کپتانی کا خواب دیکھنے والوں کو بابر اعظم کا پیغام

دورہ آسٹریلیا کے لیے روانگی سے قبل ٹی ٹوئنٹی کپتان بابر اعظم کی پریس کانفرنس واضح طور پر ان کا مائنڈ سیٹ بتا رہی تھی کہ اب سرفراز کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ یہ بات وہ شخص کہہ رہا تھا جو پچھلے کئی سالوں سے سرفراز کا بہترین دوست اور روم پارٹنر تھا۔

بابر کا یہ کہنا کہ ٹیم سلیکشن میں ان سے رائے لی گئی ہے، ایک ایسی بات ہے جس پر وہ خود بھی ہنس رہے ہوں گے، کیونکہ ان کی کپتانی سے پہلے ٹیم منتخب ہوچکی تھی۔ ( اے ایف پی)

قومی کرکٹ ٹیم کی کپتانی کسی بھی کھلاڑی کا خواب ہوتا ہے اور اس عہدے کے لیے جتنی اندرون خانہ سیاست کھیلی جاتی ہے اتنی اگر میدان میں کھیلی جائے تو شاید میچ کے نتائج کچھ اور ہی نکلیں لیکن نتائج سے بے خبر پاکستانیوں کے لیے پہلا اور آخری ایڈونچر ہی یہ ہے کہ جو کرنا ہے کر ڈالو، نتیجہ چاہے کچھ بھی ہو۔

 بابر اعظم کو جب پاکستان کی محدود اوورز کی ٹیم کا کپتان مقرر کیا گیا تو کچھ نے اس کو جذباتی فیصلہ قرار دیا اور کچھ نے اس کو انقلابی فیصلہ کہا۔ یہ فیصلہ کتنا کارگر ثابت ہوگا یہ تو کچھ دن بعد ہی پتہ چلے گا لیکن ایک مشکل ترین سیریز میں نئے نوجوان کپتان کا تقرر اور وہ بھی کئی سینیئر کھلاڑیوں کی موجودگی میں ایک غیر دانشمندانہ فیصلہ ہے۔ بورڈ حکام بھول گئے کہ اسی طرح جاوید میاں داد کو بھی کپتان بنایا گیا تھا اور پھر ٹیم میں اتنے اختلافات ہوئے کہ بورڈ کو ایک سیریز میں 11 کھلاڑی پورے کرنا مشکل ہوگیا تھا۔

بہر حال اس وقت ٹیم میں کوئی عمران خان یا ظہیر عباس نہیں ہے جو ناراض ہو کر گھر بیٹھ جائیں، لیکن پروفیشنل لیگز کی بھرمار سے کھلاڑیوں کو آج پیسہ کمانے کے بھرپور مواقع حاصل ہیں، تو ایسے میں قومی ٹیم چھوڑنا کوئی گھاٹے کا سودا نہیں ہوگا۔

پاکستان اور آسڑیلیا کے درمیان تین ٹی ٹوئنٹی میچز کی سیریز تین نومبر سے سڈنی میں شروع ہو رہی ہے۔ بابر اعظم کی آسٹریلیا روانگی سے قبل پریس کانفرنس واضح طور پر ان کا مائنڈ سیٹ بتا رہی تھی کہ اب سرفراز کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ یہ بات وہ شخص کہہ رہا تھا جو پچھلے کئی سالوں سے سرفراز کا بہترین دوست اور روم پارٹنر تھا۔

بابر نے زور دے کر کہا کہ میں ناتجربہ کار نہیں ہوں اور پہلے کپتانی کرچکا ہوں، شاید وہ اُن ساتھی کھلاڑیوں کو پیغام دے رہے تھے جو ٹیم میں کپتانی کا خواب دیکھ رہے تھے۔عماد وسیم اور شاداب خان کو اب شاید مزید انتظار کرنا پڑے۔

بابر کا یہ کہنا کہ ٹیم سلیکشن میں ان سے رائے لی گئی ہے، ایک ایسی بات ہے جس پر وہ خود بھی ہنس رہے ہوں گے، کیونکہ ان کی کپتانی سے پہلے ٹیم منتخب ہوچکی تھی۔ ٹیم میں زیادہ تر تو پرانے کھلاڑی ہی ہیں لیکن کوہستان کے رہائشی موسیٰ خان اور خوشدل شاہ کا اضافہ ایک مثبت قدم ہے۔ دونوں کھلاڑیوں نے پچھلے میچز میں زبردست کارکردگی دکھائی ہے اور اگر ان کو موقع دیا جائے تو دونوں بڑے کھلاڑی بن سکتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اوپننگ میں فخر زمان ہی بابر اعظم کا ساتھ دیں گے یعنی امام الحق پانی پلانے کا کام ہی کرتے رہیں گے لیکن مڈل آرڈر میں ٹیم کمزور نظر آتی ہے۔

حارث سہیل، آصف علی اور افتخار احمد کی سری لنکا کی تیسرے درجے کی ٹیم کے خلاف مایوس کن کارکردگی نے مصباح الحق کو پریشان کر رکھا ہے۔ عماد وسیم بھی اب پچھلی سیریز سے بجھے بجھے سے ہیں اور  پہلے والی وہ کاٹ نظر نہیں آتی ہے۔ بولنگ میں عثمان قادر کو یہ کہہ کر شامل کیا گیا ہے کہ انہیں آسٹریلیا کی وکٹوں کا تجربہ ہے حالانکہ چند دن قبل مصباح الحق ان کا مذاق اڑا رہے تھے کہ وہ کھیلتے کہاں ہیں!!

اب اچانک کسی کی نظر کرم ملتے ہی وہ آنکھوں کا تارا بن گئے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا شاداب کی جگہ انہیں کھلایا جائے گا؟ شاداب کو خراب کارکردگی کے باوجود ڈراپ کرنا آسان نہ ہوگا۔ وہ ایک اچھے فیلڈر اور وقت پڑنے پر اچھے ہِٹر بھی ہیں۔ لگتا ہے عثمان کو ایک آدھ میچ میں ہی موقع مل سکے گا۔ خراب فیلڈنگ اور فٹنس بھی ان کا ایک مسئلہ ہے۔

وکٹ کیپنگ کے لیے حالیہ ٹی ٹوئنٹی نیشنل کپ کے سب سے زیادہ رنز بنانے والے رضوان کو رکھا گیا ہے۔ رضوان بلاشبہ ایک بہت ہی اچھے کھلاڑی ہیں لیکن یہ بھی سچ ہے کہ وہ کئی دفعہ ٹیم میں آئے مگر جلدی باہر ہوگئے۔ انٹرنیشنل کرکٹ میں ان کا ریکارڈ اوسط درجے سے بھی کم ہے لیکن اب ان کے پاس موقع ہے کہ خود کو منوا سکیں۔

 فاسٹ بولنگ میں عامر حسنین اور وہاب کے ساتھ عرفان کو بھی رکھا گیا ہے۔ طویل القامت عرفان کو چند سال قبل یہ کہہ کر فارغ کردیا گیا تھا کہ ان کی فٹنس بہت خراب ہے اور بولنگ میں اب وہ تیزی نہیں۔ مکی آرتھر نے جن کرکٹرز کے کیریئر سے کھیلا ان میں ایک عرفان بھی ہیں۔ اب وہ دوبارہ غالباً اس لیے لائے گئے ہیں کہ آسٹریلیا کی وکٹوں میں باؤنس بہت ہوتا ہے شاید وہ کارگر ثابت ہوسکیں لیکن یقینی طور پر 37 سالہ بائیں ہاتھ کے تیز بولر کی یہ آخری سیریز ہے۔ اگر وہ ناکام ہوئے تو پھر شاید دوبارہ نہ آسکیں۔۔

مجموعی طور پر بابر کے حوالے ایک ایسی ٹیم کی گئی ہے جس کا تجربہ تو کم ہے لیکن جوش اور ولولہ بہت زیادہ ہے۔ سخت اور اکھڑ لہجے کے بابر اعظم کے لیے ساتھی کھلاڑیوں کے ساتھ بہتر تعلقات ایک امتحان ہوگا۔

ٹیم میں کئی کھلاڑی ایسے ہیں جن کو کپتانی کا یقین تھا، لیکن ہما کسی اور کے سر بیٹھ گیا۔ پاکستان کے آٹھویں کپتان کی حیثیت سے بابر اعظم نے میڈیا میں تو حوصلے دکھائے ہیں مگر حقیقی امتحان میدان میں ہوگا جہاں کمنز اور اسٹارک جیسے خطرناک بولرز ان کا انتظار کر رہے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ بابر اعظم اپنی قسمت کے سکندر اعظم بنتے ہیں یا اپنے پیش رو سات کپتانوں کی طرح آسٹریلیا کے سامنے ہزیمت اٹھاتے ہیں۔ متنازع انداز میں کپتان بننے والے بابر کا سب سے بڑا چیلنج نمبر ایک پوزیشن کو برقرار رکھنا ہے جو بظاہر خطرے میں نظر آتی ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ