ٹرمپ کے مواخذے کی تحقیقات: وائٹ ہاوس کا تعاون سے انکار

تحقیقات کو ’غیر آئینی‘ قرار دیتے ہوئے وائٹ ہاوس نے ایک خط میں منحرف ڈیموکریٹک رہنماؤں پر الزام لگایا ہے کہ ان کے اقدام امریکی قانون کی خلاف ورزی اور شہری آزادی کے خلاف ہیں۔

صدر ٹرمپ نے ایک ٹویٹ میں کہا:’میں گواہی دینے کے لیے ایمبیسڈر سونڈ لینڈ، جو واقعتاً ایک اچھے انسان اور عظیم امریکی ہیں، کو بھیجنا پسند کروں گا لیکن بدقسمتی سے وہ ایک متنازع کینگرو کورٹ کے سامنے گواہی دے رہے ہوں گے جہاں ریپبلکن کے حقوق چھین لیے گئے ہیں۔‘(اے ایف پی)

وائٹ ہاوس نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مواخذے کے لیے جاری تحقیقات میں تعاون کرنے سے انکار کر دیا ہے۔

ان تحقیقات کو ’غیر آئینی‘ قرار دیتے ہوئے وائٹ ہاوس نے آٹھ صفحات پر مشتمل ایک خط میں منحرف ڈیموکریٹک رہنماؤں پر الزام لگایا ہے کہ ان کے اقدام امریکی قانون کی خلاف ورزی اور شہری آزادی کے خلاف ہیں۔

خط میں کہا گیا کہ ڈیموکریٹس 2016 کے انتخابات کے نتائج کو الٹنا چاہتے ہیں اور آئندہ برس ہونے والے صدارتی انتخابات کے نتائج پر بھی ’اثر انداز‘ ہونا چاہتے ہیں۔

وائٹ ہاوس کے قانونی مشیر پیٹ سپولونی کے دستخط سے جاری ہونے والے اس خط میں مزید کہا گیا ہے کہ وائٹ ہاوس ان تحقیقات میں اس وقت تک تعاون نہیں کرے گا جب تک امریکی ایوان نمائندگان ووٹنگ کے ذریعے صدر ٹرمپ کے خلاف مواخذے کے لیے تحقیقات کی باضابطہ منظوری نہیں دیتا۔

اس خط میں خارجہ امور، انٹیلی جنس اور اوور سائٹ اینڈ ریفارمز کمیٹیوں کے ڈیموکریٹک رہنماؤں کے ساتھ ساتھ ایوان کی سپیکر نینسی پیلوسی کو بھی مخاطب کیا گیا ہے جنہوں نے حال ہی میں حکومت میں شامل مخبروں کے ان الزامات کے بعد صدر ٹرمپ کے خلاف مواخذے کے لیے تحقیقات کی منظوری دی تھی جن میں دعویٰ گیا تھا کہ صدر نے اپنے سیاسی مخالف جو بائڈن کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے اپنے یوکرائنی ہم منصف کو دھمکی دی تھی۔

پیلوسی نے بار بار اصرار کیا ہے کہ انہوں نے جس اقدام کا آغاز کیا وہ آئینی ہے اور اس کے لیے ایوان میں ووٹنگ کرانا فی الحال ضروری نہیں ہے۔

تاہم وائٹ ہاؤس نے کا دعویٰ ہے کہ امریکی تاریخ میں ایسے دیگر تین مواقع پر یعنی صدر اینڈریو جانسن، صدر رچرڈ نیکسن اور صدر بل کلنٹن کے خلاف مواخذوں کی تحقیقات کے لیے ایوان سے منظوری لی گئی تھی۔

خط میں کہا گیا ہے کہ یہ صدر ٹرمپ کے مواخذے کے لیے ایسی نظیر قائم کرے گا جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ اس خط میں مزید کہا گیا ہے کہ صدر کو بنیادی حقوق سے محروم کیا جا رہا ہے جس میں گواہوں سے جرح کرنا، شاہدین کو گواہی کے لیے طلب کرنا، گواہی کی تحریر حاصل کرنا اور ثبوتوں تک رسائی حاصل کرنا شامل ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

خط میں لکھا ہے: ’یہ سب آئین اور قانون کی حکمرانی کے خلاف ہیں اور ان کی ماضی میں کوئی نظیر بھی موجود نہیں ہے۔‘

اس میں مزید کہا گیا کہ امریکی سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ کانگریس کی تمام تحقیقات پربطريقِ قانونی تحفظات کےعمل کا اطلاق ہوتا ہے۔

خط جاری ہونے کے بعد ٹرمپ انتظامیہ کے ایک سینئیر عہدیدار نے اس دلیل کی حمایت میں بات کی۔

ان کا کہنا تھا: ’ہماری قوم کی تاریخ میں ایوان کی منظوری کے بغیر (مواخذے کی کارروائی پر) عمل کرنا غیر معمولی ہے۔ اس سے قبل کسی بھی صدارتی مواخذے کی تحقیقات سے پہلے ایوان کی منظوری لی گئی تھی۔‘

اس خط کی تفصیلات اس وقت سامنے آئی ہیں جب وائٹ ہاؤس کی جانب سے ایک گواہ کو کانگریس میں شہادت دینے سے روکا گیا ہے۔

یورپی یونین میں امریکی سفیر گورڈن سونڈ لینڈ نے وائٹ ہاوس سے ملنے والے اس حکم کے بعد کانگریس میں شہادت نہیں پیش کی۔

ان کے وکیل نے کانگریس کو بتایا کہ ’حاضر سروس سفیر اور ریاست کا ملازم ہونے کے طور پر‘ سونڈ لینڈ کے پاس وائٹ ہاوس کی جانب سے جاری ہدایات کی پیروی کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔

بعد ازاں صدر ٹرمپ نے ایک ٹویٹ میں ان کی تعریف کرتے ہوئے کہا: ’میں گواہی دینے کے لیے ایمبیسڈر سونڈ لینڈ، جو واقعتاً ایک اچھے انسان اور عظیم امریکی ہیں، کو بھیجنا پسند کروں گا لیکن بدقسمتی سے وہ ایک متنازع کینگرو کورٹ کے سامنے گواہی دے رہے ہوں گے جہاں ریپبلکن کے حقوق چھین لیے گئے ہیں۔‘

ایوان کی انٹیلی جنس کمیٹی کے ڈیموکریٹک چیئرمیں ایڈم شف نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ سونڈ لینڈ کا پیش نہ ہونا ’کانگریس، جو حکومت کی مساوی شاخ ہے، کے آئینی فرائض میں رکاوٹ ڈالنے کا ٹھوس ثبوت ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’امریکی عوام کو یہ جاننے کا حق ہے کہ کیا ان کے صدر ملکی سلامتی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے قوم کے مفادات کے لیے کام کر رہے ہیں یا اپنے ذاتی اور سیاسی مفادات کے لیے۔ گواہ کو روکنے اور ان دستاویزات کو حاصل کرنے میں رکاوٹ ڈال کر صدر اور سکریٹری آف سٹیٹ ایسے اقدامات کر رہے ہیں جو ہمیں ملک کی سلامتی کے تحفظ کے لیے درکار حقائق حاصل کرنے سے روکتے ہیں۔‘

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ