امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعرات کو چینی صدر شی جن پنگ سے مذاکرات کو ’بڑی کامیابی‘ قرار دیا ہے، جن کے دوران فینٹانائل کی تجارت پر عائد محصولات میں کمی سے لے کر، سویا بین، نایاب دھاتوں اور یوکرین میں جنگ کے خاتمے کے لیے ممکنہ تعاون کے نکات پر بات کی گئی۔
ٹرمپ اور شی نے 2019 کے بعد پہلی بار جمعرات کو جنوبی کوریا کے شہر بوسان میں ملاقات کی، جسے دونوں ملکوں کے درمیان جاری تجارتی جنگ کی وجہ سے پوری دنیا میں دلچسپی سے دیکھا گیا۔
فینٹانائل
فینٹانائل کی تجارت طویل عرصے سے چین اور امریکہ کے تعلقات میں ایک حساس مسئلہ رہی ہے۔ واشنگٹن کا الزام ہے کہ بیجنگ اس نشہ آور دوا کی غیر قانونی تجارت پر آنکھیں بند کیے ہوئے ہے، جسے چین مسترد کرتا ہے۔
ٹرمپ نے فینٹانائل بنانے میں استعمال ہونے والے کیمیکلز کی برآمدات پر اعتراض کرتے ہوئے چینی درآمدات پر 20 فیصد ٹیکس عائد کر رکھا تھا، تاہم بوسان میں مذاکرات کے بعد انہوں نے اعلان کیا کہ ان محصولات کو کم کر کے 10 فیصد کیا جائے گا، جس سے چینی مصنوعات پر مجموعی امریکی ٹیکس 47 فیصد رہ جائے گا۔
ٹرمپ نے کہا کہ صدر شی نے وعدہ کیا ہے کہ وہ امریکہ میں پہنچنے والے اس طاقتور منشیات کے بہاؤ کو روکنے کے لیے بھرپور کوشش کریں گے، جس نے ہزاروں امریکیوں کی جانیں لے لی ہیں۔
انہوں نے ایئر فورس ون پر صحافیوں سے گفتگو میں کہا: ’میرا یقین ہے کہ وہ ان اموات کو روکنے کے لیے بہت محنت کریں گے جو اس منشیات کے باعث ہو رہی ہیں۔‘
سویا بین
چین نے فینٹانائل پر امریکی محصولات کے جواب میں امریکی زرعی مصنوعات بشمول سویابین پر جوابی ٹیکس عائد کیے تھے۔
اے ایف پی کے مطابق گذشتہ سال امریکہ کی سویابین برآمدات کا نصف سے زیادہ حصہ چین کو جاتا تھا، لیکن جیسے جیسے تجارتی تنازعہ بڑھتا گیا، بیجنگ نے تمام درآمدی آرڈر منسوخ کر دیے۔ ٹیکسوں کی اس جنگ سے امریکی کسان بری طرح متاثر ہوئے۔\
چینی صدر سے ملاقات کے بعد ٹرمپ نے کہا کہ اب چین نے ’سویابین سمیت دیگر زرعی مصنوعات کی بہت بڑی مقدار‘ خریدنے پر اتفاق کیا ہے۔
انہوں نے کہا: ’یہ ایک نہایت اچھا اقدام تھا۔‘
نایاب معدنیات
نایاب معدنیات ایک سٹریٹیجک شعبہ ہے جس پر چین کی اجارہ داری ہے اور جو دفاعی صنعت، گاڑیوں اور الیکٹرانکس مصنوعات کی تیاری کے لیے نہایت اہم ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بیجنگ نے رواں ماہ ان مواد اور متعلقہ ٹیکنالوجی پر وسیع برآمدی پابندیاں عائد کر دی تھیں، جس کے جواب میں ٹرمپ نے تمام چینی مصنوعات پر 100 فیصد جوابی محصولات کا اعلان کیا تھا، جو ہفتے کے روز نافذ ہونے والے تھے۔
تاہم آج امریکی صدر نے کہا: ’یہ پورا معاملہ، یہ رکاوٹ اب ختم ہو چکی ہے۔‘
انہوں نے کہا: ‘نایاب معدنیات پر کوئی رکاوٹ باقی نہیں رہی۔ امید ہے کہ یہ لفظ اب ہمارے لغت سے ہی غائب ہو جائے گا۔‘ تاہم انہوں نے مزید تفصیلات نہیں بتائیں۔
یوکرین جنگ
امریکہ اور چین نے مبینہ طور پر یوکرین میں جنگ کے خاتمے کے لیے باہمی تعاون بڑھانے پر بھی اتفاق کیا ہے۔
چین کا مؤقف ہے کہ وہ اس تنازع میں غیر جانبدار ہے، تاہم کیئف اور مغربی حکومتیں طویل عرصے سے بیجنگ پر ماسکو کو سیاسی اور معاشی حمایت فراہم کرنے کا الزام لگاتی آئی ہیں۔
ٹرمپ نے صحافیوں کو بتایا کہ صدر شی کے ساتھ بات چیت کے دوران یہ موضوع ’بہت شدت سے‘ زیرِ بحث آیا۔
انہوں نے کہا: ’وہ ہماری مدد کریں گے اور ہم یوکرین کے معاملے پر مل کر کام کریں گے۔‘
چپس
بیجنگ نے مصنوعی ذہانت کے نظاموں کو چلانے میں استعمال ہونے والے اس اہم جز پر واشنگٹن کی برآمدی پابندیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنی چِپ انڈسٹری کو تیزی سے وسعت دی ہے۔
امریکی چِپ ساز ادارہ این وِڈیا (Nvidia) اس جغرافیائی سیاسی کشمکش کے درمیان پھنس گیا ہے۔ این وِڈیا کی چِپس اس وقت چین میں فروخت نہیں ہوتیں، جس کی وجوہات میں بیجنگ حکومت کی پابندیاں، امریکی قومی سلامتی کے خدشات اور جاری تجارتی کشیدگی شامل ہیں۔
کمپنی کے سی ای او جینسن ہوانگ نے امریکہ پر زور دیا ہے کہ وہ امریکی ساختہ مصنوعی ذہانت کی چِپس چین کو فروخت کرنے کی اجازت دے تاکہ سلیکون ویلی کی کمپنیاں عالمی سطح پر اپنی برتری برقرار رکھ سکیں۔
صدر ٹرمپ نے صدر شی سے ملاقات کے بعد کہا: ’ہم نے چِپس کے مسئلے پر بھی بات کی۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ جینسن ہوانگ اس تنازع پر بیجنگ سے بات کریں گے۔ بقول ٹرمپ: ’ہم کسی حد تک ثالث یا ریفری کا کردار ادا کر رہے ہیں۔‘
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کے بعد چینی صدر شی جن پنگ نے کہا کہ چین اقتصادی اور تجارتی امور پر امریکہ کے ساتھ اتفاق رائے پر پہنچ گیا ہے۔
اے ایف پی نے چین کی سرکاری خبر رساں ایجنسی شنہوا کے حوالے سے کہا کہ صدر شی نے ٹرمپ کو بتایا کہ دونوں ممالک کو ’علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر مثبت بات چیت کرنی چاہیے۔‘
چینی صدر نے کہا کہ دونوں اطراف کی ٹیموں نے ’اہم اقتصادی اور تجارتی مسائل پر گہرائی سے خیالات کا تبادلہ کیا اور انہیں حل کرنے پر اتفاق رائے پایا۔‘
دوسری جانب ٹرمپ نے ایئر فورس ون پر سوار صحافیوں سے گفتگو میں چینی صدر کے ساتھ ملاقات کو ایک ’بڑی کامیابی‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ اپریل میں نئی بات چیت کے لیے چین جائیں گے۔
انہوں نے مزید کہا: ’میں اپریل میں چین جاؤں گا اور وہ اس کے بعد کچھ عرصے بعد وہ یہاں (امریکہ) آئیں گے، چاہے وہ فلوریڈا، پام بیچ یا واشنگٹن ڈی سی میں ہو۔‘
صدر ٹرمپ کا کہنا تھا: ’بہت سی چیزوں کو ہم حتمی شکل دینے کے لیے لائے۔‘