کی ذاتی سکیورٹی ولی باغ پر مامور ہے۔
انہوں نے بتایا ہے، ’ولی باغ آپ کا گھر ہے مگر فی الحال ساتھی بالکل وہ قدم نہ اٹھائیں جو ضروری نہیں ہے۔ جب بھی ضرورت ہو گی، ہم غیر مسلح اور پُرامن طریقے سے اپنے کارکنان کے ساتھ ہر جگہ جائیں گے۔‘
کیا آئی جی وزیرِ اعلیٰ کی ہدایات نظر انداز کر سکتے ہیں؟
پولیس سربراہ یا آئی جی کی تعیناتی سول سروس کمپوزیشن اینڈ کیڈر رولز 1954 کے تحت کی جاتی ہے جس میں قانون کے مطابق ناموں کی فہرست متعلقہ صوبائی حکومت یا وزیرِ اعلیٰ کو بھیجی جاتی ہے اور وزیرِ اعلیٰ کی تجویز پر وزیرِ اعظم آئی جی کی تعیناتی کا حکم دیتے ہیں۔
اس قانون کی شق نمبر 14 کے مطابق اس سروس کے ملازمین وفاقی حکومت کے احکامات کے مطابق ملک کے کسی بھی حصے میں تعینات کیے جا سکتے ہیں اور اس متعلقہ صوبے کی حکومت کے تحت اپنے فرائض انجام دیں گے۔
اسی قانون کے مطابق تعیناتی کے بعد متعلقہ افسر اسی صوبائی حکومت کے ڈسپوزل پر ہوں گے جب تک ان کو کسی اور جگہ پر تعینات نہ کیا جائے۔
سپریم کورٹ کے وکیل عمر گیلانی آئینی ماہر ہیں اور دی لا اینڈ پالیسی چیمبر کے رکن ہیں جنہوں نے اس مسئلے کے قانونی نکتوں پر کام کیا ہے۔
عمر گیلانی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’آئینِ پاکستان کی ایک تہائی شقیں صوبائی خودمختاری کے حوالے سے ہیں اور اسی وجہ سے آئین کی شق نمبر 240 میں لکھا گیا ہے کہ وفاق کے ملازمین پارلیمنٹ کے ایکٹ اور صوبے کے ملازمین یا تعیناتی صوبائی حکومت کے قوانین کے تحت ہو گی۔‘
تاہم عمر گیلانی کے مطابق شق نمبر 242 میں بھی یہ واضح کیا گیا ہے کہ صوبائی ملازمین کے لیے صوبائی پبلک سروس کمیشن ہو گا اور وفاق کے لیے فیڈرل پبلک سروس کمیشن ہو گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عمر گیلانی نے بتایا کہ ’اس کے برعکس 77 سالوں میں کسی بھی صوبے نے صوبائی پبلک سروس کمیشن کے کسی افسر کو چیف سیکریٹری تعینات نہیں کیا اور چیف سیکریٹری کی صوبے میں تعیناتی کا نوٹیفکیشن بھی وفاقی حکومت کرتی ہے جیسے وہ وائسرائے کو تعینات کرتی ہے۔‘
عمر گیلانی کے مطابق: ’مسئلہ تب ہوتا ہے کہ اگر صوبے کی پوری کابینہ بھی چیف سیکریٹری سے خوش نہیں ہے، تو پھر بھی چیف سیکریٹری کو کوئی ہاتھ نہیں لگا سکتا اور صرف اتنا کر سکتا ہے کہ ان کے خلاف وفاقی اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو خطوط لکھے۔
’چیف سیکریٹری کے علاوہ بھی قانون کے مطابق صوبے میں وفاقی حکومت کے افسران تعینات کیے جاتے ہیں جن میں کمشنرز، ضلعی پولیس افسران، اور دیگر محکموں کے افسران شامل ہیں۔‘
عمر گیلانی نے بتایا کہ ’یہ معاملہ اور وفاقی سروس کمیشن کے ملازمین کی صوبوں میں تعیناتی غیر آئینی ہے لیکن اس پر دھیان نہیں دیا جا رہا اور اس کے علاوہ یہ نظام ان ٹیلنٹڈ ملازمین جو صوبائی سروس کمیشن میں تعینات ہوتے ہیں، کے ساتھ امتیازی سلوک بھی ہے کہ وہ اہم عہدوں تک نہیں پہنچ سکتے۔‘
عمر گیلانی نے بتایا کہ سب سے پہلے تعیناتی کا یہ قانون تقسیمِ ہند سے پہلے 1915 میں پاس ہوا جب گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1915 کے تحت وفاق کے افسران کو اہم عہدوں پر تعینات کیا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ ’اس کے پیچھے وجہ یہ تھی کہ انگریزوں کو صوبائی بیوروکریٹس یا سیاست دانوں پر اعتماد نہیں تھا اور اسی وجہ سے وہ اپنے پسندیدہ افسران کو اہم عہدوں پر صوبوں میں تعینات کرتے تھے اور 118 سال گزرنے کے باوجود ہم اب بھی اسی قانون میں اٹکے ہیں۔‘