عمران نے اسٹیبلشمنٹ کو غیرجانبداری ترک کرنے پر مجبور کیا: ایمل ولی

عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان کا کہنا ہے کہ عمران خان کے نو مئی واقعات نے اسٹیبلشمنٹ کو نیوٹریلیٹی یا غیر جانبداری چھوڑنے پر مجبور کیا۔

عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے صوبائی صدر ایمل ولی خان کا کہنا ہے کہ عمران خان کے نو مئی واقعات نے اسٹیبلشمنٹ کو نیوٹریلیٹی یا غیرجانبداری چھوڑنے پر مجبور کیا۔

سربراہ عوامی نیشنل پارٹی اسفند یار ولی کے فرزند اور خیبر پختونخوا میں جماعت کے صدر ایمل ولی خان این اے 25 چارسدہ سے قومی اسمبلی کے امیدوار ہیں۔

چارسدہ کے ولی باغ میں انڈپینڈنٹ اردو کو دیے گئے تفصیلی انٹرویو میں انہوں نے پارٹی منشور، اسٹیبلشمنٹ، عمران خان پر مقدمات، اگلی وفاقی حکومت، سکیورٹی خدشات، انتخابات کے التوا اور دیگر معاملات پر کھل کر گفتگو کی۔ ان کی قیادت میں ان کی جماعت کو امید ہے کہ وہ انہیں درپیش کئی سنگین چیلنجوں سے نمٹنے میں کامیاب ہوگی۔ جماعت کے اندر اختلافات بھی ان میں سے ایک ہے۔

اسٹیبلشمنٹ اور نیوٹریلیٹی (غیر جانبداری) کی پالیسی پر ایمل ولی خان نے پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’اگر انہوں (اسٹیبلشمنٹ) نے (نیوٹریلیٹی) کا سوچا بھی تھا، لیکن بدقسمتی سے اس (عمران خان) نے نو مئی کو جو کردار ادا کیا ہے، (اس نے) مجبور کیا ہے انہیں نیوٹریلیٹی ختم کرنے پر۔‘

بقول ایمل ولی: ’آج جس تیزی سے جو سب کچھ ہو رہا، جسے میں سمجھتا ہوں کہ غلط ہے لیکن اس کا گناہ گار، اس بندے (عمران خان) نے ان کو پورا موقع دے دیا کہ آ کر یہ کریں۔‘

سکیورٹی خدشات اور انتخابات میں التوا کے مطالبات

عام انتخابات کے حوالے سے سکیورٹی خدشات پر ایمل ولی خان کا کہنا تھا کہ ان کے لیے یہ بات نئی نہیں ہے۔

’ان حالات سے پچھلے 15 سالوں میں ہم براہ راست گزر رہے ہیں۔ ان حالات میں کھل کر مہم چلانا مشکل ہے۔‘

سکیورٹی خدشات اور جمعیت علمائے اسلام ف  کے انتخابات ملتوی کرنے کے مطالبے کے حوالے سے اپنی پارٹی پالیسی پر ایمل ولی خان نے کہا: ’میں کبھی بھی یہ حالات انتخابات کے ساتھ نہیں جوڑوں گا کیونکہ ایک دفعہ اگر سکیورٹی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے انتخابات ملتوی ہوگئے تو اللہ نہ کرے جو دِکھ رہا ہے، وہ حالات خراب ہونے ہیں، پھر آپ شاید اگلے 10 سال انتخابات نہ کروا سکیں، شاید 20 سال انتخابات نہ کروا سکیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایمل ولی خان کا کہنا تھا کہ ’خراب صورت حال پچھلے 15 سال سے خیبر پختونخوا میں ہے تو پھر اس لحاظ سے تو ماضی کے انتخابات بھی نہیں ہونے چاہیے تھے۔‘

مولانا فضل الرحمٰن کی جانب سے سکیورٹی خدشات پر ان کہنا تھا: ’مانتا ہوں کہ مولانا صاحب کے لیے یہ حالات نئے ہیں کیونکہ پچھلے 15 سال وہ دوسری طرف رہے ہیں۔ ہمارے لیے حالات اس طرح تھے تو یہ ہمارا مذاق اڑاتے تھے۔ میں آج کسی کا مذاق نہیں اڑاؤں گا بلکہ اس کے دکھ اور درد میں شریک ہوں گا کیونکہ ان حالات سے ہم گزر چکے ہیں۔‘

جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کے دورہ افغانستان اور اس تاثر پر کہ یہ دورہ سکیورٹی ضمانت حاصل کرنے کے لیے کیا گیا تھا، کے حوالے سے ایمل ولی کا کہنا تھا کہ ’یہ ان کا ذاتی دورہ ہو سکتا ہے کیونکہ ریاست نے بھی واضح کر دیا ہے کہ ان کا کچھ لینا دینا نہیں ہے۔

’دورے کا مقصد وہ (مولانا فضل الرحمٰن) خود ہی بتا سکتے ہیں۔ میں نہیں سمجھتا کہ یہ ضمانت وہاں سے مل سکتی ہے۔ مولانا صاحب کو ضمانت شاید باجوڑ سے مل سکتی ہے۔‘

عمران خان پر مقدمات اور آئندہ وفاقی حکومت

اس سوال پر کہ ’کیا انہیں لگتا ہے کہ اگلی حکومت نواز شریف کی ہو گی؟ ایمل ولی خان نے کہا: ’خوش قسمت لوگ ہیں، یہاں ایک ڈومیسائل ہے جو تھوڑا وی آئی پی ہے۔‘

ایمل ولی نے عمران خان پر درج مقدمات کے حوالے سے کہا کہ ’کیا کیا گیا ہے ان کے ساتھ؟ آپ تاریخ اٹھائیں۔ ادھر پارٹیوں کے ساتھ جو حرکتیں ہوئی ہیں اور جماعتیں سنبھل کر کھڑی ہیں۔ سو سال میں میری تین نسلیں جس جس چیز سے گزری ہے، یہ ہوش و حواس میں بھی اس سے نہیں گزر سکتے۔‘

اے این پی کا منشور اور چیک پوسٹس

انٹرویو کے دوران ایمل ولی خان سے پوچھا گیا کہ ان کی جماعت کے بارے میں تاثر ہے کہ وہ عوامی نیشنل پارٹی سے عوامی صوبائی پارٹی بن رہی ہے اور یہ کہ ان کے انتخابی منشور میں صرف خیبرپختونخوا پر توجہ مرکوز کی گئی ہے جبکہ 2018 کے منشور میں خارجہ پالیسی کا ذکر بھی کیا گیا تھا۔

اس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’ہم صوبائی خودمختاری کے بعد کی بات کر رہے ہیں۔ منشور کا تعلق حکومت سے ہوتا ہے جس میں ہم بتاتے ہیں کہ طاقت میں آئیں گے تو کیا کیا کریں گے۔ یہ صوبائی منشور ہے اور ہر صوبے نے اپنا اپنا منشور پیش کیا ہے۔‘

منشور میں چیک پوسٹس کا کنٹرول سویلین فورسز کو دینے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا: ’ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اندرونی معاملات سویلین اداروں کے حوالے کیے جائیں۔ آپ کی بہترین پولیس ہے، ان کو بہترین اسلحہ دیں، مزید تربیت دیں لیکن یہ دفاعی اداروں کا کام نہیں ہے، یہ پولیس کا کام ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ یہ پولیس کو کرنا چاہیے۔‘

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست