ہمارے ٹائم میں سینسر کیا ہوتا تھا؟

حد تو اس وقت ہوتی تھی جب ایسی کوئی فلم ٹی وی پر آتی تھی۔ گانے پورے پورے ختم، ہیرو ہیروئن نے سلام نہیں لیا کہ وہ گیا کیمرہ آسمان پر، بیچ میں جتنا مرضی کوئی ضروری ڈائیلاگ ہو، سوال ہی نہیں ہے بابو صاحب کی کنٹی نیوٹی کسی فلم کے ساتھ پوری ہو جائے۔

وہ جو لوگ کہتے تھے کہ ململ کے دوپٹے میں سے جھانکو، آنکھوں کے آگے چھلنی رکھ کے دیکھو، سب بکواس تھا ۔ (پکسابے)

آج کل کے بچوں کو پتہ کیا ہے جی ہمارا ٹائم کیا ہوتا تھا۔ اچھا خاصا ٹی وی چل رہا ہوتا تھا، عید بقرعید پہ کوئی فلم لگنی، آدھی فلم تو ویسے کٹی ہونی اور باقی آدھی میں کوئی دو کبوتر بھی ایک دوسرے کے پاس آ گئے تو ابا نے جا کے چینل بدل دینا۔ اب سنتے رہو کہ صدر مملکت نے آج سارا دن کس شغل میں گزارا۔ نیچر تک کو بندہ انجوائے نہیں کر سکتا تھا، ہے کہ نہیں؟ 

نیا نیا سی این این چلنا شروع ہوا تھا۔ اکیلے ٹائم میں بڑے شوق سے ہم لوگ انگریزی خبریں لگا کے بیٹھ جاتے۔ اندازے لگا رہے ہوتے، اب آئی گوری، اب آئی، یہ آیا سمندر کا سین، یہ بس ۔۔۔ اور جب کچھ بھی آتا تھا تو ساتھ چوکور ڈبے آ جاتے تھے۔ دل چیخ اٹھتا تھا، دکھا نہیں سکتے تو لگاتے کیوں ہو؟ وہ جو لوگ کہتے تھے کہ ململ کے دوپٹے میں سے جھانکو، آنکھوں کے آگے چھلنی رکھ کے دیکھو، سب بکواس تھا، ایک دم گھٹیا! کچھ بھی نظر نہیں آتا تھا۔ ایویں بندہ چھلنی یا ململ اٹھائے گھر بھر میں مشکوک ہو کے گھومتا رہتا تھا۔ 

اخبار کی بات کر لیں، جمعے مبارک کے دن یہ بیچ والے دو صفحے فلموں کے اشتہار سے بھرے ہوتے تھے۔ کیا کیا فلم آتی تھی بھائی۔ سارے جٹ اور سارے پٹھان دو ہیروئنوں کے ساتھ فلم بناتے تھے اور تین ہیرو ہوتے تھے۔ گھوم پھر کے ہر فلم میں وہی کاسٹ ہوتی تھی۔ لیونے سپے، ٹوپک زما قانون، اتھرا گجر، ات خدا دا ویر اور پتہ نہیں کیا کیا۔ فلموں کے اندر کیمرہ یا زمین پہ رکھ کر شوٹنگ ہوتی تھی یا چھت پر، سامنے والے سین صرف فائٹ کے ہوتے تھے۔ اس سب کے باوجود جب اخبار میں اشتہار چھپتا تھا تو ہر قابل ذکر جگہ پر موٹا سا مارکر پھرا ہوتا تھا۔ انجمن ہیں تو وہ اسی مارکر کے سائے تلے یادوں میں زندہ ہیں، مسرت شاہین ہیں تو ان کی یاد کا منظر اسی جالی کا شکار ہے۔ اخیر تو یہ ہے کہ سینیما کے باہر لگے فوق البھڑک سائن بورڈ جو غریبوں کا واحد آسرا ہوتے تھے ان تک پہ الگ سے لال رنگ کا پوچا لگایا ہوتا تھا۔ سارے نشیب و فراز واضح ہیں لیکن رنگ لال ہے، کیوں؟ بس جی سینسر پالیسی ہے۔ 

حد تو اُس وقت ہوتی تھی جب ایسی کوئی فلم ٹی وی پر آتی تھی۔ گانے پورے پورے ختم، ہیرو ہیروئن نے سلام نہیں لیا کہ وہ گیا کیمرہ آسمان پر، بیچ میں جتنا مرضی کوئی ضروری ڈائیلاگ ہو، سوال ہی نہیں ہے بابو صاحب کی کنٹی نیوٹی کسی فلم کے ساتھ پوری ہو جائے۔ مقصد یہی ہوتا تھا کہ عوام کوئی غیر نصابی سرگرمی نہ دیکھ لیں۔ ڈراموں تک میں بیڈ روم کا نام و نشان نہیں ہوتا تھا۔ ہیروئین گھاس پہ بیٹھ جائے گی لیکن پوری آستین پہن کے ہیرو سے کھلے میں بات کرے گی۔ بات بھی ایسی کہ بس اشارہ، اس زمانے کی آڈینس کی اپنی ایک حِس پی ٹی وی نے ڈیویلپ کر دی تھی جو باقی سب کچھ خود سمجھ جاتے تھے۔ ہائے کیا دور تھا، خبرنامے تک میں جھالر دار چھ فٹ دوپٹے کے اندر کوئی بھی چہرہ بول رہا ہوتا تھا۔ وہ کوکا جو عشرت فاطمہ پہنتی تھیں، اس کے علاوہ آج تک مجال ہے جو خبرنامے سے متعلق کچھ بھی یاد ہو۔ کرنے والے پھر بھی پوری من موج کرتے تھے۔ اس سے بھی کہیں پہلے ریشماں اور پرویز مہدی کا ایک گانا آیا تھا، گورئیے میں جانا پردیس۔ اس میں ذرا دونوں کی مسکراہٹیں، تبادلہ نظر اور کیمسٹری چیک کریں، قسم سے آج کے دور میں بندہ مچل جاتا ہے کہ بھئی کیا کمال بزرگ تھے، درجات ان کے بلند ہوں، سب کچھ پانی کر گئے آنے والوں کے لیے۔ 

انٹرنیٹ تو تھا نہیں، یا دیواریں ہم لوگوں کو طب کی معلومات فراہم کرتی تھیں یا سنڈے میگزین کے بیچ والے صفحے۔ مرد کون ہوتا ہے اور اسے کتنی قسم کی الگ الگ کمزوریاں ہو سکتی ہیں، سب کچھ وہ علم تھا جو چلتے پھرتے حفظ ہوا۔ اب ایک طرف ٹی وی پہ ایسا پہرا ہے کہ چھت کا پنکھا نہیں دیکھتا کوئی، اخبار پہ ایسی روک ہے کہ ہیروئن کو مارکر پھیر پھیر کے کپڑے ٹانگنے والا پلاسٹک کا مینیکوئن بنا دیتے ہیں لیکن دوسری طرف بنگالی باووں اور ہندوستانی حکیموں نے وہ ات چکی ہوئی ہے جس کا حساب کوئی نہیں۔ عام بیماریوں کو تو چھیڑنا ہی نہیں نا، وہ تو کسی کو جیسے کبھی ہوتی ہی نہیں، ہر مرد اور ہر عورت کو جو مخصوص بیماری ہو سکتی ہے بس اس کا علاج ہوتا تھا دیواروں اور اخباروں میں۔ آج بھی ہوتا ہے، بس شدت انٹرنیٹ پہ منتقل ہو گئی ہے۔ 

اپنے دور میں تو بھئی پدرسری اور مادرسری نظام تک کا پتہ کسی کو نہیں ہوتا تھا۔ یہ لفظ بس گالم گلوچ میں استعمال ہوتے تھے۔ خواتین کے پیٹریارکی یا ڈپریشن جیسے مسائل کی جگہ ہمیں صرف وہ مسئلے پتہ ہوتے تھے جو سنڈے میگزین میں خاتونی جیسے نام کی ایک دوا کے ساتھ لکھے ہوتے تھے۔ ماچس کے اوپر پری بھی پورے کپڑوں میں ہوتی تھی اور تبت کریم والی لڑکی اس وقت بھی ستر سال پرانی لگتی تھی۔ میڈورا اور بلیک کیٹ کے اشتہاروں میں خاتون کہنا کیا چاہتی ہیں کبھی سمجھ نہیں آتا تھا۔ کوک کی بوتل تک کا فگر نہیں ہوتا تھا اور ٹیڑھا ہے پر میرا ہے سب کا اپنا اپنا ذاتی مسئلہ ہوتا تھا۔ آزاد عورت کا تصور زیادہ سے زیادہ پروین شاکر ہوتی تھیں کہ اس وقت ٹی وی پہ سب سے زیادہ وہی نظر آتی تھیں کہ جو خوب صورت اور خاتون دونوں ہوں۔ ورنہ تو خبریں تک ایسے چھپتی تھیں کہ مسماہ ف ک مسمی عین گاف کے ساتھ موضع فلاں سے فرار ۔ اب تو جی چٹا بے دید دور آ گیا ہے۔ سب کچھ ذرائع سے آتا ہے اور مبینہ طور پہ ہوتا ہے۔ اب فوج ادارے ہو گئی ہے، ایجنسیاں حساس ادارے ہو گئی ہیں، عدالت مقننہ بن چکی ہے اور جو کام چٹ کپڑے پولس والے کرتے تھے وہ اب ٹویوٹا کے کالے ڈالے میں کسی بھی رنگ کے کپڑوں سے ہو جاتے ہیں۔ 

ہائے ہائے، بندہ کیا کیا یاد کرے۔ کچھ ایسا ویسا چاہیے ہوتا تھا تو یا تو فرانس سے آئے تاش کے پتوں پہ ملتا تھا یا پرانی کتابوں والے کہیں پیچھے گودام سے نکال کر لاتے تھے۔ ویڈیو کیسٹ والوں کو تو جی موت پڑتی تھی ہاتھ کاؤنٹر کے سب سے نچلے خانے کی طرف لے جاتے ہوئے۔ دیسی کمپنیاں گانوں والی کیسٹ نکالتے ہوئے کور خاص طور پہ ایسا ڈیزائن کرتی تھیں کہ کہیں کوئی مستور بے ستری نہ ہو جائے، ریکھا جی کی لپسٹک تک براؤن یا کالی ہوتی تھی کہ دل کسی جگہ ٹک نہ جائے۔ اب کہاں رہ گیا وہ وقت! نئی نسل والو، پتہ ہے شراب اور حسن کا ذکر ہمارے لیے صرف شعروں میں ہوتا تھا۔ بریسٹ کا لفظ تو چکن پیس کے ساتھ بھی نئیں آتا تھا، سیکس ہوتا ہی نہیں تھا۔ یہ لفظ ہوتا کیا ہے ہمیں یہ نہیں پتہ ہوتا تھا۔ قسم سے! کیسا بے حیائی کا دور آ گیا ہے، تم لوگ تو قمیصوں پہ ایف سی یو کے لکھوا کے گھومتے ہو۔ توبہ توبہ۔ 

لیکن یار، اس سب کے باوجود آج ہم بائیس کروڑ سے اوپر نکل گئے ہیں، 1981 میں صرف دس کروڑ ہوتے تھے، ایسے تو وہ فلموں والے کبوتر نہیں ملٹی پلائے ہوتے، کیا فائدہ ایسی آنکھ مچولیوں کا؟ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ