جب خانۂ کعبہ پر باغیوں نے قبضہ کر کے حاجیوں کو یرغمال بنا لیا

آج سے 40 برس قبل باغیوں کے ایک گروہ نے خانۂ کعبہ پر قبضہ کر کے تمام اسلامی دنیا کو سکتے میں مبتلا کر دیا۔ یہ کون لوگ تھے اور ان سے خانۂ خدا کو کیسے آزاد کروایا گیا اور کیا اس میں پاکستان کا کوئی کردار تھا؟

جہیمان العتیبی، جن کے خانۂ کعبہ پر قبضے نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا (اے ایف پی)

نمازِ فجر کے وقت امامِ کعبہ شیخ محمد السبیل امامت کروانے کی تیاری کر رہے تھے۔ آج ہوا میں خنکی تھی اس لیے انہوں نے خاکستری رنگ کا جبہ پہن رکھا تھا۔

55 سالہ شیخ السبیل کعبہ کے بالکل سامنے کھڑے تھے اور ان کے پیچھے دائروی صفوں میں نصف لاکھ کے قریب نمازی موجود تھے۔ امام نے معمول کے مطابق نماز ادا کروائی، اس کے بعد انہوں نے مصلے پر اپنا رخ موڑ کر مائیکروفون میں دعا شروع کی۔ اس دوران انہوں نے کنکھیوں سے دیکھا کہ مسجد کی پچھلی صفوں سے کچھ لوگ کندھوں پر تابوت اٹھائے آگے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں تھی۔ حج ابھی 20 دن پہلے ختم ہوا تھا اور ابھی لاکھوں حاجی مکہ میں موجود تھے۔ ان میں سے جو بھی فوت ہو جائے، اس کے لواحقین کی کوشش ہوتی تھی کہ نمازِ جنازہ مسجد الحرام میں امامِ کعبہ کی امامت ہی میں ادا ہو۔

عیسوی کیلنڈر کے مطابق یہ 20 نومبر 1979 کی بات ہے، یعنی آج سے ٹھیک 40 برس قبل۔ ہجری کیلنڈر کے تحت اس دن نہ صرف سال کا پہلا دن تھا بلکہ نئی صدی کا بھی پہلا دن تھا یعنی 1400 ہجری کا آغاز ہو گیا تھا۔

شیخ السبیل نے دعا جاری رکھی لیکن سروں پر سرخ دھاری دار صافے باندھے یہ لوگ انہی کی طرف بڑھتے گئے، حتیٰ کہ بالکل قریب پہنچ گئے۔

ان کے آگے آگے میلے کچیلے کپڑوں میں ملبوس الجھی ہوئی داڑھی والا ایک آدمی تھا۔ اس نے امام کعبہ کو ایک طرف دھکیل کر ان سے مائیک چھین لیا اور مائیک اپنے منہ کے قریب لا کر بدوی عربی میں پوری طاقت سے چیخا، ’برادرانِ اسلام، اللہ اکبر، مہدی کا ظہور ہو گیا ہے!‘

اس دوران اس کے ساتھیوں نے اپنے تابوتوں میں چھپی کلاشنکوفیں نکال کر لہرانی اور جوابی نعرے لگانے شروع کر دیے، ’مہدی کا ظہور ہو گیا ہے!‘

50 ہزار نمازی پھٹی آنکھوں اور کھلے منہ سے یہ سارا منظر دیکھ رہے تھے۔ ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ یہ ہو کیا رہا ہے۔ اسی دوران مسجد الحرام کے در و دیوار فائرنگ کی آواز سے گونج اٹھے۔ سکیورٹی پر مامور پولیس اہلکاروں نے مزاحمت کی کوشش کی تھی جن پر ان جنگجوؤں نے گولی چلا دی۔ پولیس والوں کے پاس کوئی اسلحہ نہیں تھا بلکہ صرف ڈنڈے تھے اس لیے وہ لمحوں کے اندر اندر مارے گئے۔

مسجد کے صحن میں سپاہیوں کا خون بہنے لگا۔ گنبدوں اور میناروں پر بسیرا کرنے والے ہزاروں کبوتر بھی بےچین ہو کر ادھر ادھر اڑنے لگے۔

یہ کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ اسلامی عقائد کی رو سے خانۂ کعبہ کی حدود میں کسی قسم کے تشدد کی شدید ممانعت ہے، حتیٰ کہ وہاں کسی جانور کو بھی نقصان نہیں پہنچایا جا سکتا۔ نمازی دہشت کے عالم میں اپنی اپنی جگہوں پر جمے باغیوں کی کارروائی دیکھتے رہے۔

باغیوں کی تعداد 400 کے قریب تھی اور ان میں عورتیں اور بچے بھی شامل تھے، بلکہ کچھ سیاہ فام امریکی مسلمان بھی تھے۔ ان کے کمانڈر، جنہوں نے امام السبیل سے مائیک چھینا تھا، وہ فوجی ڈسپلن سے اپنے ساتھیوں کو ہدایات دینے لگے۔ جنگجو مسجد کے طول و عرض میں پھیل گئے۔ ان میں سے کچھ نے مسجد کے 292 فٹ اونچے مناروں پر چڑھ کر وہاں مشین گنیں نصب کر لیں۔ دوسروں نے مسجد کی دوسری منزل پر کھڑکیوں کے آس پاس پوزیشنیں سنبھال لیں۔ اسی دوران سرغنہ نے نمازیوں کو حکم دیا کہ صحن میں پڑے سینکڑوں قالینوں کو گول تہہ کر کے دروازوں کے پیچھے لگا دیں تاکہ باہر سے کوئی زبردستی اندر نہ آ سکے۔ دوسروں کو اسلحے کی نوک پر حکم دیا گیا کہ وہ میناروں پر چڑھ کر نشانچیوں کو پانی، اسلحہ اور دوسرا سامان پہنچائیں۔ کمانڈر کے انداز سے صاف ظاہر ہوتا تھا کہ وہ لمبے مقابلے کی تیاری کر رہے ہیں۔

یہ کمانڈر 43 سالہ جہيمان تھے۔

٭ ٭ ٭ ٭ ٭

جہیمان بن محمد بن سيف العتيبی 1930 کی دہائی میں نجد کے علاقے میں پیدا ہوئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ بچپن میں بہت بدمزاج تھے اور بہت رویا کرتے تھے اس لیے ان کا نام جہیمان رکھ دیا گیا جس کا مطلب ہے ’منہ بگاڑنے والا۔‘

جہیمان نے پرائمری ہی میں سکول چھوڑ دیا تھا اور اس کے بعد کبھی تعلیم مکمل نہ کر سکے۔ کچھ لوگوں کے مطابق انہیں لکھنا نہیں آتا تھا، بلکہ وہ کلاسیکی عربی بھی اچھی طرح نہیں جانتے تھے۔

انہوں نے نیم فوجی ادارے نیشنل گارڈز میں شمولیت اختیار کی اور 18 سال تک اس کے ملازم رہے۔ لیکن ان کے ذہن میں کچھ اور چل رہا تھا، اس لیے وہ نوکری چھوڑ کر مدینہ آئے جہاں اس وقت کئی مذہبی خیال پروان چڑھ رہے تھے۔

جہیمان کی مدینہ آمد سے چند سال قبل معروف شامی عالمِ دین محمد ناصر الدین البانی یونیورسٹی آف مدینہ میں حدیث کی تعلیم دیا کرتے تھے۔ ان کے نظریات سے متاثر ہو کر مدینہ کے نوجوانوں نے الجماعہ السلفیہ المحتسبہ (الجماعہ) نامی ایک تنظیم قائم کر لی۔ اب اسی جماعت سے وابستہ گروہ نے مسجد الحرام پر قبضہ کر لیا تھا۔

٭ ٭ ٭ ٭ ٭

جہیمان کے ساتھیوں میں سے کئی ایسے تھے جنہوں نے خانۂ کعبہ میں تعلیم پائی تھی اور وہ اس کے چپے چپے سے واقف تھے۔ انہیں پوری عمارت کو مکمل طور پر کنٹرول حاصل کرنے میں زیادہ وقت نہیں لگا۔ جہیمان نے میناروں پر نصب نشانچیوں کو حکم دے رکھا تھا کہ تمہیں دور دور تک جو بھی سپاہی نظر آئے، اسے بلاتامل گولی سے اڑا دو کیوں کہ تم اسے نہیں مارو گے تو وہ تمہیں مار ڈالے گا۔

وہاں عورتوں، بچوں اور بزرگوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔ مسجد میں عربوں کے علاوہ دسیوں ہزار غیر ملکی بھی موجود تھے، جن کی اکثریت کو عربی نہیں آتی تھی۔ بہت سے پاکستانی اور انڈین مسلمان بھی موجود تھے۔ انہوں نے سرگوشیوں میں ایک دوسرے سے پوچھنا شروع کر دیا کہ یہاں کیا ہو رہا ہے۔

ان کی مشکل حل کرنے کے لیے باغیوں نے ایک پاکستانی کو اپنے درمیان شامل کر رکھا تھا۔ باغیوں نے پاکستانی اور ہندوستانی نمازیوں کو الگ کیا اور اس نے اردو میں پکار کر  کہا، ’آرام سے بیٹھ جاؤ اور سنو۔‘

اسی دوران باغیوں نے چند دوسری زبانیں بولنے والے مترجم اکٹھے کر لیے تھے اور ان کی مدد سے انہوں نے نمازیوں کو اپنا پیغام سنانا شروع کر دیا۔

اس دوران ایک مقرر نے بڑی فصیح عربی میں مسجد کے مرکزی لاؤڈ سپیکر سے تقریر شروع کر دی اور اپنی اس کارروائی کے مقاصد بیان کرنے لگے۔

مکہ کے باسیوں کو پہلے تو سمجھ ہی نہیں آئی کہ خانۂ کعبہ میں ہوا کیا ہے۔ پہلے تو فائرنگ کی آواز آئی، پھر لاؤڈسپیکر سے عجیب و غریب بیانات سنائی دینے لگے۔ پولیس کے موقعے پر پہنچتے پہنچتے سورج طلوع ہو گیا تھا۔ ایک سو کے قریب سکیورٹی اہلکاروں نے مسجد کی طرف بڑھنے کی کوشش کی لیکن میناروں پر بیٹھے جنگجوؤں نے انہیں لمحوں کے اندر گولیوں سے بھون دیا۔

اس کے بعد دوسرے سکیورٹی ادارے بھی وہاں پہنچ گئے۔ فوج کو بھی خبردار کر دیا گیا اور ان کے دستوں نے مکہ کی طرف سفر شروع کر دیا۔

٭ ٭ ٭ ٭ ٭

الجماعہ کے نظریات سخت گیر تھے اور یہ اسلام کو اس کی ابتدائی اور بقول ان کے ’اصل‘ شکل میں بحال کرنا چاہتے تھے۔ ان کے ساتھ شامل ہونے والوں کی بڑی تعداد بدوی نوجوانوں پر مشتمل تھی جن میں سے بہت سوں کو شکایت تھی کہ انہیں روزگار کے مواقع میسر نہیں آ رہے۔

ان کا خیال تھا کہ اندھیرے کمرے میں، جہاں سورج نظر نہ آئے، روزہ کھولا جا سکتا ہے۔ یہ ہر طرح کی تصاویر کے خلاف تھے، یہاں تک کہ شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بنوانے کو گناہ سمجھتے تھے۔ رفتہ رفتہ حالات یہاں تک پہنچے کہ انہوں نے ملبوسات کی دکانوں میں جا کر مجسمے توڑنا شروع کر دیے۔

انہوں نے مسجدِ نبوی کے قریب بیت الاخوان نامی ایک ہاسٹل قائم کیا۔ اس کی مسجد میں محراب نہیں تھی، کیوں کہ یہ محراب بنانے کو بھی بدعت گردانتے تھے۔ چونکہ ان کا خیال تھا کہ جوتے پہن کر نماز ادا کی جا سکتی ہے، اس لیے یہ شہر کی مسجدوں میں جوتوں سمیت گھس جاتے تھے۔  

مدینہ والوں کو ان باتوں سے تشویش پیدا ہونے لگی۔ 1977 میں مدینہ کے بعض جید علما نے بیت الاخوان پہنچ کر انہیں قائل کرنے کی کوشش کی۔ مسجد کی چھت پر ہونے والی اس بحث کا یہ نتیجہ نکلا کہ کچھ لوگ تو قائل ہو کر الجماعہ کا ساتھ چھوڑ گئے مگر اکثریت زیادہ کٹر ہو کر جہیمان کے گرد اکٹھی ہو گئی۔  

پولیس نے الجماعہ کے خلاف کریک ڈاؤن کر کے جہیمان کو ان کے ایک سو ساتھیوں سمیت گرفتار کر لیا۔ البتہ گرینڈ مفتی شیخ ابن باز نے ان سے پوچھ گچھ کرنے کے بعد فیصلہ کیا یہ لوگ بےضرر ہیں، انہیں چھوڑ دیا گیا۔

جیل میں قیام کے دوران جہیمان کی ملاقات محمد القحطانی سے ہوئی۔ اس ملاقات نے سب کچھ بدل کے رکھ دیا۔

٭ ٭ ٭ ٭ ٭

اس وقت تک ریاض میں ہنگامی صورتِ حال کا آغاز ہو چکا تھا۔ شاہ خالد نے فوری طور پر مشیروں کو طلب کر لیا اور اس غیرمعمولی صورتِ حال سے نمٹنے کے طریقوں پر غور شروع ہو گیا۔ اسی اجلاس میں ہونے والے ایک فیصلے کے تحت سعودی عرب کی سرحدیں بند کر دی گئیں اور تمام ملک عملاً باقی دنیا سے کٹ کر رہ گیا۔ کعبہ کے اردگرد کا علاقہ خالی کروا لیا گیا، شہر کی بجلی اور ٹیلی فون لائنیں کاٹ دی گئیں اور پولیس اور فوج نے مورچے سنبھال لیے۔

ادھر قحطانی کے بڑے بھائی کی جانب سے مرکزی لاؤڈ سپیکر سے تقریروں کا سلسلہ جاری تھا: ’مہدی کا ظہور ہو چکا ہے اور آخرت کی گھڑی آن پہنچی ہے۔‘

 کچھ نمازیوں نے مسجد کے ذیلی دروازوں اور کھڑکیوں سے نکلنے کی کوشش کی۔ باغیوں نے انہیں نہیں روکا، ویسے بھی یرغمال بنانے کے لیے ان کے پاس ہزاروں لوگ موجود تھے۔

امام السیبل نے اپنا خاکستری جبہ اتار کر پھینک دیا اور لوگوں کے مجمعے میں گھل مل گئے تاکہ انہیں پہچانا نہ جا سکے۔ اسی دوران انڈونیشیائی حاجیوں کا ایک گروہ کھڑکی سے نکلنے کی کوشش کر رہا تھا۔ امامِ کعبہ ان میں جا ملے۔ جنگجوؤں نے انہیں دیکھا، مگر روکنا تردد نہیں کیا۔ یوں امام وہاں سے صحیح سلامت نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔

جوں جوں دن نکلتا جا رہا تھا، اس واقعے کی سنگینی کھل کر سامنے آ رہی تھی اور ساتھ ہی دھاگے الجھتے جا رہے تھے۔ حکام کے پاس درست معلومات نہیں تھیں کہ باغیوں کی کل تعداد کتنی ہے، ان کے پاس کس قسم کا اسلحہ ہے، خوراک کتنی ہے، اور یہ کہ مسجد میں کتنے یرغمالی موجود ہیں۔  

پھر یہ معمہ اپنی جگہ تھا کہ کون لوگ ہیں، اور خانۂ کعبہ کو اس طرح بزورِ اسلحہ قبضہ کر کے کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ کہیں کوئی بیرونی طاقت تو اس کے پیچھے نہیں؟

سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ ان لوگوں سے خانۂ کعبہ کو آزاد کیسے کروایا جائے۔ ایک تو اندر ہزاروں یرغمالی موجود ہیں، دوسرا یہ کہ عمارت بھی کوئی عام عمارت نہیں، خانۂ خدا ہے۔ ایک ایسے مقدس مقام پر مسلح کارروائی کیسے کی جائے جہاں خون بہانا تو درکنار، پودا تک اکھاڑنے کی اجازت نہیں تھی اور یہ ممانعت ایامِ جاہلیہ سے چلی آ رہی تھی۔

جنگجوؤں کے خلاف کسی قسم کی کارروائی سے قبل علما سے اجازت لینا ضروری تھا۔ حکمرانوں کو خدشہ تھا کہ اگر وہاں قتل و غارت ہوئی تو کہیں انہیں عوام اور مذہبی طبقے کے غیظ کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

سپاہیوں کے ذہنوں میں غبار تھا۔ اگر وہ کعبہ پر قبضہ کرنے والوں سے لڑتے ہوئے مارے گئے تو اس کے بدلے انہیں جنت ملے گی، یا کعبے کا تقدس پامال کرنے کے عوض جہنم؟

آخر شاہ خالد شیخ عبدالعزیز بن باز سے ملے۔ شیخ کی عمر اس وقت 70 برس تھی اور وہ بینائی سے محروم ہو چکے تھے۔

شیخ مشکل میں تھے۔ ایک طرف تو وہ خود بعض کٹر نظریات کے حامل تھے۔ وہ سائنس کے خلاف تھے اور ان کا خیال تھا کہ زمین سورج کے گرد نہیں بلکہ سورج زمین کے گرد گردش کرتا ہے۔ ابھی چند ماہ قبل امریکی خلاباز چاند پر اترے تھے۔ شیخ اس کو بھی جھوٹ سمجھتے تھے۔

دوسری الجھن یہ تھی کہ جہیمان شیخ ابن باز کے شاگرد رہ چکے تھے اور ایک سال پہلے شیخ نے ہی ان کے بےضرر ہونے کی ضمانت دے کر انہیں جیل سے چھڑوایا تھا۔ ادھر امامِ کعبہ شیخ السبیل بھی باغیوں کے چنگل سے نکل کر آ گئے تھے اور علما کی کمیٹی میں شامل ہو گئے تھے۔ انہوں نے دوسرے علما کے ساتھ فتویٰ دے دیا۔ خانۂ کعبہ کو چھڑوانے کے لیے فوجی کارروائی جائز قرار پائی۔

٭ ٭ ٭ ٭ ٭

جہیمان کو 1978 میں احساس ہوا کہ اسلام میں مہدویت کے بارے میں جو بشارتیں موجود ہیں، القحطانی ان میں سے کئی پر پورا اترتے تھے۔

قحطانی کا اصل نام محمد تھا، والد کا نام عبداللہ، اور ان کا تعلق حجاز کے شمال میں واقع علاقے نجد سے تھا اور وہ پیغمبر اسلام کے خاندان سے تھے، یعنی سید تھے۔ مختلف روایتوں میں مہدی کی اسی قسم کی علامتیں بتائی گئی ہیں۔

1978 کے اواخر میں جہیمان نے دعویٰ کیا کہ انہیں خواب میں بشارت ہوئی ہے کہ مہدی کا ظہور ہو چکا ہے اور وہ مہدی کوئی اور نہیں بلکہ محمد قحطانی ہیں۔ انہوں نے قحطانی کی بہن سے شادی بھی کر لی۔

جہیمان نے شہر چھوڑ کر صحرا کا رخ اختیار کیا اور وہاں سے کیسٹیں ریکارڈ کرا کے اور پمفلٹ لکھ لکھ کر لوگوں کو بتانا شروع کر دیا کہ مہدی دنیا میں تشریف لا چکے ہیں۔

ان پمفلٹوں میں سعودی حکومت پر الزام لگایا گیا کہ وہ مذہب کو دنیاوی مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کر رہی ہے اور اس نے جہاد کا خاتمہ کر دیا ہے اور وہ مغربی دنیا کی کاسہ لیس بن کر رہ گئی ہے۔

پمفلٹوں میں اپنے پیروکاروں کو حکم دیا گیا کہ وہ سرکاری اداروں سے دور رہیں، اگر ملازم ہیں تو استعفیٰ دے دیں، طالب علم ہیں تو سکول کالج چھوڑ دیں اور ان کے جھنڈے تلے اکٹھے ہو جائیں۔

٭ ٭ ٭ ٭ ٭

فوجیوں نے گرین سگنل ملنے کے بعد مختلف حکمتِ عملیوں پر کام شروع کر دیا۔ تین طرف سے حملہ کیا لیکن جنگجوؤں کی عمدہ پوزیشن اور ڈسپلن کی وجہ سے سرکاری فوج کو بھاری جانی نقصان اٹھا کر پسپا ہونے پر مجبور ہونا پڑا۔

اس کے بعد ہیلی کاپٹر سے فوجیوں کو مسجد کے اندر اتارنے کی کوشش کی لیکن جنگجوؤں نے انہیں چھت پر اترنے سے پہلے فضا ہی میں بھون ڈالا۔

اسی دوران کسی کو بن لادن گروپ کا خیال آیا۔ یہ تعمیراتی گروپ چونکہ مسجد کی توسیع کا کام کر رہا تھا، اس لیے ان کے پاس تفصیلی نقشے موجود تھے۔ اسامہ بن لادن کے بڑے بھائی سالم بن لادن نے مسجد کے بارے میں معلومات فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

اب معاملے کی سنگینی کھل کر سامنے آئی۔ مسجد الحرام کے اندر طویل راہداریوں، دالانوں، صحنوں، تہہ خانوں اور سرنگوں کا جال بچھا ہوا تھا، اس لیے براہِ راست کارروائی سے ہزاروں لوگوں کے نقصان کا اندیشہ تھا اور کامیابی پھر بھی مشکل دکھائی دیتی تھی۔

ادھر جہیمان اور ان کے ساتھیوں کی جانب سے مسجد کے لاؤڈ سپیکروں سے تقریروں کا سلسلہ جاری تھا۔ اب انہوں نے اپنے مطالبات پیش کرنا شروع کر دیے تھے، جن کا لبِ لباب یہ تھا کہ مغربی ملکوں سے رابطے توڑ دیے جائیں، حکومت کا تختہ الٹ دیا جائے، امریکہ کو تیل کی فراہمی روک دی جائے، اور تمام غیر ملکیوں کو سعودی عرب سے نکال دیا جائے۔

چوتھے روز سکیورٹی فورس کے اہلکار مسجد کی کچھ دیواروں میں سوراخ کر کے اندر گھس گئے اور بعض حصوں پر کنٹرول حاصل کر لیا لیکن یرغمالوں کی بڑی تعداد اب بھی جنگجوؤں کے قبضے میں تھی۔ باغی عورتیں اپنے مردہ ساتھیوں کے چہرے مسخ کر دیتی تھیں تاکہ ان کی شناخت نہ ہو سکے۔

اسی دوران مبینہ امام مہدی قحطانی بھی مارے گئے اور ان کی لاش اس حالت میں سکیورٹی حکام کے قبضے میں آ گئی کہ چہرہ سلامت رہ گیا تھا۔ اس سے بعض جنگجو سکتے میں آ گئے۔ اگر امام مہدی مارے گئے ہیں تو دنیا پر غلبہ کون پائے گا اور بقیہ بشارتیں کیسے پوری ہوں گی؟

البتہ جہیمان نے سر توڑ کوشش کی کہ قحطانی کی موت کی خبر کو کسی نہ کسی دبا دیا جائے، مگر ناکام رہے۔

ادھر فوجی دماغ سر جوڑے بیٹھے تھے کہ باغیوں سے خانۂ خدا کو کس طرح آزاد کروایا جائے۔ کسی نے منصوبہ پیش کیا کہ سرنگوں میں پانی چھوڑ دیا جائے اور پھر اس پانی میں بجلی چھوڑ دی جائے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان میں بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ اس منصوبے پر عمل ہوا تھا اور اسی طریقے سے باغیوں پر قابو پایا گیا تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ پلان رد ہو گیا تھا کیوں کہ ایک تو مکہ میں اتنا پانی ہی نہیں تھا کہ دنیا کی سب سے بڑی مسجد کو بھر سکے جس کے وسیع و عریض رقبے کے علاوہ وہاں سرنگوں کی بھی بہتات تھی۔ دوسرے اس میں حملہ آوروں کے علاوہ یرغمالوں کی بھی بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کا اندیشہ تھا۔ سعودی سکیورٹی چیف ترکی الفیصل نے اس موقعے پر کہا تھا کہ ’کعبہ کو بھرنے کے لیے بحیرۂ احمر بھی ناکافی ہو گا۔‘

جب سعودی حکام عاجز آ گئے تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ بیرونی مدد حاصل کی جائے۔ اس وقت امریکی سی آئی اے کے کمانڈو سعودی سپاہیوں کو تربیت دے رہے تھے، لیکن صورتِ حال کی نزاکت کے پیشِ نظر فیصلہ کیا گیا کہ اس موقعے پر امریکہ کے ملوث ہونے کے سیاسی اثرات پڑیں گے، اس لیے نگاہِ انتخاب نسبتاً نیوٹرل ملک فرانس پر پڑی۔

اس وقت فرانسیسی سیکرٹ سروس کے سربراہ کاؤنٹ کلاود الیکساندر دے مارینشے تھے۔ فرانسیسی حکومت کے ذریعے ان سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے تجویز پیش کی کہ کعبہ کے اندر گیس چھوڑ دی جائے جس سے باغی اور یرغمالی دونوں بےہوش ہو جائیں گے اور یوں حملہ آوروں پر آسانی سے قابو پایا جا سکتا ہے۔

اس مقصد کی خاطر فرانسیسی خفیہ ادارے جی آئی جی این کے تین کمانڈوز کو ہنگامی بنیادوں پر سعودی عرب روانہ کیا گیا۔ لیکن یہاں ایک مسئلہ درپیش تھا کہ سعودی قانون کی رو سے حجاز کی حدود میں کوئی غیر مسلم داخل نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ پہلے ان تینوں کو عارضی طور پر کلمہ پڑھایا، اور پھر مکہ پہنچا دیا گیا۔  

انہوں نے اپنا کام فوراً شروع کر دیا۔ مسجد کی وسعت کا معاملہ پھر آڑے آیا۔ اس میں دالانوں، صحنوں، اور راہداریوں کی کثرت تھی، جن میں سے اکثر حصے کھلے تھے اس لیے گیس کا خاطر خواہ اثر نہیں ہوا۔ لیکن اسی دوران سعودی حکام نے دوسرا آپریشن شروع کر رکھا تھا۔ جونہی گیس داخل کی گئی، اس کے ساتھ ہی ماسک پہنے ہوئے سپاہیوں نے مسجد کی دیوار میں سوراخ کر لیے اور وہاں سے اندر گرینیڈ پھینکنا شروع کر دیے، جس سے بہت سے یرغمالی بھی ہلاک ہو گئے۔

اس وقت محاصرے کو 14 دن گزر چکے تھے۔ باغیوں کا اسلحہ، خوراک اور ہمت ختم ہو چکے تھے، اوپر سے مبینہ امام مہدی بھی مارے جا چکے تھے، اس لیے بچے کھچے باغیوں نے چار دسمبر کو اپنے آپ کو حکام کے حوالے کر دیا۔ ان میں جہیمان بھی شامل تھے جن کی ابتر حالت تصاویر میں دیکھی جا سکتی ہے۔

سعودی انٹیلی جنس کے سربراہ شہزادہ ترکی الفیصل انہیں دیکھنے ہسپتال گئے تو انہوں شہزادے کا ہاتھ تھام لیا، ’شاہ خالد سے کہو مجھے معاف کر دیں، میں آئندہ ایسا کوئی کام نہیں کروں گا۔‘

تاہم ان کی یہ درخواست قبول نہیں ہوئی، اور اگلے چند دنوں میں جہیمان کو ان کے 62 ساتھیوں سمیت سرِ عام سزائے موت دے دی گئی اور یوں اس واقعے کا خاتمہ ہوا۔ 

اس دوران کتنی ہلاکتیں ہوئیں، مختلف لوگ مختلف تعداد بتاتے ہیں۔ حکومت کا کہنا تھا کہ اس کے 127 اہلکار مارے گئے اور ایک درجن کے قریب نمازی جان سے گئے، تاہم غیر سرکاری طور پر تعداد چار ہزار کے قریب بتائی گئی۔

اس کے بعد حکام نے جو کریک ڈاؤن کیا، اس میں صحرا کی طرف سے آنے والی ایک گاڑی بھی پکڑی گئی جس میں ایک 22 سالہ نوجوان موجود تھا۔ اسے الجماعہ کا کارکن ہونے کے شبے میں بند کر دیا گیا، لیکن اس نے پوچھ گچھ کے دوران کعبہ کے محاصرہ سے مکمل لاعلمی ظاہر کی۔

اس نوجوان کا نام اسامہ بن لادن تھا۔

بعد میں اسامہ بن لادن نے بھی سعودی حکومت کے خلاف بغاوت کی اور ان کے الزامات جہیمان کی تحریک کے عائد کردہ الزامات سے بہت ملتے جلتے تھے۔ 1985 میں انہوں نے پشاور میں گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ جہیمان بالکل ٹھیک تھا۔ 

امریکی سفارت خانے پر حملہ

پاکستان میں جب یہ خبر پہنچی تو لوگوں پر سکتہ طاری ہو گیا۔ پہلے پہلے تو کسی کو یقین ہی نہیں آیا کہ خانۂ خدا پر بھی کوئی قابض ہو سکتا ہے، پھر جب خبریں تسلسل سے آنے لگیں تو بےیقینی کی جگہ غم اور پھر غم کی جگہ غصے نے لے لی۔ 

شروع شروع میں تو یہ افواہیں بھی آئیں کہ شاید اس حملے میں ایران کا ہاتھ ہے۔ اس واقعے سے چند ماہ قبل ایران میں شاہ کی حکومت کا خاتمہ ہوا تھا اور آیت اللہ خمینی ملک کے سپریم لیڈر بن گئے تھے، ادھر صرف ایک ماہ قبل اکتوبر 1979 میں ایرانی طلبہ نے امریکی سفارت خانے کے عملے کو یرغمال بنا لیا تھا۔ 

لیکن آیت اللہ خمینی نے خانۂ کعبہ پر حملے کی مذمت کرنے اور اس کا الزام امریکہ اور صیہونی طاقتوں پر دھرنے میں دیر نہیں لگائی۔ اس سے مسلم دنیا کے بڑے حصے میں الزام کا پرنالہ امریکہ کی طرف مڑ گیا۔ پاکستان میں 21 نومبر کے اخباروں میں جو خبریں چھپیں ان میں بڑی حد تک اس واقعے کو امریکی سازش قرار دیا گیا اور اداریوں میں دور کی کوڑی لائی گئی کہ اب امریکہ اپنی فوج بھیج کر کعبے پر قبضہ چھڑوائے گا اور اس بہانے خلیج کے پورے خطے پر قابض ہو جائے گا۔

ملک بھر میں اس واقعے کے خلاف ہڑتال کی گئی اور جلوس نکالے گئے۔ اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے پر سینکڑوں مشتعل مظاہرین نے دھاوا بول دیا اور عمارت کے بڑے حصے کو آگ لگا دی۔ پولیس کھڑی تماشا دیکھتی رہی۔ آخر امریکہ سے فون آئے تب جنرل ضیاء الحق نے فوج بھیج کر محاصرہ چھڑوایا۔ لیکن اس دوران دو امریکی اہلکار اور سفارت خانے کے دو پاکستانی ملازم مارے جا چکے تھے۔ مظاہرین سے مشنری سکول، امریکن ایکسپریس کا دفتر اور برٹش کونسل لائبریری بھی نہیں بچ سکے۔ بعد میں بنگلہ دیش، بھارت، فلپائن، ترکی اور کویت میں بھی اسی قسم کی مظاہروں اور تشدد کی خبریں آئیں۔ 

خانۂ کعبہ کو آزاد کروانے میں ’میجر مشرف‘ کا کردار؟

جب باغیوں کو کعبہ سے نکال باہر کر دیا گیا تو چند دنوں کے اندر اندر اس قسم کی اطلاعات گردش کرنے لگیں کہ پاکستانی کمانڈوز نے آپریشن میں حصہ لیا تھا۔ جب جنرل مشرف اقتدار میں آئے تو یہ بھی کہا جانے لگا کہ ان کمانڈوز میں وہ بھی شامل تھے۔ 2016 میں ایک نجی چینل کے اینکر جاوید چودھری کے پروگرام میں پاکستانی سیاست دان احمد رضا قصوری نے بھی اسی قسم کا دعویٰ کیا کہ ’میجر پرویز مشرف نے کعبہ سے دہشت گردوں کو فلش آؤٹ کیا۔‘

لیکن اس دعوے کی تردید میں دیر نہیں لگی۔ چند منٹوں کے اندر اندر اسی پروگرام کے دوران بریگیڈیئر جاوید حسین نے فون کر کے کہا کہ یہ بات بالکل غلط ہے اور پاکستانی کمانڈوز اس کارروائی میں شامل نہیں تھے۔  

اور ویسے بھی اگر پرویز مشرف نے اس کارروائی میں حصہ لیا ہوتا تو وہ اس کا ذکر اپنی آپ بیتی ’ان دا لائن آف فائر‘ میں ضرور کرتے۔ اس کتاب میں انہوں نے 1979 کے متفرق واقعات تو لکھے ہیں لیکن مکہ میں ہونے والے کسی آپریشن کا ذکر نہیں کیا۔ بلکہ لکھتے ہیں کہ 1978 میں وہ لیفٹیننٹ کرنل بن گئے تھے (’میجر‘ مشرف والی بات تو یہیں غلط ثابت ہو گئی)۔ آگے چل کر وہ فرماتے ہیں کہ 1979 میں ان کی پوسٹنگ کمانڈ اینڈ سٹاف کالج میں بطور انسٹرکٹر ہو گئی تھی۔ ظاہر ہے کہ ایسی صورتِ حال میں ان کی بطور ’میجر کمانڈو‘ مکہ میں تعیناتی خارج از بحث ہو جاتی ہے۔

اور ویسے بھی جس پرویز مشرف کو ہم جانتے ہیں، وہ بڑے فخر سے اپنے سید ہونے پر ناز کرتے ہیں اور بصد فخر کہتے ہیں کہ میرے لیے خانۂ کعبہ کا دروازہ کھولا گیا تھا۔ ہمارا خیال ہے کہ اگر انہوں نے خانۂ کعبہ کو چھڑوانے میں کوئی کردار ادا کیا ہوتا تو اس کا کہیں نہ کہیں ذکر ضرور کرتے۔ 

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ