’اے کڑی لاہور دی اے، ٹرائی کرکے ویکھ لے‘

آج سے دس سال قبل جب ہمیں انجان نمبروں سے کال یا پیغامات موصول ہوتے تھے تو ہم سوچتے تھے کہ یہ لوگ کون ہیں اور ہمیں کال کیوں کر رہے ہیں؟ آج مزدور بھائی نے ہمارے تمام سوالات کے جواب دے دیے۔

اب بھی سوشل میڈیا پر خواتین کا سب سے بڑا مسئلہ اجنبیوں کی طرف سے بھیجے جانے والے پیغامات ہیں (تصویر: پکسا بے)

پاکستان میں موبائل فون 90 کی دہائی میں آنا شروع ہوئے۔ تب یہ کوئی توپ قسم کی چیز سمجھے جاتے تھے۔ تب فون بھی مہنگے تھے اور سم کارڈ بھی۔ اس وقت سم کارڈ کی قیمت ہزاروں روپے ہوتی تھی اور کال اور ایس ایم ایس ریٹ بھی کافی زیادہ ہوتے تھے۔

بھلا ہو چینیوں کا جنہوں نے سستے فون پاکستان پہنچائے تو یہ سہولت ہر ایک کے ہاتھ میں پہنچی۔ ہمارے ہاں اس پر بھی پھڈا ہو گیا۔ بچوں کو موبائل فون کیوں چاہییں؟ ان کے ایسے کون سے کاروبار ہیں جس کے لیے ہر وقت فون درکار ہے؟ کئی سال تو اسی بحث میں گزر گئے۔ جب دیکھا کہ موبائل ہر ایک کی ضرورت بن چکا ہے تو ہمیں بھی ایک عدد فون دے دیا گیا۔ تب تک ’اورکٹ‘ کا زمانہ گزر چکا تھا اور لوگ فیس بک کو بور تصور کرنے لگے تھے۔ 

پاکستان میں اس وقت ٹو جی چلتا تھا۔ وٹس ایپ کی جگہ ایس ایم ایس کیے جاتے تھے اور کال کی جگہ مِس کال۔ جن کے پاس جانو تھے، وہ نائٹ پیکج پر رات بھر جانو جانو کرتے اور جن کے پاس یہ سہولت میسر نہیں تھی وہ اِدھر اُدھر سے لڑکی کا نمبر حاصل کرکے اسے حسبِ توفیق کال اور ایس ایم ایس بھیجتے۔ دوسری طرف سے لڑکی کی تصدیق ہونے کے بعد اس کا نمبر اِدھر اُدھر یار دوستوں میں بھی بانٹ دیتے تھے۔

اف اتنی کوفت ہوتی تھی۔ گھر والوں کے ساتھ بیٹھے ہیں۔ ایک دم فون بجنا شروع ہو گیا۔ انجان نمبر۔ پتہ ہے کہ کوئی لچا لفنگا ہوگا لیکن اب کیا کریں۔ گھر والوں کی نظریں بھی وہیں ٹکی ہیں۔ فون اٹھائیں تو مصیبت، نہ اٹھائیں تو مصیبت۔ اگر گھر والوں کو پتہ چل گیا کہ انجان نمبر سے کسی لڑکے کا فون ہے تو کہیں وہ موبائل ہی واپس نہ لے لیں۔ اس کا حل سائلنٹ موڈ کی صورت میں نکالا۔ فون کی گھنٹی ہی بند کر دی۔ کبھی غصہ چڑھتا تو کال اٹھا کر سنا بھی دیتے۔ آگے جو بیٹھے ہوتے، ان کی عید اسی میں ہو جاتی تھی۔

کال کے علاوہ ایس ایم ایس الگ ہوتے تھے۔ بات سنو، کال تو اٹھاؤ، ناراض ہو، میری آواز پسند نہیں آئی، کے علاوہ تیسرے درجے کی شاعری سے ہمارا ایس ایم ایس کا فولڈر بھرا رہتا تھا۔ رمضان شروع ہوتا تو سحری اور افطاری کے وقت مبارک باد کے پیغامات بھی موصول ہونا شروع ہو جاتے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جدید سمارٹ فون آئے تو ان میں بلاک کا فیچر بھی آ گیا۔ ایک بٹن دباؤ اور نمبر بلاک کر دو۔ تھری جی اور فور جی آںے کے بعد سوشل میڈیا کا استعمال بڑھ گیا۔ لوگوں کی دلچسپیاں بڑھ گئی۔ جو لوگ کچھ سال پہلے تک انجان نمبروں پر کال کرتے تھے، اب فیس بک پر پیغام بھیجنے لگے۔ ہم نے تب سکرین شاٹ لگانے شروع کر دیے اور وہاں ہم بدنام ہو گئے۔ پیغام بھیجنے والے کا دوسرے کی مرضی کے بغیر پیغام بھیجنا اس کا حق ٹھہرا اور ہمارا اسے سب کے سامنے شرمندہ کرنا قصور ٹھہرا۔

سوشل میڈیا پلیٹ فارمز نے بھی سکیورٹی فیچرز بڑھا دیے جس کے بعد یہ سلسلہ کم ہوتا گیا لیکن اب بھی سوشل میڈیا پر خواتین کا سب سے بڑا مسئلہ اجنبیوں کی طرف سے بھیجے جانے والے پیغامات ہیں۔ ہر پلیٹ فارم پر بلاک کا آپشن بھی موجود ہے لیکن یہ ذمہ داری بھی خواتین پر کیوں ڈال دی گئی ہے؟ جو انجان لوگوں کو پیغامات بھیجتے ہیں، انہیں کیوں نہیں روکا جاتا؟

ہمیں لگا کہ اب یہ سلسلہ ختم ہو چکا ہوگا لیکن نہیں، ابھی بھی کئی لوگوں کے ہاں ’جب تک ہے جان‘ والا معاملہ ہے۔ کچھ ماہ سے ایک غیر ملکی نمبر سے وٹس ایپ پر اسی قسم کے پیغامات موصول ہو رہے تھے۔ گوگل پر کنٹری کوڈ ڈالا تو وہ ملیشیا کا نکلا۔ ہمارے ایک بہت قریبی دوست ملیشیا میں مقیم ہیں۔ انہیں وہ نمبر بھیجا تاکہ وہ کال کرکے مزید معلومات حاصل کر سکیں۔ ہمارے دوست نے اگلے روز اس نمبر پر فون کیا تو پتہ چلا وہ نمبر کوالالمپور میں مقیم ایک پاکستانی مزدور کا ہے اور ان کا تعلق بہاولپور سے ہے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ یہ نمبر انہیں کہاں سے ملا اور وہ کیوں پیغامات بھیج رہے ہیں تو کہنے لگے کہ انہیں یہ نمبر کسی دوست نے دیا تھا اور کہا تھا: ’اے کڑی لاہور دی اے، ٹرائی کرکے ویکھ لے‘ تو وہ بس ’ٹرائی‘ کر رہے تھے۔

آج سے دس سال قبل جب ہمیں انجان نمبروں سے کال یا پیغامات موصول ہوتے تھے تو ہم سوچتے تھے کہ یہ لوگ کون ہیں اور ہمیں کال کیوں کر رہے ہیں؟ آج مزدور بھائی نے ہمارے تمام سوالات کے جواب دے دیے۔

’اے کڑی لاہور دی اے، ٹرائی کر کے ویکھ لے،‘ جانے مزدور بھائی کو لاہور کی لڑکیوں کے بارے میں کیا کچھ بتایا گیا تھا اور کس امید سے وہ ہر ہفتے مجھے وٹس ایپ پیغامات بھیجتے رہے۔ ٹرائی کرنے کا مشورہ دیا گیا تھا اور وہ اس مشورے پر دل و جان سے عمل کر رہے تھے۔ بلاک کے آپشن نے ان کی ساری امیدوں پر پانی پھیر دیا۔

ہمارا تعلق لاہور سے ضرور ہے لیکن ہماری طرف وقت آگے بڑھ چکا ہے۔ مزدور بھائی ابھی دس سال پہلے کے دور میں جی رہے ہیں۔ بلاک کرنے کے بعد ہمیں خیال آیا کہ ٹنڈر والا بلاگ ہی انہیں بھیج دیتے۔ ہمارے لکھے سے کسی کا بھلا ہو جائے اس سے زیادہ ہم کیا چاہ سکتے ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ