انڈیا میں ’جعلی شادیوں‘ کا رجحان کیوں مقبول ہو رہا ہے؟

جعلی شادیاں نوجوانوں کو اصل شادی کے خرچ اور جھنجھٹ کے بغیر اس کی چمک دمک سے لطف اٹھانے کا موقع دیتی ہیں۔

اننت امبانی کی شادی میں ڈانس کا ایک منظر  (پریانکا چوپڑا)

ایک ایسے ملک میں جہاں شادیاں تقریباً 100 ارب پاؤنڈ کی انڈسٹری بن چکی ہیں اور جہاں امیر ترین لوگ ایک ہی شادی پر کروڑوں ڈالر خرچ کر دیتے ہیں، وہاں اب ایک نیا رجحان تیزی سے مقبول ہو رہا ہے یعنی نوجوان انڈین شہری ایسی ’شادیوں‘ میں جانے کے لیے پیسے دے رہے ہیں جہاں دراصل کوئی جوڑا حقیقی شادی نہیں کر رہا ہوتا بلکہ یہ صرف موسیقی، رقص اور تفریح سے بھرپور ایک رنگین رات ہوتی ہے۔

یہ جعلی شادیاں ایک روایتی انڈین شادی کے ماحول کی نقل ہوتی ہیں جہاں گیندے کے پھولوں کی مالائیں، چمکدار ساڑھیاں اور لہنگے، بولی وڈ کے گانے سب موجود ہوتے ہیں لیکن بغیر کسی مذہبی رسم، خاندانی ڈرامے یا مالی دباؤ کے۔

جو سلسلہ اس سال کے آغاز میں دہلی میں ایک انوکھی کوشش کے طور پر شروع ہوا، وہ جلد ہی بنگلور، حیدرآباد اور دیگر شہروں تک پھیل گیا اور سال کے سب سے زیادہ زیر بحث سماجی رجحانات میں سے ایک بن گیا۔

انڈین شادی کے اثر کو سمجھنے کے لیے اس کے پیمانے کو سمجھنا ضروری ہے۔ اندازوں کے مطابق ملک میں ہر سال تقریباً ایک کروڑ شادیاں ہوتی ہیں، جن کے لیے خاندان برسوں تک پیسے جمع کرتے ہیں۔

2024  میں انویسٹمنٹ ایڈوائزری فرم ’رائٹ ریسرچ‘ نے انڈین ویڈنگ سروسز سیکٹر کی مالیت 75 ارب پاؤنڈ سے زائد بتائی جبکہ ’گرینڈ ویو ریسرچ‘ نے اندازہ لگایا کہ اگلی دہائی میں اس میں سالانہ 14 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوگا۔

انڈیا میں شادیاں عام طور پر تین سے سات دن تک جاری رہتی ہیں اور سینکڑوں یا ہزاروں مہمانوں پر مشتمل ہوتی ہیں۔

روایات خطے اور مذہب کے لحاظ سے شادیوں کی تقریبات مختلف ہیں مثلاً کنیا دان میں باپ علامتی طور پر بیٹی کو رخصت کرتا ہے، ست پدی میں جوڑا مقدس آگ کے گرد سات چکر لگا کر رشتہ پختہ کرتا ہے، ابٹن میں دولہا دلہن پر ہلدی لگائی جاتی ہے تاکہ انہیں پاکیزگی اور برکت حاصل ہو اور سنگیت میں شادی سے قبل موسیقی اور رقص کی تقریب منعقد کی جاتی ہے۔

سکھ شادیوں میں جوڑا مقدس گرنتھ صاحب کے گرد پھیرے لیتا ہے، جبکہ مسلمانوں میں نکاح کے ذریعے شادی کی جاتی ہے۔

ان روایتی رسوم کے ساتھ ساتھ، شادیاں اب ایک کاروبار بھی بن چکی ہیں جنہیں ترتیب دیے گئے رقص، تھیم پر مبنی سجاوٹ، مہنگے کھانوں اور مشہور شخصیات کی شرکت سے سجایا جاتا ہے۔

اس کی سب سے نمایاں مثال گذشتہ سال اننت امبانی، جو انڈیا کے امیر ترین شخص کے بیٹے ہیں، اور رادھیکا مرچنٹ کی شادی تھی۔

یہ تقریبات مارچ سے جولائی تک چلیں، جن میں ریانا، کیٹی پیری، پٹ بل اور آندریا بوچلی جیسے بین الاقوامی ستاروں نے پرفارم کیا۔ عالمی سیاست دانوں اور تفریحی دنیا کی شخصیات نے شرکت کی اور تقریب مختلف ممالک میں منعقد ہوئی۔

اس پر کروڑوں ڈالر خرچ ہوئے جس نے اسے دنیا کی سب سے مہنگی شادیوں میں سے ایک بنایا۔

عام انڈین کے لیے ایسی شان و شوکت ممکن نہیں، مگر امبانی کی شادی نے یہ دکھا دیا کہ اب شادی محض رشتہ نہیں بلکہ سماجی حیثیت، ثقافتی خواہش اور مالی نمائش کی علامت بن چکی ہے۔

تاہم، لوگوں کو شادیاں سب سے زیادہ جس وجہ سے یاد رہتی ہیں، وہ سادہ سی بات ہے یعنی رقص، بھیڑ، اور اجتماعی خوشی۔

اسی چمک دمک کے سائے میں جعلی شادیاں کم لاگت میں اسی جوش کو واپس لاتی ہیں۔

چار  سے 60 پاؤنڈ تک کے ٹکٹ پر کوئی بھی شخص اس جشن میں شامل ہو سکتا ہے وہ بھی بغیر کسی ذمہ داری کے۔

دہلی میں ’جمعہ کی رات‘ نامی ایونٹ آرگنائزرز نے فروری میں ایک جعلی سنگیت کا انعقاد کیا۔

اس کے کو فاؤنڈر صاحب گجرا ل کہتے ہیں کہ یہ خیال مذاق کے طور پر شروع ہوا تھا جب انہوں نے شادی کے سٹیج جیسی سجاوٹ کو ایک ایونٹ کے لیے آزمایا۔

وہ کہتے ہیں: ’آپ شادی کی طرح تیار ہوتے ہیں، شادی والے گانے پر ناچتے ہیں، شادی جیسی سجاوٹ کرتے ہیں، بس اتنا ہی۔‘

ان تقریبات میں کوئی فرضی رسم یا وعدہ نہیں ہوتا، صرف شادیوں کے وہ حصے ہوتے ہیں جن سے مہمان سب سے زیادہ لطف اندوز ہوتے ہیں۔

دہلی کی ایک تقریب میں لوگ ہنسی مذاق میں پوچھ رہے تھے کہ وہ ’دلہن کی طرف سے ہیں یا دولہے کی طرف سے‘، حالانکہ دونوں میں سے کوئی تھا ہی نہیں۔

اجنبی ایک دوسرے کے ساتھ خاندانی تصویریں بنواتے، رقص کرتے ہین اور آدھی رات تک منظر مزاحیہ نہیں بلکہ سچی خوشی کا لمحہ لگتا ہے۔

اب یہ رجحان صرف نوجوانوں تک محدود نہیں رہا۔ پیشہ ور نوجوان، طلبہ اور وہ بڑی عمر کے افراد بھی اس میں شامل ہوتے ہیں جو کرونا وبا کے دوران اپنی شادی منانے سے محروم رہ گئے تھے۔

ایک 21 سالہ نوجوان نے بتایا: ’یہاں ماحول کلب سے زیادہ دوستانہ تھا، لوگ صرف اپنے گروپس تک محدود نہیں رہتے بلکہ دوسروں کو بھی شامل کرتے ہیں۔‘

پوچا نامی خاتون، جنہوں نے دہلی میں دو روزہ جعلی شادی میں شرکت کی، نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ ان کے پاس ایک قیمتی لہنگا پڑا تھا جو وہ اسے کلب میں نہیں پہن سکتیں تھیں لیکن یہاں تو یہی ڈریس کوڈ ہے۔

کچھ لوگ ان تقریبات کو اپنی فلمی خواہشات پوری کرنے کا موقع سمجھتے ہیں۔

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

A post shared by Priyanka (@priyankachopra)


24 سالہ کرن دہلی میں اپنی گرل فرینڈ کے ساتھ ایک جعلی شادی میں شریک ہوئے۔ وہ دی انڈپینڈنٹ سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ ایسے ماحول میں بڑے ہوئے جہاں بالی وڈ فلموں میں شادیاں اکثر وہ جگہ ہوتی ہیں جہاں ہیرو ہیروئن گانے اور رقص کے ذریعے اپنی محبت کا اظہار کرتے ہیں۔

وہ ہنستے ہوئے کہتا ہے: ’تم مجھے شاہ رخ خان کو کاجول کے لیے مختلف شادیوں میں گاتے دکھاؤ گے اور پھر توقع کرو گے کہ میں خود ایسا نہ چاہوں؟ میں اپنی گرل فرینڈ کے ساتھ ‘دِلی والی گرل فرینڈ’ پر کب ناچوں؟ شاید صرف ایسی جعلی شادی میں کیونکہ اگر میں کزن نیہا کی شادی میں ایسا کہوں تو میرے والدین اسے قبول نہیں کریں گے۔‘

اس تصور کو اب نظرانداز طبقوں کے لیے بھی اپنایا جا رہا ہے۔

بنگلور اور حیدرآباد میں وِیبھو کمار مودی اور آشش چوپڑا نے ’شادی مبارک‘ کے نام سے ایک ہم جنس پرست رجحان رکھنے والی جعلی شادی کا انعقاد کیا۔

’بی یونک‘ نامی تنظیم کے بانی آشش چوپڑا کہتے ہیں: ’یہ میری اس شادی کی جھلک تھی جو میں انڈیا میں قانونی طور پر نہیں کر سکتا۔ یہ کسی جادو سے کم نہیں تھا۔‘

مہمانوں میں ڈریگ کوئینز، مختلف صنفوں کے جوڑے اور حمایتی شامل تھے جنہوں نے روایتی رسموں جیسے دودھ کے پیالے میں انگوٹھی تلاش کرنے میں حصہ لیا۔

’ڈارک وائب سوسائٹی‘ کے بانی وِیبھو کمار مودی کہتے ہیں کہ ’ہم بھی اتنے ہی انڈین ہیں جتنے باقی لوگ، اور شادیوں پر ہمارا بھی حق ہے۔‘

ان کی والدہ، جو کبھی کلب نہیں گئی تھیں، اس تقریب میں شامل ہوئیں اور خود کو بالکل آرام دہ محسوس کیا۔

ان کے بقول: ’یہ کسی ایونٹ جیسا نہیں لگا بلکہ ایسا لگا جیسے ہم گھر کی کسی تقریب میں آ گئے ہوں۔‘

ابھی تک ان جعلی شادیوں کو زیادہ مخالفت کا سامنا نہیں ہوا حالانکہ انڈیا میں عموماً ایسے غیر روایتی اقدامات تنقید کا نشانہ بنتے ہیں البتہ مغربی ریاست مہاراشٹر میں پولیس نے ایک جعلی شادی پر چھاپا مارا جہاں نابالغوں کو شراب پیتے پایا گیا اور منتظمین پر چائلڈ پروٹیکشن قوانین کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔

تنقید کرنے والے اسے سوشل میڈیا کے زور پر چلنے والا عارضی رجحان کہتے ہیں۔

جبکہ کچھ منتظمین کا خیال ہے کہ بڑے شہروں میں اس کی چمک ماند پڑ سکتی ہے مگر چھوٹے شہروں میں یہ طویل عرصے تک مقبول رہ سکتی ہے۔

وِیبھو کمار مودی کہتے ہیں: ’انڈیا میں شادی نمک کی طرح ہے جہاں ہر گھر میں یہ عام ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کے مطابق یہی مشترک فہم اس تصور کو بار بار نئے رنگ دینے کے قابل بناتی ہے۔

واضح ہے کہ جعلی شادیاں دو جذبات کو چھوتی ہیں یعنی چمک دمک، اجتماعیت اور خوشی کی خواہش اور مہنگی، تھکانے والی اور ججمنٹ سے بھری اصلی شادیوں سے بیزاری۔

یہ نوجوانوں کو موقع دیتی ہیں کہ وہ ملک کی سب سے دیرپا روایت کو اس کے بوجھ اور ذمہ داریوں کے بغیر جئیں۔

صاحب گجرا ل کا کہنا ہے کہ ’یہ دراصل اسی کا ردعمل ہے جو انڈین شادی انڈسٹری نے ہمیں برسوں بیچا جہاں اب شادیاں رسم سے زیادہ خرچ کا مقابلہ بن چکی ہیں۔ ہم نے بس اسے ایک قابل فروخت پراڈکٹ بنا دیا ہے۔‘

فی الحال گیندے کے پھول، ڈھول کی تھاپ اور چمکدار ساڑھیاں ان لوگوں کو اپنی طرف کھینچ رہی ہیں جو شادی کا مزہ تو چاہتے ہیں مگر دباؤ نہیں۔

ایک ایسے معاشرے میں جہاں شادی ایک مقدس فریضہ بھی ہے اور مالی نمائش بھی، بغیر ذمہ داری کے، گلاب کی پنکھڑیوں پر رات بھر ناچنے کا موقع، شاید یہی آج کا سب سے جدید ترین رسم شادی ہے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نئی نسل