سلیمانی کی ہلاکت پر ٹرمپ کی خاموشی برطانیہ کے لیے صدمہ

یہ شرم کی بات تھی بلکہ کسی حد تک ذلت آمیز بھی کہ امریکہ نے ایرانی جنرل قاسم سلیمانی پر حملہ کرنے سے پہلے برطانوی وزیر اعظم کو آگاہ نہیں کیا۔

(فائل تصویر: اے ایف پی)

قدیم افریقی کہاوت ہے کہ جب ہاتھی لڑتے ہیں تو نقصان گھاس کا ہوتا ہے۔ برطانیہ اس وقت ایک مسلی ہوئی گھاس کی طرح محسوس کر رہا ہے، جس کی وجہ برطانوی حکومت کے شریکِ جنگ دوست ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے کی جانے والی متعدد لڑائیاں ہیں۔

یہ شرم کی بات تھی بلکہ کسی حد تک ذلت آمیز بھی کہ امریکہ نے ایرانی جنرل قاسم سلیمانی پر حملہ کرنے سے پہلے برطانوی وزیراعظم کو آگاہ نہیں کیا۔ یہ واضح نہیں ہے کہ آیا ٹرمپ اپنے برطانوی اتحادیوں پر بھروسہ نہیں کرتے کہ انہیں خفیہ فوجی معلومات میں شریک کیا جائے یا انہوں نے ہمیں اتنا اہم ہی نہیں سمجھا کہ مروتاً ایک کال ہی کر سکیں۔ وجہ جو بھی ہو اس بارے میں نظر انداز کرنا حقارت بھری بات تھی کیونکہ 179 برطانوی فوجی عراق میں امریکی فوج کی حمایت کرتے ہوئے ہلاک ہو چکے ہیں۔

اگر یہ صرف عزت و وقار کے کھو جانے کا معاملہ ہوتا تو شاید یہ اتنا اہم نہ ہوتا۔ ٹرمپ مروت پر یقین نہیں رکھتے اور شاید ہمیں ان کی صاف گوئی کو سراہنا چاہیے کیونکہ یہ تعلق شاید برطانیہ کے لیے خاص ہو لیکن اب یہ امریکہ کے لیے خاص نہیں ہے۔ لیکن اس معاملے میں برطانیہ کے اصل مفادات داؤ پر لگے ہیں۔

برطانوی سفیر روب میکائر جنہیں تہران میں کئی گھنٹے کے لیے حراست میں لیا گیا، ان کا تجربہ یہ ثابت کرتا ہے کہ جب برطانیہ درست طرز عمل اپنا رہا ہے تب بھی ہم نشانہ بن رہے ہیں۔400 برطانوی فوجی عراقی فوج کی تربیت میں مصروف ہیں۔ وہ خطرے میں ہیں۔ بالکل اسی طرح خلیج میں موجود برطانوی شہری بھی خطرے میں ہیں۔

نازنین زاغری ریٹکلف ایران کی یرغمال بن چکی ہیں، ان کی قید سیاسی حالات کے پیش نظر کم یا زیادہ ہو سکتی ہے۔ ایرانی بورس جانسن کے شرمناک کردار سے واقف ہیں جو ان کے دفاع کو کمزور کرتا ہے۔ ایسے بہت سے مواقعے ملیں گے جس میں خطے میں فوجی موجودگی رکھنے والے امریکی اتحادی سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جائے گی۔

جوہری ہتھیار رکھنے والے ملک برطانیہ کا قانونی اور سیاسی فائدہ اسی میں ہے کہ جوہری پھیلاؤ نہ ہو اور ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ قائم رہے۔ برطانیہ ایران کے ساتھ کیے گئے معاہدے کے معاملے میں امریکہ کی نسبت یورپ کے زیادہ قریب ہے۔

جو بھی اس پیچیدہ خطے کو سمجھنا چاہے اسے بوب وڈوارڈ کی ٹرمپ کے وائٹ ہاؤس میں زندگی پر مزاحیہ مشاہداتی تبصرہ پڑھنا چاہیے۔

اس میں ایک موقعے پر سیکرٹری ریکس ٹلرسن ٹرمپ سے کہتے ہیں کہ وہ ایران کے تعاون نہ کرنے کے عدم ثبوت کی بنیاد پر معاہدے کو توسیع دے دیں۔ لیکن ٹرمپ بضد ہیں کہ چونکہ وہ اس معاہدے کو ختم کرنے کا فیصلہ کر چکے ہیں تو عدم ثبوت کی ایک نئی تعریف لانی ہو گی۔

برطانیہ اب ایک عجیب مخمصے میں پھنسا ہے۔ معاہدے کو زندہ رکھ کر امریکہ کی مخالفت کی جائے یا امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے کیے جانے والے پیشگی حملوں، جو کہ ایران کے مبینہ جوہری پروگرام کو روکنے کے لیے ضروری تھے، کا ساتھ دیا جائے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

شاید ایران کا بحران کچھ وقت تک کم ہو جائے کیونکہ آخر کار کچھ مشترکات موجود ہیں۔ ایران خطے سے امریکی فوجیوں کا انخلا چاہتا ہے اور ٹرمپ خطے سے اپنے فوجی نکالنا چاہتے ہیں۔ لیکن ابھی بھی کچھ معاملات چل رہے ہیں جن کا تعلق عزت، انتقام اور فیس سیونگ سے ہے اور اگر یہ جذبات ٹھنڈے دماغ پر غلبہ پا لیتے ہیں تو برطانوی مفادات کولیٹرل ڈیمیج کا حصہ ہوں گے۔

کچھ ایسا ہی معاملہ کم متشدد لیکن زیادہ اہم دو سپر پاورز کے درمیان تجارت، ٹیکنالوجی اور سکیورٹی کے حوالے سے پائے جانے اختلافات ہیں۔ ٹرمپ کا امریکہ اور شی جنگ پنگ کا چین۔ اس معاملے میں حالیہ ٹھہراؤ چین امریکہ تجارتی جنگ کے درمیان ایک عارضی وقفہ ہے۔ ٹرمپ کی تجارت سے انجان لیکن باہمی تجارتی خسارے سے جڑے جنون کا مذاق اڑانا آسان ہے، لیکن وہ ان کے خاتمے کے بارے میں سنجیدہ ہیں۔

یہ بھی سچ ہے کہ اس بارے میں کئی ممالک میں بڑے تحفظات پائے جاتے ہیں۔ چین مغربی منڈیوں اور ٹیکنالوجی تک رسائی حاصل کر نے والے لبرل کثیر الجہتی تجارتی نظام پر آزادانہ سوار رہا ہے، لیکن اس کی جانب سے جواب میں یہ اجازت نہیں دی گئی۔ شی جنگ پنگ کی غصیلی خاموشی اور زبردستی کی قوم پرستی جلتی پر تیل کا کام کر رہی ہے۔

یہ بھی ممکن ہے کہ یہ تجارتی جنگ اگلے کچھ ماہ میں ابلنے کی بجائے محض سلگتی رہے۔ چینی بہت سمجھدار ہیں اور وہ سمجھ چکے ہیں کہ وہ تجارتی خسارے پر ٹرمپ کی تشویش کو کچھ پیشکش کر کے کم کرتے ہوئے اپنے وسیع مقاصد حاصل کر سکتے ہیں۔ وہ اس بارے میں اندازے لگانے میں بھی درست ہیں کہ صدر ٹرمپ الیکشن کے سال میں امریکی معیشت کو خطرناک جھٹکوں سے بچانے کے لیے وال سٹریٹ کا تحفظ کریں گے۔

لیکن برطانیہ کی سلک روڈ کے دوسرے حصے پر دولت حاصل کرنے کی امیدیں ناامیدی میں بدل چکی ہیں۔ کیمرون اور اوسبورن کی چینیوں سے محبت کا ’سنہری دور‘ کب کا ختم ہو چکا ہے۔ ٹریزامے کی جانب سے ہواوے کے معاملے پر کیا جانے والا شفاف سمجھوتہ جس میں چینی کمپنیوں کو فائیو جی کے حساس نیٹ ورک سے دور رکھا گیا لیکن دوسرے حصوں میں ان کی ایجادات اور مقابلے کو خوش آمدید کہا گیا، اب بڑے خطرے میں ہے۔

اگلے چند ہفتوں میں ہواوے کے بارے میں آخری فیصلہ کرنا ہماری مجبوری ہو گی اور برطانوی اس حوالے سے غیر یقینی صورت حال کا شکار ہوں گے۔ ہم اس لوہے کے پردے کی غلط سمت پر جانے کے متحمل نہیں ہو سکتے جو تبادلاتی ٹیکنالوجی کو تقسیم کر کے رکھ دے گا۔

یقینی طور پر یہ پہلا موقع نہیں ہو گا جب برطانیہ اور امریکہ کے مفادات مختلف ہوں گے۔

 سویز ایسا ہی تھا، ولسن کا ویت نام فوج بھیجنے سے انکار کرنا بھی ایک اور ایسا ہی معاملہ تھا۔ مارگریٹ تھیچر کاامریکی مخالفت کے باوجود سوویت یونین سے توانائی پائپ لانا بھی ایسا ہی تھا۔ لیکن تب برطانیہ کے اس خیال میں کچھ دم تھا کہ برطانیہ ایک اہم کھلاڑی ہے۔ لیکن اب ایسا ظاہر کرنا قابل اعتبار نہیں ہے۔ اب ہم سفارتی حمایت کے لیے یورپی یونین کی جانب نہیں دیکھ سکتے۔

اب نام نہاد نیو کونز کے لیے میدان زیادہ ہموار ہو گا جو کافی عرصے سے یہ کہتے آئے ہیں کہ ہمارا مستقبل انگریزی بولنے والی اقوام کے مفادات کے تابع ہے۔ وہ کہیں گے کہ ہم ایک جنگجو ہاتھی کی پشت پر اپنے کردار کو قبول کریں اور اسے خوش آمدید کہیں تاکہ اس کے پیروں تلے کچلے جانے سے بچ سکیں۔ اگر ایسا ہی تو ہمارا مستقبل اٹلانٹک کے اس پار کینیڈا سے جڑا ہے، سوائے ان علاقوں کے جہاں ہسپانوی زبان بولی جاتی ہے۔

کینیڈین شہری آپ کو تجارت اور کئی اور حوالوں سے بتائیں گے کہ یہ آسان نہیں ہے۔ اب جب ہم یورپ کو ٹھوکر مار چکے ہیں تو شاید ہم اسی بہتری کی امید کر سکتے ہیں۔

سر ونس کیبل لبرل ڈیموکریٹس پارٹی کے سابق رہنما ہیں اور وہ سیکرٹری تجارت رہ چکے ہیں۔

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ