امریکہ اور چین کے درمیان اتوار کو تجارتی کشیدگی میں اس وقت ڈرامائی کمی کے آثار نظر آئے جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور چینی صدر شی جن پنگ کی آئندہ ملاقات سے پہلے دونوں فریقوں نے تجارتی معاہدے کا عندیہ دیا۔
ماہرین کے مطابق دنیا کی دو سب سے بڑی معیشتوں کے درمیان ایسا کوئی بھی معاہدہ بین الاقوامی منڈیوں کے لیے حوصلہ افزا ثابت ہو گا۔
حال ہی میں بیجنگ نے جدید ٹیکنالوجیز کے لیے درکار نایاب معدنیات کی برآمدات کو محدود کیا تھا جس کے جواب میں ٹرمپ نے چینی مصنوعات پر مزید محصولات عائد کرنے کی دھمکی دی تھی۔ اس بڑھتی ہوئی تجارتی کشمکش نے عالمی معاشی نمو کے لیے خطرہ پیدا کر دیا تھا۔
سی این این کے مطابق اتوار کو چین کے اعلیٰ تجارتی مذاکرات کار لی چنگ گانگ نے صحافیوں کو بتایا کہ دونوں فریق تجارتی معاہدے پر ’ابتدائی اتفاق رائے‘ تک پہنچ گئے ہیں جبکہ امریکی وزیر خزانہ سکاٹ بیسنٹ نے کہا کہ بیجنگ کے ساتھ ’ایک انتہائی کامیاب فریم ورک‘ تشکیل پا گیا ہے۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق ٹرمپ نے بھی اس حوالے سے اعتماد ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’چینی معاہدہ کرنا چاہتے ہیں اور ہم بھی ایسا ہی چاہتے ہیں۔‘
صدر ٹرمپ جمعرات کو جنوبی کوریا میں اپنے چینی ہم منصب شی جن پنگ سے ملاقات کریں گے جو ان کے ایشیائی دورے کا آخری مرحلہ ہے۔
صدر ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ وہ مستقبل میں چین کا دورہ کریں گے اور ممکن ہے کہ شی واشنگٹن یا فلوریڈا میں ان کی ذاتی رہائش گاہ کا دورہ کریں۔
بیسنٹ نے امریکی ٹی وی پروگرام ’فیس دا نیشن‘ میں کہا کہ چین پر مزید زیادہ محصولات عائد کرنے کا خطرہ عملی طور پر ختم ہو چکا ہے۔
ممکنہ معاہدے کی جانب پیش رفت جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی تنظیم (آسیان) کے سالانہ سربراہی اجلاس کے دوران ہوئی جو کوالالمپور میں منعقد ہوا۔ ٹرمپ اس موقع پر اپنی بین الاقوامی سودے بازی کی اپنی صلاحیت کو اجاگر کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔
لیکن ان کے سودے کرنے کا انداز ملکی اور غیر ملکی سطح پر خلل کا باعث بنتا رہا ہے۔ ان کے عائد کردہ درآمدی محصولات نے کئی ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات کو متاثر کیا ہے جبکہ امریکی حکومت کے شٹ ڈاؤن نے انہیں ڈیموکریٹس کے ساتھ تنازع میں مبتلا کر دیا ہے۔
تاہم ٹرمپ کے محصولات کی دھمکیوں کو انڈیا پاکستان اور تھائی لینڈ اور کمبوڈیا کے درمیان جنگ بندی کی راہ ہموار کرنے کا کریڈٹ دیا جا رہا ہے۔
انڈیا اور پاکستان کے درمیاں رواں سال مئی اور تھائی لینڈ اور کمبوڈیا کے درمیان حالیہ لڑائی جولائی میں پانچ دن جاری رہی تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس وقت ٹرمپ نے دھمکی دی تھی کہ اگر لڑائی نہ رکی تو تجارتی معاہدے روک دیے جائیں گے۔ اس کے بعد سے ایک غیر مستحکم جنگ بندی جاری ہے۔
ملائشی وزیرِاعظم انور ابراہیم نے اجلاس میں کہا یہ جنگ بندی معاہدے ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ مصالحت کمزوری نہیں بلکہ ہمت کا عمل ہے۔
ٹرمپ نے اجلاس کے دوران اعلان کیا کہ وہ کینیڈا پر محصولات بڑھائیں گے۔
اجلاس میں انڈین وزیر اعظم نریندر مودی شریک نہیں تھے۔
اگرچہ وہ ٹرمپ کے پہلے دور میں ان کے قریبی اتحادی تھے لیکن اب تعلقات میں تناؤ آ گیا ہے۔ ٹرمپ نے درجنوں بار انڈیا اور پاکستان کے درمیان حالیہ تنازع حل کرنے کا دعویٰ کرنے کے ساتھ ساتھ انڈیا پر روسی تیل خریدنے کی وجہ سے محصولات میں اضافہ بھی کیا ہے۔