پارلیمان اجلاس: ایجنڈے پر نہ نیب آرڈیننس، نہ آرمی چیف

حکومت نے اچانک 24 گھنٹے کے نوٹس پر پارلیمان کے دونوں ایوانوں کا اجلاس آج سال کے پہلے دن طلب کر لیا ہے۔ عجلت میں طلب کیے جانے والے اجلاسوں کے بارے میں اپوزیشن جماعتیں حیران ہیں۔

حکومت کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ پارلیمان کو تازہ سیاسی صورت حال پر اعتماد میں لینے کے لیے کیا گیا۔(اے ایف پی)

حکومت نے اچانک 24 گھنٹے کے نوٹس پر پارلیمان کے دونوں ایوانوں کا اجلاس آج یعنی سال کے پہلے دن طلب کر لیا ہے لیکن دونوں ایوانوں کے پہلے دن کے ایجنڈے میں نیب کا نیا قانون یا آرمی چیف کی توسیع سے متعلق قانون سازی شامل نہیں ہے۔

حزب اختلاف کے بعض رہنما حکومت پر طویل عرصے سے قومی اسمبلی اور خصوصاً سینیٹ کے اجلاس نہ بلائے جانے پر تنقید کر رہے تھے، لیکن اب اپوزیشن کی جماعتیں بھی عجلت میں طلب کیے جانے والے اجلاسوں کے بارے میں حیران ہیں۔

سینیٹ کا اجلاس 124 روز کے بعد اپوزیشن کی درخواست پر ہو رہا ہے۔ ایوان بالا کا آخری اجلاس تین ستمبر کو ہوا تھا جب کہ قومی اسمبلی کا اجلاس اچانک 16 دسمبر کو ملتوی کر دیا گیا تھا۔

سینیٹ کا اجلاس سہہ پہر تین بجے جب کہ قومی اسمبلی کا اجلاس شام چار بجے طلب کیا گیا ہے۔  

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

حکومت کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ پارلیمان کو تازہ سیاسی صورت حال پر اعتماد میں لینے کے لیے کیا گیا۔

قومی اسمبلی کے جاری کیے گئے آج کے ایجنڈے پر پاکستان اکیڈمی آف لیٹرز ایکٹ میں ترمیم اور آئینی ترمیمی بل 2019 سے متعلق قائمہ کمیٹی کی رپورٹ کا ایوان میں پیش کیا جانا شامل ہے، جب کہ اس کے مقابلے میں سینیٹ کا ایجنڈا کافی طویل ہے۔ ایوان بالا کے 38 نکاتی ایجنڈے میں اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ 2010 اور فارن ایکسچینج ریگولیشن بل 2019 میں ترامیم شامل ہیں، لیکن نہ تو آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع اور نہ ہی نیب کے قانون میں ترمیم اس ایجنڈے میں شامل ہیں۔    

آئین کے مطابق ایک سال میں قومی اسمبلی کے کم از کم دو سے تین اجلاس ہونے چاہییں اور ایک اجلاس کے بعد دوسرے اجلاس کے انعقاد میں 120 دن سے زائد کا وقفہ نہیں ہونا چاہیے۔

سیاسی تجـزیہ نگاروں کے مطابق آج کے دونوں اجلاس دھواں دھار ثابت ہوسکتے ہیں۔ حزب اختلاف کو نیب میں ترمیم کا آرڈیننس بالکل پسند نہیں آیا ہے اور اس پر حکومت کڑی تنقید کا نشانہ بنی ہوئی ہے۔

تحریک انصاف کی حکومت پر پارلیمان کو گذشتہ سال میں نظر انداز کرنے کا بھی الزام عائد کیا جاتا رہا ہے اور قیاس کیا جارہا ہے کہ شاید ان اجلاسوں سے حکومت پارلیمان کو سیاست کے مرکزی سٹیج پر لانا چاہ رہی ہے۔

وزیر اعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے گذشتہ روز کابینہ کے اجلاس کے بعد ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ حکومت نے نیب قانون کو پارلیمان کے دونوں ایوان سے منظور کروانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ’ہم یہ قانون زبردستی نافذ نہیں کرنا چاہتے، اسی لیے پارلیمان جا رہے ہیں تاکہ حزب اختلاف کے خدشات کو دور کیا جاسکے۔ حکومت اس کا زبردستی اطلاق کرنے نہیں جا رہی، جب پارلیمنٹ کی مہر لگے گی تو یہ قانون بن جائے گا۔‘

حکومت کا کہنا ہے کہ ’اسے احساس ہے کہ سینیٹ میں اپوزیشن کو برتری ہے لہذا ان کا کردار اہم ہوگا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست