امریکی سینٹ میں جاری صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مواخذے کا ٹرائل بدھ کو اپنے اختتام پر پہنچا جب سینٹ نے صدر کو اختیارات کے غلط استعمال اور کانگریس کے کام میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کے الزامات سے بری کر دیا۔
امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق مواخذے کی پہلی شق، اختیارات کے غلط استعمال، پر ٹرمپ کو بری کرنے کے حق میں 52 اور خلاف 48 ووٹ پڑے، جبکہ دوسری شق، کانگریس کے کام میں رکاوٹیں ڈالنے کے الزام میں ان کو بری کرنے کے حق میں 53 اور خلاف 47 ووٹ ڈالے گئے۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جان رابرٹس نے بدھ کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مواخذے کی کارروائی کی صدارت کی۔ ’غیر جانب دارانہ انصاف‘ کرنے کا حلف اٹھانے والے ارکان سینٹ نے اپنا نام پکارے جانے پر کھڑے ہو کر ووٹ دیا۔
ہر سینیٹر سے پوچھا گیا کہ وہ صدر ٹرمپ کو قانون شکنی میں ملوث سمجھتے ہیں یا نہیں۔ ارکان سینٹ نے پارٹی وابستگی کی بنیاد پر ووٹ دیا۔
صدر ٹرمپ کی مخالف سیاسی جماعت ڈیموکریٹک پارٹی کے تمام ارکان نے امریکی صدر کو اختیارات کے غلط استعمال اور کانگریس کی راہ میں روڑے اٹکانے میں ملوث قرار دیا جبکہ حکمران جماعت ری پبلکن پارٹی کے صرف ایک سینیٹر مِٹ رومنی، جن کا تعلق ریاست اوٹاہ سے ہے، نے حکومت کی مخالف کرتے ہوئے ووٹ دیا۔ انہوں نے صدر ٹرمپ پر اختیارات کے غلط استعمال کے الزام کے حق میں ووٹ دیا۔
ووٹ ڈالنے کا عمل مکمل ہونے پر چیف جسٹس نے صدر ٹرمپ کو دونوں الزامات سے بری قرار دیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سینیٹ میں صدر ٹرمپ کے حق میں فیصلہ آنے کے بعد وہ اس سال نومبر میں ایک بار پھر صدارتی الیکشن لڑنے والے امیداروں کی فہرست میں شامل ہوگئے ہیں۔
صدر ٹرمپ کے خلاف مواخذے کے مقدمے میں ان کا دفاع کرنے والی قانونی ٹیم مواخذے کی کارروائی کو 2020 کے صدارتی الیکشن میں مداخلت کی ایک ’غیر قانونی اور شرمناک‘ کوشش قرار دیے چکے ہیں جبکہ صدر خود اسے کئی بار ایک ’دھوکہ‘ کہہ چکے ہیں۔
ٹرمپ مواخذے کی کارروائی کا سامنا کرنے والے تیسرے امریکی صدر ہیں۔ اس سے پہلے امریکہ کے سابق صدر اینڈریو جانسن اور بل کلنٹن کو مواخذے کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ٹرمپ کی طرح دونوں کو سینٹ نے بری کر دیا تھا۔
تاہم سینٹ میں الزامات سے بری ہونے کے باوجود صدر ٹرمپ پر مزید تحقیقات کا خطرہ ٹلا نہیں ہے۔ بدھ کی ووٹنگ کا نتیجہ تحقیقات کے طویل عمل کا نکتہ آغاز ثابت ہو سکتا جس کا کوئی واضح نتیجہ نہ ہو۔
ایسوسی ایٹیڈ پریس کے مطابق صدر ٹرمپ کے یوکرین کے ساتھ تعلقات کی ابھی پوری طرح سے چھان بین باقی ہے جس میں خاص طور پر ان کے ذاتی وکیل روڈی جولیانی کی فارن پالیسی میں مداخلت کی کوششیوں پر نطر ڈالنا شامل ہے۔
اب جب صدر ٹرمپ دوبارہ الیکشن جیتنے کی کوشش میں لگ جائیں گے تو کچھ اور وقت کی بات ہے کہ ان کے حوالے سے نئی تفصیلات، یا مزید عینی شاہدین اور دستاویزات سامنے آئیں۔ ممکن ہے کہ سابق قومی سلامتی کے مشیر جون بولٹن کی مارچ میں آنے والی نئی کتاب میں بھی نئے انکشافات ہوں۔
سینٹ میں صدر ٹرمپ کے خلاف مواخذے کی کارروائی میں پیش پیش ایوان کی انٹیلیجنس کمیٹی کے سربراہ ایڈم شِف نے اے پی کو انٹرویو میں کہا کہ ہر روز ایک نئی بات سامنے آئے گی۔
ان کا کہنا تھا: ’حقیقت میں ہر روز اور ہر ہفتے ایک نئی بات سامنے آئے گی اور واقعی ایسا ہوا بھی ہے۔‘
شِف کا کہنا تھا کہ سینٹ نے یہ ووٹ تو دے دیا کہ قومی سلامتی کے سابق مشیر جان بولٹن کی گواہی نہیں سنی جائے گی لیکن اس حوالے سے کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوا کہ انہیں ایوان میں طلب کیا جائے گا یا نہیں۔
انہوں نے مزید کہا: ’صدر کے کردار میں بنیادی خامیاں اور ان کا الیکشن میں دھوکہ دینے کے لیے تیار رہنا ختم نہیں ہو گا۔ کوئی چیز تبدیل نہیں ہوگی جس کا مطلب ہے کہ ہمیں ہمیشہ چوکنا رہنا ہے۔‘
خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق مواخذے کی کارروائی سے بری ہونے کا ممکنہ مطلب ہو سکتا ہے کہ اب ٹرمپ بلا خوف وخطر اپنے عہدے کا غلط استعمال کریں۔
ایڈم شِف کے مطابق ٹرمپ تبدیل نہیں ہوں گے۔ ’کسی کردار یا اخلاقی معیار سے عاری شخص کو کھبی اپنا راستہ نہیں ملے گا۔‘
ری پبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے حکمت عملی کے ماہر رِک ولسن نے ٹرمپ کی مخالفت میں بدھ کو اخبار ’ڈیلی بیسٹ‘ میں شائع ہونے والے کالم میں لکھا ہے کہ وہ ’ہتھے سے اکھڑے اور بے قابو‘ ٹرمپ کو دیکھ رہے ہیں جو ’انتقام‘ کا خواب دیکھ رہے ہیں۔