امریکی فوج انسانی لاشوں پر بم دھماکوں کے تجربوں میں ملوث

امریکی عدالت میں انکشاف ہوا ہے کہ ایک کمپنی طبی تحقیق کے لیے عطیہ کی گئیں لاشوں کو خفیہ طور پر فوج کو فروخت کر رہی تھی، جو انہیں بم دھماکوں کے تجربات میں استعمال کر رہی تھی۔

امریکی عدالت میں انکشاف ہوا ہے کہ ایک کمپنی طبی تحقیق کے لیے عطیہ کی گئیں لاشوں کو خفیہ طور پر فوج کو فروخت کر رہی تھی، جو انہیں بم دھماکوں کے تجربات میں استعمال کر رہی تھی۔

ریاست ایریزونا میں قائم ’بائیولوجیکل ریسورس سینٹر‘ (بی آر سی) کو بند کر دیا گیا ہے، کیونکہ کے مالکان پر الزام ہے کہ وہ کئی خاندانوں کو ان کے پیاروں کی باقیات کے استعمال کے حوالے سے گمراہ کر رہے تھے۔

کمپنی کے خلاف مقدمے میں یہ بھی الزام لگایا گیا کہ وعدے کے مطابق ڈونر خاندانوں کو ان کے رشتے داروں کو جلانے (بطور آخری رسومات) کے بعد ڈبوں میں بھیجی گئی راکھ در حقیقت ان کی نہیں تھی بلکہ کمپنی یا تو یہ لاشیں تیسرے فریق کو فروخت کر چکی تھی یا وہ ابھی تک ان کے مردہ خانے میں پڑی ہوئی تھیں۔

پیر کو عدالت کو بتایا گیا کہ 2014 میں بی آر سی کے مرکز پر ایف بی آئی کے چھاپے کے دوران اہلکاروں کو ٹیبل پر کٹی ہوئی انسانی ٹانگیں، فریج میں منجمد سر اور ایک انسانی دھڑ پر کسی اور شخص کا سِلا ہوا سر ملا۔

ایف بی آئی کے ایک ریٹائرڈ اہلکار مارک نے اس منظر کا موازنہ میری شیلے کے ناول ’فرینکسٹائن‘ سے کیا۔ انہوں نے عدالت کو بتایا: ’یہ اتنا خوفناک منظر تھا کہ کچھ اہلکاروں نے دوبارہ اندر جانے سے انکار کردیا تھا۔‘

بی آر سی کے مالک سٹیفن ڈگلس گور نے اکتوبر میں عطیہ کیے گئے ایک جسم کے اعضا کے غلط استعمال کا جرم تسلیم کیا تھا۔

لاشیں عطیہ کرنے والی کمپنیاں یونیورسٹیوں، میڈیکل ڈیوائس مینوفیکچررز اور دوا ساز کمپنیوں میں باقیات تقسیم کرتی ہیں۔

یہ کمپنیاں اس سے وابستہ اخراجات ادا کرتی ہیں اور لاشوں کو طبی تعلیم اور تحقیق کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ اس سے مرنے والے افراد کے خاندان آخری رسومات یا تدفین کے اخراجات سے بچ جاتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لیکن بی آر سی کے خلاف مقدمہ دائر کرنے والے افراد میں سے ایک شخص جم سٹافر کا کہنا ہے کہ اپنی والدہ کی لاش فرم کو دینے کے بعد وہ خود کو ’بے وقوف‘ محسوس کر رہے ہیں،کیوں کہ ان پر انکشاف ہوا تھا کہ ان کی 74 سالہ والدہ کی لاش کو امریکی فوج کے حوالے کر دیا گیا تھا جنہوں نے لاش کو کرسی سے باندھ کر دھماکے سے اڑا دیا تھا۔

’میں دوسروں پر اعتبار کرنے والا شخص نہیں ہوں لیکن اس صورتحال میں آپ کو اندازہ نہیں کہ آپ کس پر بھروسہ کر رہے ہیں، یہ اعتماد ہی ہے جسے وہ بیچ رہے ہیں۔‘

جم نے مزید کہا انہوں نے واضح طور پر اپنی والدہ کی لاش کو اس طرح کے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی تھی۔

مقدمے کی پیروی کرنے والے ڈیویڈ ٹیسیلے نے عدالت کو بتایا کہ کمپنی نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ وہ ان کے پیاروں کی باقیات کو صرف طبی تحقیق کے لیے استعمال کریں گے اور لاشوں کے ساتھ احترام اور وقار کا سلوک کیا جائے گا۔

ٹیسیلے نے کہا ’لواحقین کو یہ نہیں بتایا گیا کہ لاشیں کاٹ دی جائیں گی، تیسرے فریق کو منافع کے لیے فروخت کر دی جائیں گی یا ان مقاصد کے لیے استعمال کی جائیں گی جن کے لیے وہ رضا مند نہیں تھے۔‘

انہوں نے ججز کو اس کاروبار کی قیمتوں کی ایک فہرست دکھائی جس میں سر کے بغیر دھڑ کی قیمت چار ہزار ڈالر بتائی گئی تھی۔ ٹیسیلے کے مطابق: ’یہ ایمانداری، وقار اور احترام کا معاملہ ہے۔‘

مجموعی طور پر 23 افراد کے لواحقین بی آر سی کے خلاف مقدمہ چلا رہے ہیں۔

اگرچہ بی آر سی کے مالک نے اس مقدمے میں ان الزامات کی تردید کی ہے تاہم انہوں نے 2015 میں اعتراف کیا تھا کہ ان کی کمپنی نے تیسرے فریق کو آلودہ انسانی ٹشو مہیا کیے تھا اور لاشوں کا استعمال ایسے طریقوں سے کیا جو ڈونرز کی خواہشات کے منافی تھے۔

جج کو لکھے گئے خط میں گور نے کہا کہ انہیں اپنے ملازمین کی باریک بینی سے نگرانی کرنی چاہیے تھی اور ان کی کمپنی کے بروشرز ڈونیشن کے عمل کے حوالے سے زیادہ شفاف ہوسکتے تھے۔

دوسری جانب گور کے وکیل کا کہنا تھا کہ کمپنی کو لاشیں عطیہ کرنے والوں نے ان فارمز پر دستخط کیے تھے جن میں اس بات کی اجازت دی گئی تھی کہ لاشوں کو کاٹا جا سکتا ہے اور ان سے منافع کمانا قانونی ہو گا۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ