لاہور میں خاتون صحافی کا قتل، مجرم کو سزا دینے کا مطالبہ

عروج اقبال کو 24 نومبر 2019 کو ان کے سابق شوہر نے، جو ایک اخبار کے مالک بھی ہیں صحافت نہ چھوڑنے پر گولیاں مار دی تھیں، وہ موقع پر ہلاک ہوگئی تھیں۔

سابق شوہر  کے ہاتھوں قتل ہونے والی صحافی عروج اقبال۔ (تصویر: آر ایس ایف)  

صحافیوں کے حقوق کے لیے سرگرم عالمی تنظیم رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز یا آر ایس ایف نے ایک بیان میں حکومت پنجاب سے نوجوان خاتون صحافی عروج اقبال کو لاہور میں ان کے سابق شوہر کے ہاتھوں مبینہ طور پر قتل کے واقعے کی تفتیش اور مجرم کو سزا دینے کا مطالبہ کیا ہے۔

عروج اقبال کو 24 نومبر 2019 کو ان کے سابق شوہر نے، جو ایک اخبار کے مالک بھی ہیں، صحافت نہ چھوڑنے پر گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ وہ موقع پر ہلاک ہوگئی تھیں۔

27 سالہ عروج کے بھائی یاسر اقبال نے آر ایس ایف کو بتایا کہ ان کی بہن کی دلاور علی سے 6 اپریل 2019 کو شادی ہوئی تھی لیکن وہ زیادہ دیر نہ چل سکی اور 30 ستمبر 2019 کو ان کی بہن کی طلاق ہوگئی۔ ’دلاور چاہتے تھے کہ عروج اپنا اخبار نہ نکالیں۔ انہوں نے دلاور کے خلاف شکایت بھی درج کروائی تھی کیونکہ وہ انہیں مسلسل دھمکیاں دے رہے تھے اور صحافت چھوڑنے کا دباؤ ڈال رہے تھے۔‘

اس حملے کی تفصیل بتاتے ہوئے انہوں نے کہا: ’جب وہ گھر میں داخل ہو رہی تھیں اس وقت دلاور نے ان پر گولیاں چلا دیں۔ انہیں سر میں گولیاں لگیں اور موقع پر جان دے دی۔‘

بھائی کے مطابق: ’سابق شوہر ان کو اپنا اخبار شروع کرنے سے روک رہے تھے۔‘ وہ ’فرانچائز‘ کے نام سے اپنا اخبار شروع کرنا چاہتی تھیں۔

دلاور علی اپنا اخبار ’اینٹی کرائم‘ چلاتے ہیں، جہاں عروج کو پہلے ملازمت ملی اور بعد میں دونوں نے شادی کر لی۔

یاسر نے قلعہ گوجر خان پولیس سٹیشن میں 25 نومبر 2019 کو ایف آئی آر درج کروائی، جس میں انہوں نے دلاور پر بہن کے قتل کا الزام عائد کیا ہے۔ انہوں نے ایف آئی آر میں الزام عائد کیا کہ دلاور اپنی بیوی کے خلاف تشدد کا استعمال کرتے تھے۔ خاندان کے لوگوں نے ان کی صلح بھی کروائی تھی، لیکن دلاور انہیں ’سنگین نتائج‘ کی دھمکیاں دیتا رہا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ملزم نے مقامی عدالت سے عارضی ضمانت لے رکھی ہے اور اس کی توثیق کی سماعت 14 دسمبر کو متوقع ہے۔

آر ایس ایف کے ایشیا پیسفک ڈیسک کے سربراہ ڈینیئل باسٹرڈ نے بیان میں کہا کہ وہ ’پنجاب پولیس اور عدلیہ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس گھناؤنے جرم کا مرتکب شخص بغیر سزا کے رہ نہ پائے۔ یہ جرم پاکستان میں خواتین صحافیوں کی حالت زار کی عکاسی کرتا ہے جنہیں کھل کر صحافت کرنے کے لیے غیرمعمولی بہادری کی ضرورت ہوتی ہے۔‘

آر ایس ایف کی پاکستان میں ساتھی تنظیم فریڈم نیٹ ورک کے مطابق ملک میں صحافیوں کی مجموعی تعداد کا محض پانچ فیصد خواتین ہیں۔ تنظیم کے مطابق وہ مختلف مشکلات جیسے کہ کم تنخواہوں، ذہنی و جسمانی ہراسانی اور چند مخصوص موضوعات کی رپورٹنگ تک محدود رکھی جاتی ہیں۔

ایوارڈ جیتنے والی صحافی عاصمہ شیرازی نے آر ایس ایف کو بتایا کہ ’خواتین صحافی خوف کے ماحول میں کام کرتی ہیں۔ جب میری شادی ہوئی تو میرا خاندان میری صحافت کو لے کر شدید تشویش میں مبتلا تھا۔ انہوں نے بھی مجھے دھمکیوں سے بچانے کی بجائے صحافت ترک کرنے کا مشورہ دیا تھا۔‘  

زیادہ پڑھی جانے والی دفتر