امریکہ کا قومی کھیل بیس بال ضلع خیبر میں کیسے؟

کرکٹ کے جنونیوں کے درمیان خیبر پختونخوا کے ضلع خیبر کے دو دوستوں نے بیس بال ٹیم کا حصہ بننے کا فیصلہ کیا اور اب وہاں ایک تربیتی اکیڈمی چلا رہے ہیں۔

پاکستان کے پہاڑوں سے لے کر میدانوں تک کرکٹ ایک ایسا کھیل ہے جس پر دفاتر، کالجز، حجروں، تھڑوں اور گھروں سمیت ہر فورم پر گفتگو ہوتی ہے۔ جب ٹیم کی کارکردگی بری ہوتی ہے تو خواتین سے لے کر بزرگ تک ثقلین مشتاق سے بہترین ’دوسرا بال‘ کر سکتے ہیں اور یونس خان سے اچھے ’سویپ‘ شارٹس کھیلنے کے ماہر ہوتے ہیں۔

شاہد آفریدی اور وہاب ریاض اور موجودہ ٹیم میں شہنشاہ عثمان شنواری کے بعد خیبر ضلع میں کرکٹ کا جنون سر چڑھ کر بولتا ہے۔ مگر کرکٹ کے ان جنونیوں کے درمیان جمرود تحصیل کے گاؤں غنڈی کے دو دوستوں سید امین آفریدی اور طارق حیات نے کالج میں کرکٹ کھیلنے کی بجائے بیس بال ٹیم کا حصہ بننے کا انتخاب کیا۔

خیبر کے خشک پہاڑوں اور گرد آلود پتھریلی زمین پر بیس بال شروع کرنا ناممکنات میں تھا۔ مگرامین اور طارق نے نہ صرف بیس بال کھیل سیکھ لیا بلکہ ملکی سطح پر نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ بھی پیش کیا۔ 2014 میں نوجوانوں نے اپنی مدد آپ کے تحت بیس بال اکیڈمی کا اغاز کردیا۔ تاہم جس طرح ایک نئے کھیل کو متعارف کرنے میں دشواری کا سامنا ہوتا ہے، اسی طرح امریکہ کا قومی کھیل بیس بال بھی پاکستانی سائیڈ پر افغانستان کے قریب ترین گاؤں میں شروع کرنا بھی کسی چیلنج سے کم نہ تھا۔

یوں تو امریکہ کا قومی کھیل بیس بال پاکستان میں غیر مقبول ہے لیکن وسائل کی کمی کے باوجود بیس بال جمرود میں خاصہ مقبول بن چکا ہے۔ سوال یہی پیدا ہوتا ہے کہ ہزاروں میل دورامریکہ کا مقبول ترین کھیل غنڈی گاؤں میں کیسے معروف بن گیا ہے ؟

راہ گزرتے تقریباً 60 سال کے بزرگ سے جب بیس بال اکیڈمی کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ ’ڈبوزانے‘ یعنی ڈنڈا کھیل گاؤں کی دوسری طرف کھیلا جاتا ہے۔

بیس بال کو خیبر میں متعارف کرانے والے نوجوانوں کو بہت سے جتن کرنے پڑے ہیں۔ طارق حیات نے انڈیپنڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے سید امین آفریدی سے بیس بال سیکھی جس کے بعد ان دونوں نے علاقے میں اس کھیل کے فروغ کے لیے جمرود تحصیل کے غنڈی گاؤں میں اکیڈمی کھولنے کا فیصلہ کیا۔

انہوں نے بتایا: ’شروع میں نوجوانوں کو اس کھیل کے بارے میں معلومات تھی نہ کھیلنے کی خواہش۔  ہم اپنے دوستوں کے حجروں میں جاکر بیس بال سیکھنے اور کھیلنے کے لیے لوگوں کو بلاتے تھے لیکن کوئی تیار ہی نہیں تھا۔ پھر ہم نے ایک دوسرے کے ساتھ بیس بال پریکٹس کا آغاز کیا تو نوجوان دیکھنے آنا شروع ہوئے۔‘

طارق حیات نے بتایا: ’ہم اپنی جیب خرچ سے بیس بال کے دستانے اور بیٹ خریدتے تھے مگر اس پورے عرصے میں ہم نے کبھی ہمت نہ ہاری اور گیم کی جانب نوجوانوں کو راغب کرنے سمیت اپنے پریکٹس کو معمول بنایا جس کی وجہ سے ر فتہ رفتہ دیکھنے والوں کی اس انجانے کھیل میں دلچسپی بڑھنے لگی اورعلاقے کے نوجوانوں نے اکیڈمی میں آنا شروع کیا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اکیڈمی میں پریکٹس کرتے ہوئے کھلاڑیوں پر نظر دوڑاتے ہوئے طارق حیات نے کہا کہ پانچ سالوں میں اب تک نہ صرف بیس بال کو لوگ جانتے ہیں بلکہ 100 سے زائد کھلاڑی اب اکیڈی کا مستقل حصہ ہیں اور 20 سے زائد کھلاڑی مختلف کیٹیگریز میں چین، جاپان، سری لنکا اور دبئی میں قومی ٹیم کی نمائندگی کر چکے ہیں۔

طارق حیات نے مزید بتایا کہ جب اکیڈمی شروع کی تھی تو علاقے کے لوگوں کے لیے یہ ایک عجیب کھیل تھا اور علاقے کے مشران کبھی کبھار اس کھیل کا مذاق بھی اڑاتے تھے، لیکن طارق اور ان کے دوست سید امین آفریدی نے ہمت نہیں ہاری۔ وہ سستے دستانے، ہیلمٹ، بال اور بیٹ کے چکر میں پشاور کے لنڈا بازاروں کے طواف کرتے تھے۔

بیس بال بنیادی طور پر امریکہ کا قومی کھیل ہے لیکن یہ کئی اور ملکوں میں بھی مقبول ترین گیم ہے۔ بیس بال کا گراؤنڈ 90 مربع فٹ کا ہوتا ہے اور ٹیم میں نو کھلاڑی ہوتے ہیں۔ ایک میچ نو اننگز پر مشتمل ہوتا ہے اور اگر ایک اننگز میں کسی ٹیم کے تین کھلاڑی آؤٹ ہو جائیں تو دوسری ٹیم کی باری ہوتی ہے۔

بیس بال کے میچ میں رنز بڑے مشکل سے بنتے ہیں۔ شارٹ کھیلنے کے بعد کھلاڑی بھاگ کر مخصوص نشان پر اگر چار چکر مکمل کرکے ہوم پر پہنچ جائے تو ایک رنز تصور کیا جاتا ہے، جو کھلاڑی بڑی مشکل سے بنا پاتا ہے۔ ایک ٹیم زیادہ سے زیادہ چار سے سات تک رنز بناتی ہے۔ میدان کے ایک مخصوص کونے سے بیٹر (بیٹسمین) ہٹ مارتا ہے۔ کرکٹ میں بال کروانے والے کو بالر جبکہ بیس بال میں پِچر کہتے ہیں۔

طارق حیات نے بتایا کہ بیس بال کھیل کے لیے سٹیمنا اور فٹنس کی ضرورت ہوتی ہے جس کے لیے رننگ اور سخت کسرت کی ضرورت ہوتی ہے جو وہ اپنی اکیڈمی میں کھلاڑیوں سے کرواتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ کھلاڑیوں کو اس گیم کی اخلاقیات پر بھی لیکچر دیا جاتا ہے۔ پریکٹس کرتے وقت گردغبار زیادہ تھا اور اس کے ساتھ کھیلنے کا میدان بھی ہموار نہیں تھا جس کی وجہ سے کھلاڑیوں کے زخمی ہونے کا امکان ہروقت ہوتا ہے۔

اکیڈمی کوچ طارق حیات نے مزید بتایا کہ وہ اور امیں آفریدی اکیڈمی اب بھی اپنی مدد آپ کے تحت چلا رہے ہیں جس کے لیے ان کے پاس مخصوص میدان ہے اور نہ پریکٹس کے لیے ہموار زمین۔ ’ہم ہر چند ماہ بعد جگہ تبدیل کرتے ہیں کیونکہ اکثر مالک جائیداد ہمیں جگہ چھوڑنے کا کہہ دیتا ہے اور پھر ہم نئی جگہ تلاش کرتے ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’ابھی جس جگہ کو ہم نے بیس بال اکیڈمی کے لیے منتخب کیا ہے وہ بھی علاقے کے لوگوں کی ملکیت ہے اور وہاں بھی گراونڈ نہ تو ہموار ہے اور نہ اس پر گھاس ہے۔‘

بیس بال کو مشہور کرنے کے لیے یہ انوکھی اکیڈمی ہر کھلاڑی کے لیے مفت ہے۔ یہاں نہ داخلہ اور نہ ہی ماہانہ فیس لی جاتی ہے۔ یہ اس لیے ہے کیونکہ طارق حیات اور سید آمین افریدی کو اس کھیل سے جنون کی حد تک لگاؤ ہے اور دونوں اس کھیل کو خیبر پختونخوا میں مقبول کرنا چاہتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ کھلاڑیوں کو تیار کرکے نہ صرف علاقے کی بلکہ قومی سطح پر ملک کی نمائندگی کر سکیں۔

طارق حیات نے بتایا: ’ہم نے اپنے حلقے کے منتخب نمائندے نورلحق قادری، جو وفاقی وزیر برائے مزہبی امور بھی ہیں، سے بیس بال کھیل میں معاونت دینے اور گراؤنڈ بنانے کے لیے بات بھی کی جس کے لیے انہوں نے وعدہ کیا ہے۔‘

طارق حیات نے بتایا کہ صرف ضلع خیبر سے 20 سے زائد ایسے کھلاڑی اسی اکیڈمی سے تربیت حاصل کر چکے ہیں جو نہ صرف ڈیپارٹمنٹل کھیل کا حصہ ہیں بلکہ ذاکرآفریدی، زاہد خان، صدیق آفریدی اور ولی خان قومی ٹیم میں جگہ بنا کر بین الاقومی سطح پر چین، دبئی، جاپان اور سری لنکا میں ملک کی نمائندگی کر چکے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا: ’پہلے ہم فاٹا کی سطح پر کھیلتے تھے اب فاٹا خیبر پختونخوا میں ضم ہو گیا ہے جس کی وجہ سے فاٹا بیس بال کی ٹیم بھی ختم ہو گئی ہے۔ اب صوبائی ٹیم کے 24 رکنی دستے میں صرف چھ کھلاڑیوں کو شامل کیا ہے جو ان کے ساتھ زیادتی ہے کیونکہ یہاں پر بیس بال کا ٹیلنٹ زیادہ ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ فاٹا انضمام کو ایک سال سے زائد عرصہ ہو چکا ہے لیکن تاحال ان کو خیبر پختونخوا کے محکمہ کھیل کی جانب سے کسی قسم کا تعاون اور مدد نہیں ملی۔ ’جب ہم باہر کے دوروں پر جاتے ہیں تو کبھی کبھار ایسا وقت بھی آتا ہے کہ کھلاڑی اپنے ویزے اور ٹکٹس وغیرہ کا بندوبست بھی خود کرتے ہیں۔‘

پاکستان بیس بال فیڈریشن کے حوالے سے طارق حیات نے بتایا کہ ان کا تعاون کافی حد تک رہا ہے اور اپنے وسائل کی حد تک انہیں سپورٹ بھی کیا جاتا ہے لیکن خیبر پختونخوا حکومت کو چاہیے کہ اس کھیل کے فروغ اور ترقی کے لیے اقدامات کرے۔

واضح رہے کہ اس وقت پاکستان میں بیس بال کی دو ہی اکیڈمیز ہیں، ایک لاہور اور دوسری خیبر پختونخوا کے ضلع خیبر میں ہے جس کو سید امین اور طارق حیات اپنی مدد آپ کے تحت چلاتے ہیں۔

طارق حیات نے کہا: ’ہم بیس بال کو نہ صرف اپنے علاقے بلکہ صوبے اور ملکی سطح پر ترقی دینا چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ نوجوانوں کو تربیت دیں، لیکن وسائل کی کمی ہے۔‘

خیبر کی اکیڈمی کے تربیت یافہ کھلاڑی بیرون ممالک  جا کر کئی میچ جیتے بھی ہیں اور پاکستان کا نام بھی روشن کیا ہے۔ طارق حیات کا کہنا تھا کہ  اگر حکومت ان کے لیے کسی گراونڈ کا بندوبست کر دے تو نوجوانوں کو تعلیم کے ساتھ ساتھ صحت مند سرگرمیوں کے مواقع بھی فراہم ہو سکیں گے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کھیل