پاکستان نے تجویز دی ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے موجودہ مستقل ارکان کے ویٹو کے حق کو ختم یا کم ازکم اس کے استعمال کے دائرے کو سختی کے ساتھ محدود کر دیا جائے نیز اس کونسل کے مستقل ارکان کی تعداد میں بالکل اضافہ نہیں ہونا چاہیے۔
اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب عاصم افتخار نے جمعرات کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ویٹو کے حق پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ ویٹو پر بحث، جو ہم میں سے بہت سے لوگوں کو مصروف رکھتی ہے، کچھ حقائق سامنے لائی ہے۔ بنیادی مرکزی مسائل میں سے ایک ویٹو کی منفی طاقت ہے یعنی روکنے کی طاقت۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کا خیال ہے کہ اس توازن کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ ایک طرف ویٹو کے استعمال پر پابندیاں لگا کر اور دوسری طرف کونسل میں منتخب ارکان کی تعداد اور کردار کو بڑھا کر، تاکہ کونسل میں زیادہ نمائندگی کے ذریعے فیصلوں کی منظوری کے لیے حد نصاب بدل جائے۔ اس طرح کونسل زیادہ جمہوری بن جائے گی اور مستقل ارکان کے ویٹو کے استعمال پر مؤثر کنٹرول قائم ہو گا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اس وقت سلامتی کونسل کے پانچ مستقل اور 10 غیر مستقل ارکان ہیں یہ ایک اور دو کا تناسب ہے۔ اگر منتخب ارکان کی تعداد 20 کر دی جائے تو ایک چار کا تناسب ہو جائے گا۔ اس طرح کونسل میں طاقت کا توازن جمہوری انداز میں نمایاں طور پر تبدیل ہو جائے گا اور منظوری یا روکنے کی طاقت اکثریت کے ہاتھ میں ہو گی۔‘
پاکستانی مندوب نے مزید کہا کہ ویٹو کے مسئلے کا حتمی حل سکیورٹی کونسل میں اصلاحات کا لازمی حصہ ہونا چاہیے۔ ویٹو کا سوال پانچ باہمی مربوط شعبوں میں سے ایک ہے، جو بین الحکومتی مذاکرات میں سکیورٹی کونسل کی اصلاح کے لیے زیر غور ہیں۔ اور ان تمام پانچ شعبوں کے فیصلے ایک جامع اصلاح کے تحت ساتھ ساتھ اپنائے جانے ہوں گے۔
پاکستان مندوب نے کہا: ’جنرل اسمبلی کا آفاقی کردار اور اس کا جمہوری طریقہ کار اسے اقوام متحدہ کے کسی بھی دوسرے ادارے کے مقابلے میں ایک منفرد سطح کی جائز حیثیت اور اعتبار دیتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’جنرل اسمبلی نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ وہ بحرانوں کا بروقت اور مؤثر فیصلہ سازی کے ذریعے جواب دے سکتی ہے، خاص طور پر جب سکیورٹی کونسل بین الاقوامی امن اور سکیورٹی کے معاملات پر، ویٹو کے استعمال سمیت، کارروائی کرنے سے قاصر یا تیار نہ ہو۔‘
انہوں نے اسی حوالے سے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ سکیورٹی کونسل، جسے بین الاقوامی امن و سکیورٹی کے تحفظ کی بنیادی ذمہ داری سونپی گئی ہے، اکثر تنگ نظری والے مفادات کے تعاقب اور اس کے مستقل اراکین کے درمیان اسٹریٹجک مخافت کی وجہ سے مفلوج یا غیر فعال ہو جاتی ہے، جو ویٹو کے غلط یا ناجائز استعمال کا سبب بنتی ہیں۔
انہوں نے کہا: ’جیسا کہ ہم جانتے ہیں، سلامتی کونسل کے موجودہ مستقل ارکان متحد ہیں اور اقوام متحدہ کے منشور میں کسی بھی ایسی تبدیلی کی مخالفت کرتے ہیں جو مستقل رکن کی حیثیت سے ان کے اختیارات یا مراعات کو کم کرے۔
’اوراسی وجہ سے پاکستان، یونائٹنگ فار کنسس گروپ (یو ایف سی)
گروپ کے ساتھ مل کر اصولی طور پر توسیع یافتہ سکیورٹی کونسل میں کسی بھی نئے مستقل رکن کے اضافے کے خلاف ہے۔‘
Statement by Ambassador Asim Iftikhar Ahmad
Permanent Representative of Pakistan to the UN
During the Debate in the General Assembly on the ‘Right to Veto’
(20 November 2025)
****
President,
At the outset, I would like to thank you, for convening this important meeting of the… pic.twitter.com/igGFIXgt9k
— Permanent Mission of Pakistan to the UN (@PakistanUN_NY) November 21, 2025
انہوں نے کہا کہ یہ صورت حال کونسل کو اپنی ذمہ داریاں انجام دینے سے روکتی ہے۔ ’ہم ویٹو کے اس ’کاسکیڈنگ ایفیکٹ‘ سے بھی واقف ہیں جو مستقل ارکان کو اقوام متحدہ کے پورے میں ایسا مقام اور اثرورسوخ فراہم کرتا ہے جس کی مثال نہیں ملتی۔
’لہٰذا یہ حیرت کی بات نہیں، اور گذشتہ اور حالیہ تجربات نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ویٹو کی منسوخی یا اس کے استعمال پر قدغن سکیورٹی کونسل کی اصلاحات کا لازمی حصہ ہوگی۔‘