’بل کی منظوری سے نظرثانی درخواست غیر موثر نہیں ہوئی‘

منگل کو ہونے والا قومی اسمبلی کا اجلاس بیس منٹ جاری رہا اور 20 منٹ میں ہی تینوں مسلح افواج کے ایکٹ میں ترمیمی بلز کی منظوری ہو گئی۔ 

ائیر فورس اور نیوی ترامیم ایکٹ کے دوران ایک بھی ’نہیں‘ کی آواز نہیں آئی (اے ایف پی)

وزیر قانون فروغ نسیم کا کہنا ہے کہ مسلح افواج ترمیمی بل کی منظوری کے بعد سپریم کورٹ میں دائر نظر ثانی کی درخواست غیر موثر نہیں ہو گی۔

فروغ نسیم نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا ہے کہ سپریم کورٹ میں دائر نظر ثانی کی درخواست کے دو حصے ہیں ایک آرمی چیف کے سلسلے میں جبکہ دوسرا آرمی کے ادارے کے بارے میں ہے، جبکہ ترمیمی بل تو افواج پاکستان کے سربراہان سے متعلق ہے۔

انہوں نے کہا کہ لوگ اس بات کو کنفیوز کر رہے ہیں کہ نظر ثانی کی درخواست کا اب کیا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نظرثانی کی درخواست میں پارلیمنٹ سے کی جانے والی قانون سازی کی تفصیلات سے آگاہ کرے گی۔ 

آرمی ترمیمی ایکٹ کی منظوری کے بعد اس کا اطلاق 27 نومبر 2019 سے ہو رہا ہے تو اس صورت میں 28 نومبر کا عدالت عظمیٰ کا فیصلہ غیر موثر ہو گا کہ نہیں کیونکہ ترمیمی ایکٹ کے مطابق آرمی چیف کی تقرری کسی عدالت میں چیلنج نہیں ہو سکتی۔

اس سوال کے جواب میں سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ یہ بہت باریک قانونی نکتہ ہے جس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ فیصلہ غیر موثر نہیں ہو گا لیکن نظر ثانی درخواست دائر ہی اس لیے کی تھی تاکہ عدالت خود اپنے فیصلے کو ختم کرے۔

عرفان قادر نے کہا کہ نظر ثانی درخواست اپنی جگہ موجود رہے گی کیونکہ حکومت خود چاہتی ہے کہ عدالت عظمیٰ اس قانون سازی کی روشنی میں اپنی حدود کا تعین کرے اور نظرثانی درخواست کے فیصلے میں خود ہی لکھ دے کہ عدالت اپنی حد سے تجاوز نہیں کر سکتی۔ 

مسلح افواج ترمیمی بل کی تفصیلات کیا ہیں؟ 

پاکستان آرمی ترمیمی ایکٹ 2020 منظوری کی صورت میں بل 27 نومبر 2019 سے موثر ہوگا۔ تفصیلات کے مطابق پاکستان آرمی ایکٹ 1952 کی شق 39 میں نیا باب شامل کیا گیا ہے۔ نئے باب میں لکھا گیا ہے کہ صدر مملکت وزیراعظم کے مشورے پر ایک جرنیل کو تین سال کی مدت کے لیے پاک آرمی کا سربراہ مقرر کریں گے۔

آرمی چیف کے عہدے کی قیود و شرائط کا تعین صدر، وزیراعظم کے مشورے سے کریں گے۔ ترمیمی ایکٹ کے مطابق صدر وزیراعظم کے مشورے پر آرمی چیف کی اضافی تین سال کے لیے دوبارہ تقرری یا توسیع دے سکیں گے۔

چیف آف آرمی سٹاف کا تقرر، دوبارہ تقرری یا توسیع اور تقرر کرنے والی اتھارٹی کی صوابدید کسی عدالت میں زیر بحث نہیں لائی جائے گی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

آرمی چیف کے عہدے سے ریٹائرمنٹ کے بعد اگر عمر کی حد 64 سال سے کم ہے تو صدر وزیراعظم کے مشورے پر تین سال کی مدت کے لیے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی بھی مقرر کرسکتے ہیں۔ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کی شرائط کا تعین صدر وزیراعظم کے مشورے سے کریں گے۔ 

ترمیمی ایکٹ کے مطابق صرف آرمی چیف ہی نہیں بلکہ قومی سلامتی کے مفاد یا ہنگامی صورتحال پر صدر وزیراعظم کے مشورے سے چیئرمین جوائنٹ چیف کی بھی دوبارہ تقرری یا تین سال کے لیے توسیع ہو سکتی ہے۔ یہی ترامیم فضائیہ اور نیوی کے لیے بھی ہیں۔ 

تینوں مسلح افواج کے سربراہان پر عمر کی حد 64 سال مقرر کی گئی ہے۔

20 منٹ میں مسلح افواج کے تینوں بل منظور

منگل کو ہونے والا قومی اسمبلی کا اجلاس بیس منٹ جاری رہا اور 20 منٹ میں ہی تینوں مسلح افواج کے ایکٹ میں ترمیمی بلز کی منظوری ہو گئی۔ 

ایوان کی کارروائی شروع ہوئی اور جب بل کے لیے ووٹنگ کا عمل شروع ہوا تو اسمبلی میں بیٹھے زیادہ تر اراکین نے ہاں جبکہ جے یو آئی ایف اور پی ٹی ایم نے رائے شماری کے دوران شور شرابا کیا لیکن کثرت رائے سے بل منظور کر لیا گیا۔ جے یو آئی ایف نے واک آؤٹ کر دیا اور پی ٹی ایم کے علی وزیر اور محسن داوڑ نے سپیکر قومی اسمبلی کے سامنے بل پھاڑ کر پھینک دیا اور ایوان سے باہر چلے گئے۔

ایوان کی کارروائی شروع ہونے سے قبل وزیراعظم عمران خان کے چہرے پر فکرمندی کے تاثرات واضح تھے لیکن بل منظور کروانے کے دوران حکومتی وزرا آپس میں خوش گپیوں میں مصروف رہے۔ جیسے جیسے بل منظور ہوتے گئے حکمران جماعت کے چہروں سے فکرمندی کے اثرات ختم ہو گئے۔

سارا شور پاکستان آرمی ایکٹ ترمیم کے دوران ہی ہوا۔ ائیر فورس اور نیوی ترامیم ایکٹ کے دوران ایک بھی ’نہیں‘ کی آواز نہیں آئی اور تب تک جے یو آئی ایف اور پی ٹی ایم والے اسمبلی سے واک آؤٹ کر چکے تھے۔ 

ساتھ بیٹھے صحافی عدیل وڑائچ نے رائے دی کہ لگتا ہے سارا جوش صرف پاکستان آرمی ایکٹ کے لیے تھا ائیر فورس اور نیوی کی ووٹنگ کے وقت تک سب خوش گپیوں میں مصروف ہیں اور بل خود بہ خود ہی منظور گئے۔

ایوان کی کارروائی ملتوی ہونے کے بعد ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے اراکین فوراً ہی چلے گئے اور میڈیا نمائندگان سے کم ہی ملاقات کی۔ 

سینیئر پارلیمانی صحافی خالد محمود نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پارلیمنٹ سے پاس ہونے والے قانون کو کسی بھی فورم پر چیلنج نہیں کیا جا سکتا کیونکہ پارلیمنٹ سپریم ادارہ ہے اور صرف اُسی کے پاس آئینی ترمیم کرنے کا اختیار ہے۔ 

کسی نکتہ پر عدالت سے رجوع کرنے کی صورت میں عدالت اس قانون سازی کی کسی شق میں تشریح یا وضاحت کر سکتی ہے لیکن پارلیمنٹ کے پاس کردہ قانون میں تبدیلی نہیں کر سکتی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان