کرد کون ہیں اور ہر کوئی ان کے خلاف کیوں ہے؟

نصف درجن ملکوں میں بکھرے ہوئے کرد صدیوں سے اپنی خودمختاری کی جنگ لڑ رہے ہیں جس کا کوئی خاتمہ نظر نہیں آتا۔

عراقی کردش پیشمرگہ کی ایک خاتون فائٹر (اے ایف پی)

ترکی نے شام کے سرحدی علاقوں میں فضائی کاروائی کے بعد انفینٹری بھیج کر زمینی کاروائی کا بھی آغاز کر دیا ہے۔

ترکی افواج کی اس پیش قدمی پر امریکی صدر نے تشویش کا اظہار کیا ہے اور الزام عائد کیا ہے کہ ترکی افواج نے کردوں پہ مشتمل شہری آبادی کو نشانہ بنایا ہے، جبکہ ترک صدر طیب اردوغان کا کہنا ہے کہ وہ ترکی کی سالمیت کے لیے سرحدی علاقوں سے دہشت گردوں کا صفایا کر رہے ہیں۔

کل تک یہ کرد دنیا کی سب خطرناک دہشت گرد تنظیم داعش کے خلاف برسرپیکار تھے اور انہوں نے امریکی مدد سے شام سے داعش کا صفایا کیا۔آج وہ ترکی افواج کے ہاتھوں مارے جا رہے ہیں۔ 

کرد کون ہیں؟ صرف ترکی ہی نہیں عراق اور ایران بھی ان کردوں کو دشمن اور دہشت گرد کیوں سمجھتے ہیں؟ کردوں کی جنگ کا پس منظر کیا ہے؟ اور کردستان کون سا ملک ہے؟

یہ وہ سوالات ہیں جو عام پاکستانی کے دماغ میں ہیں۔ آج ہم انہیں سوالات کے جوابات ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔

کرد کون ہیں؟

کردوں کا شمار آریائی قوم کی ہند یورپی نسل سے ہوتا ہے، جو مشرق وسطیٰ کے مختلف ملکوں میں آباد ہے۔ اسی وجہ سے کردوں کی صحیح تعداد معلوم کرنا مشکل کام ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ان کی تعداد ساڑھے تین کروڑ سے ساڑھے چار کروڑ کے قریب ہے۔

کرد قوم کا ایک بڑا حصہ عراق، ایران، ترکی، شام اور سابق سوویت یونین کے بعض ملکوں میں آباد ہے۔ جبکہ لبنان، یمن، پاکستان، جرمنی، سوئٹذر لینڈ اور امریکہ میں کرد اقلیت کی صورت میں رہتے ہیں۔ مشرق وسطیٰ اور ایشیائے کوچک میں یہ عرب اور ترک کے بعد تیسری بڑی قوم ہیں، مختلف ملکوں میں بٹے تین کروڑ 75 لاکھ کردوں کی اکثریت ترکی،عراق، شام اور ایران کے علاقوں میں آباد ہیں۔

اس کے علاوہ پوری دنیا میں پھیلے ہوئے کردوں کی آبادی ایک کروڑ ہے۔ کرد قوم ترکی میں کل آبادی کا تقریباً 46 فیصد، ایران میں 31 فیصد، عراق میں 18 فیصد جبکہ آرمینیا اور شام میں پانچ فیصد بنتی ہے۔

کرد ساتویں صدی میں مشرف بہ اسلام ہوئے تھے، لیکن سارے کرد مسلمان نہیں ہیں، ان میں یزدانی اور یزیدی عقائد کے کئی فرقے موجود ہیں۔ البتہ ان کی غالب اکثریت سنی شافعی عقیدے سے تعلق رکھتی ہے۔

ترکی کے مشرقی علاقے کوہ ارارات میں حضرت نوح علیہ اسلام کی کشتی اور اور ان کی دس گز لمبی قبر کے نشان کی وجہ سے کرد باشندوں کا تعلق حضرت نوح علیہ سلام کی اولاد سے بتایا جاتا ہے۔

کیا کردستان نامی کوئی ریاست کبھی رہی ہے؟

کردستان جو کردوں کا مادر وطن ہے ہرگز ایک مستقل ریاست نہیں رہا ہے، جس کی متعین سیاسی سرحدیں ہوں۔ ’کردستان‘ کا لفظ پہلی دفعہ 19ویں صدی میں وجود میں آیا جب سلجوقی خاندان حکمرانی کر رہا تھا۔ سلجوقی بادشاہ نے خطے کا مغربی حصہ الگ کر کے اس کا نام کردستان رکھا اور اپنے قریبی دوست سلیمان شاہ کو اس کا حاکم بنا دیا۔

بنیادی طور پر کردستان تین ملکوں میں بٹ چکا ہے۔ عراق، ایران اور ترکی کے علاوہ اس کا ایک چھوٹا حصہ شام میں واقع ہے۔ ترکی کے 90 میں سے 19 صوبے کرد آبادی کے ہیں جو ترکی کے جنوب مشرق اور مشرقی حصے میں واقع ہیں۔

اس کے علاوہ کردوں کی قابل ذکر تعداد بعض دیگر ملکوں مثلاً آذربائیجان، آرمینیا اور افغانستان میں رہتی ہے، جبکہ چند کرد پاکستان میں بھی آباد ہیں۔

کرد چاہے دنیا کے کسی بھی ملک میں ہوں وہ اپنا وطن کردستان کو ہی مانتے ہیں۔ اگر جغرافیائی طور پر کردوں کے علاقے کا نقشہ پیش کیا جائے تو اس نقشے کی شمالی سرحدیں ارارات پہاڑیوں سے شروع ہوتی ہیں جو ایران، آرمینیا اور ترکی کی سرحدوں سے لگتی ہیں۔ جنوب میں حمرین کا پہاڑی علاقہ آتا ہے جو بغداد و بصرہ اور عثمانی موصل کے درمیان واقع ہے۔ جبکہ کرد خطے کی مشرقی سرحد ایران کے علاقے لرستان کے آخر تک پھیلی ہوئی ہیں۔ مغرب میں ترکی کا صوبہ ملاطیہ آتا ہے۔

کردستان کا کل رقبہ تقریباً پانچ لاکھ مربع کلومیٹر ہے۔ یہ پاکستانی صوبوں بلوچستان اور سندھ کے مشترکہ رقبے کے برابر ہے۔ یہ خطہ پہاڑی سلسلوں پر مشتمل ہے جس کی زمین زراعت کے قابل ہے جہاں متعدد نہریں زمین اور اس پر رہنے والوں کو سیراب کرتی ہیں۔ متعدد چشموں، قنات اور نہروں کے علاوہ اس سرزمین نے اپنے اندر بیش بہا معدنیات، تیل و دیگر خزانے چھپا رکھے ہیں۔

کردستان خوبصورت آبشاروں کی وجہ سے بھی مشہور ہے جن کی وجہ سے یہاں زراعت کو کافی ترقی ملتی رہتی ہے۔ کردستان معدنیات سے مالامال خطہ ہے خاص کر یہاں تیل کی دولت کی فراوانی ہے۔

صلاح الدین ایوبی بھی کرد تھے

تاریخ میں کرد بہادر اور جنگجو قبیلے کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ کردوں نے ماضی میں نہ صرف جنگیں لڑیں بلکہ حکومتیں بھی قائم کیں۔ کردوں کی یہ حکومتیں عباسی اور عثمانی خلافت کی ذیلی ولایات تھیں۔

کرد قوم کے عظیم سپہ سالار اور ایوبی سلطنت کے بانی سلطان صلاح الدین ایوبی کی سلطنت کے زیرنگین بلاد شام، موصل، ترکی کے مشرقی علاقے، یمن، مصر، لیبیا، و دیگر خطے تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایران میں کردوں کے خلاف کارروائیوں کا سلسلہ 17ویں صدی سے شروع ہوا تھا جب شاہ عباس نے کردوں کو بڑے پیمانے پر زبردستی خراسان سے جلا وطن کر دیا تھا۔ پھر 1946 میں قاضی محمد کی قیادت میں بغاوت ہوئی اور کردوں نے ’مہا آباد جمہوریہ‘ کے نام سے پہلی کرد مملکت قائم کی جو جلد ہی زمین بوس ہو گئی اور اس کے بانی قاضی محمد کو کھلے عام پھانسی دے دی گئی۔

کردوں کے خلاف کریک ڈاؤن 

رضا شاہ پہلوی دور میں ایران میں کردی زبان بولنے پر پابندی عائد کر دی گئی اور 1979 میں آیت اللہ خمینی نے کردوں کے خلاف جہاد کا اعلان کرتے ہوئے کردوں کی کارروائیوں کو مکمل طور پر کچل دیا۔

اسی طرح 1960سے 1975 تک شمالی عراق میں کردوں نے مصطفیٰ برزانی (مسعود برزانی کے والد) کی قیادت میں اپنی جدوجہد کے نتیجے میں خود مختاری حاصل کی لیکن 1991 میں صدر صدام حسین نے اس علاقے پر اپنی مکمل حاکمیت قائم کرتے ہوئے کردوں پر ایسے ظلم ڈھائے جس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔

اس دوران عراق اور ایران کے درمیان جنگ چھڑ گئی لیکن کردوں کے خلاف کارروائی جاری رہی اور جنگ کے خاتمے پر عراقی حکومت نے 1988 میں کردوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے مبینہ طور پر ان کے خلاف زہریلی گیس کا استعمال کیا جس کے نتیجے میں ہزاروں کی تعداد میں کرد مارے گئے۔

آزادی کی طویل جدوجہد

دوسری صلیبی جنگ کے عظیم فاتح حکمران صلاح الدین ایوبی (جن کا تعلق صدام حسین کے آبائی شہر تکریت سے تھا) نے 12ہویں صدی میں تیونس سے لے کر بحیرہ کسپئین کے ساحل تک وسیع مملکت قائم کر رکھی تھی۔ ان کے بعد کسی بھی کرد رہنما کو کردوں کے لیے اپنی آزاد مملکت قائم کرنے کا موقع ہی نہ مل سکا۔

1915 اور 1918 میں ترکی کے کردوں نے سلطنت عثمانیہ سے آزادی حاصل کرنے کی کوشیش کی لیکن ہر بار انہیں کچل دیا گیا۔

پہلی عالمی جنگ کے بعد جب سلطنت عثمانیہ کا خاتمہ ہوا تو اس زمانہ کے امریکی صدر وڈرو ولسن نے کردوں سے ان کی آزاد مملکت کے قیام کا وعدہ کیا اور 1920 کے معاہدہ سیور میں ایک آزاد کرد مملکت کی تجویز بھی شامل کر لی گئی لیکن برطانیہ، فرانس اور ترکی نے اس تجویز کو ناکام بنا دیا۔

سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد مشرق وسطیٰ میں کئی نئی آزاد مملکتیں وجود میں آئیں لیکن آزاد خودمختار مملکت کے بارے میں کردوں کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا۔

ترکی کی جنگ نجات کے دوران مصطفیٰ ٰکمال اتاترک نے کردوں کے ساتھ مل کر اپنی آزادی کی جدوجہد کو جاری رکھا اور کردوں کا اعتماد بھی حاصل کر لیا لیکن جدید جمہوریہ ترکی کے قیام کے بعد 1925 میں شیخ سعید کی قیادت میں کردوں نے بغاوت کھڑی کر دی لیکن ترکی کی حکومت نے سختی سے اس بغاوت کو کچل دیا۔

اس کے بعد 1937 میں بھی کردوں نے تُنجے لی میں شورش برپا کر دی جسے شدید بمباری سے دبا دیا گیا اور اُس وقت سے کردوں کے خلاف سخت پالیسی اختیار کی گئی اور ان کے تشخص کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی اور انہیں ’پہاڑی ترک‘ قرار دے کر ترک معاشرے میں ضم کرنے کی کوشش بھی کی گئی لیکن کردوں نے اپنے تشخص کو قائم رکھا۔

داعش کے خلاف کردوں کی بھاری قربانیاں

1990 کی دہائی میں ابھرنے والی شدت پسند تنظیم القاعدہ نے اسلامی دنیا اور خلیج کا مستقبل خطرے میں ڈال دیا تھا۔ نائن الیون کے بعد کئی مسلم ممالک خانہ جنگی کا شکار ہوئے اور القاعدہ کا زور ٹوٹا۔ القاعدہ کی جگہ لینے کے لیے داعش نامی تنظیم ابھری۔

داعش نے عراق پر حملہ کیا۔ عراقی حکومت نے مزاحمت کی کوشش کی مگر ناکام ٹھہرے۔ کرد علاقوں سمیت عراق کے کچھ حصوں پر داعش قابض ہو گئی۔ جب پوری دنیا پہ داعش کی دہشت سوار تھی تب انہی کردوں نے امریکی امداد سے داعش کے خلاف لڑائی کا آغاز کیا اور خونریز جنگوں کے سلسلے کے بعد تمام علاقہ واگزار کرا لیا۔

ایک اندازے کے مطابق داعش کے خلاف جنگوں میں کردوں کے 11 ہزار سے زیادہ جنگجو مارے گئے۔

عراقی کرد علاقے کو ایک صوبہ بنایا گیا، جہاں کردوں کی صوبائی حکومت بنی۔ بعد ازاں اس کو عراق کے اندر ایک خودمختار ریاست (مگر آزاد نہیں) کا درجہ دیا گیا۔

کچھ عرصہ بعد کردوں نے آزادی کے لیے ریفرنڈم کرایا جس میں 90 فیصد سے زیادہ لوگوں نے ایک آزاد ملک کے حق میں ووٹ ڈالے۔ اس ریفرنڈم کو ترکی، ایران اور شام سمیت عراقی حکومت سبھی نے اپنے لیے خطرہ جانا کیونکہ ان کا خیال ہے کہ اگر کردوں کی کوئی الگ ایک ریاست قائم ہو گئی تو ان ممالک کے کرد بھی اسی ریاست میں شامل ہونا چاہیں گے۔

داعش سے اس لڑائی کے دوران لاکھوں کی تعداد میں شامی بے گھر ہوئے تھے جو ترکی سمیت مختلف ممالک میں پناہ گزین ہیں۔ کرد جنگجووں نے داعش کے تمام ٹھکانے ختم کر دیے اور اب بھی کرد ان جیلوں کی حفاظت کرتے ہیں جہاں داعش کے جنگجو اور ان کے خاندان کے افراد قید ہیں۔

رواں برس کے آغاز میں جب امریکہ نے اپنے فوجی دستوں کو واپس بلانے کا اعلان کیا تو ترکی نے شامی سرحدی علاقے پہ قبضہ کرنے کے ارادے کا اظہار کیا۔

ترکی ان کرد جنگجووں (وائی پی جی) کو کردستان ورکرز پارٹی کی ایک شاخ سمجھتا ہے جس نے پچھلی تین دہائیوں سے ترکی میں کردوں کی خود مختاری کے حوالے سے آواز اٹھائی ہے۔ ترکی نے کردستان ورکرز پارٹی کو دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے۔

ترکی سرحدی پٹی کے گرد 32 کلومیٹر تک ایک محفوظ علاقہ بنانا چاہتا ہے جہاں وہ 20 لاکھ شامی پناہ گزینوں کو بسانے کی خواہش رکھتا ہے۔

کرد جنگجو (وائی پی جی) ترکی کے ان الزامات کی تردید کرتے ہیں کہ وہ کالعدم کردستان ورکر پارٹی کی کوئی شاخ ہیں۔

رواں برس اگست میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ان کردوں کو سرحدی پٹی خالی کرنے کے لیے بھی راضی کر لیا تھا۔ کردوں نے نہ صرف وہ علاقہ خالی کیا بلکہ خود وہاں بنے مورچے و دیگر تعمیرات بھی توڑ ڈالی تھیں۔ مگر دو ماہ بعد اچانک ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ کہہ کر اپنی فوجیں واپس بلانے کا اعلان کر دیا کہ ترکی یہ محفوظ علاقہ خود بنائے۔ ٹرمپ کے اِس فیصلے کو جہاں کردوں نے ’پیٹھ میں چھرا گھونپنے‘ کے مترادف قرار دیا، وہیں صدر ٹرمپ کے ریپبلیکن اتحادیوں نے بھی نکتہ چینی کی ہے۔

اب خود کو عالم اسلام کا چیمپیئن کہلوانے والے ترکی نے انہی کرد مسلمانوں کے خلاف ایک بہت بڑا حملہ شروع کیا ہے۔ ترکی کے حالیہ حملے ایک طرف کردوں کی نسل کشی اور بڑی تعداد میں اموات و دربدری کا سبب بنیں گے تو دوسری طرف وہ یورپی داعش کمانڈر آزاد ہونے کا خدشہ ہے جنہیں ان کے ممالک نے واپس لینے سے انکار کر دیا تھا اور جو کردوں کی حفاظتی تحویل میں تھے۔

ان خطرناک کمانڈروں کی رہائی خطے میں داعش کے دوبارہ سر اٹھانے کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے۔

 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا