کیا میرے میڈیا سٹوڈنٹس کو نوکری مل جائے گی؟

جو سوال ہمیشہ مجھے بے چین کیے رکھتا ہے وہ یہ ہے کہ کیا میرے طالب علموں کو ڈگری لینے کے بعد ملازمت مل جائے گی۔

میں اکثر وبیشتر کلاس لینے کے بعد اپنے آپ سے کچھ سوالات کرتا ہوں۔ جس میں کچھ سوالات کے جواب مجھے مل جاتے ہیں جبکہ کچھ سوال صرف سوال ہی رہ جاتے ہیں کیونکہ ان کے جواب میرے پاس نہیں ہوتے۔

ان سوالات کے جوابات ڈھونڈنے کے لیے میں پھر کوشش کرتا ہوں مگر اس دوران کچھ مزید سوالات ذہن میں آ کر ان سوالات کی جگہ گھیر لیتے ہیں۔ ان سوالات میں ایک سوال یہ لازمی ہوتا ہے کہ کیا جو آج میں نے پڑھایا وہ طلبہ و طالبات کے ذہن میں بیٹھ گیا ہے؟ جو مثالیں دیں کیا وہ اپ ٹوڈیٹ تھیں؟ کیا میں نے پڑھانے کے ساتھ انصاف کیا؟ جو سوال ہمیشہ مجھے بے چین کیے رکھتا ہے وہ یہ ہے کہ کیا میرے طالب علموں کو ڈگری لینے کے بعد ملازمت مل جائے گی۔ جس طرح تکلیفات ہم اٹھارہے ہیں یا کافی حد تک ہم اٹھا چکے ہیں ہمارے طلبہ بھی انہیں تکلیفوں سے گزریں گے؟ ان کے ساتھ بھی کوئی سفارشی انٹرویو میں آئے گا۔ کوئی سیاسی اپروچ والا بندہ ان کے ساتھ بھی انٹرویو یا ٹیسٹ میں ہو گا؟ وہ ٹیسٹ ٹاپ کر جائیں گے مگر انٹرویو میں ان کے ساتھ دھاندلی کی جائے گی؟

جس طرح ہمیشہ قابل لوگوں کے ساتھ ہوتا آیا ہے۔ شاید میری طرح یہ سوال ہر استاد کا ہو۔ اور وہ اس سوال کا جواب ڈھونڈنے میں پریشانی کا شکار ہو جائے کیونکہ ملک کے جو حالات چل رہے ہیں اس میں ملازمت کا ملنا مشکل نہیں بلکہ ناممکن ہے کیونکہ جب ماسٹر اور ایم فل کے بعد نوکری نہ ملے اور پھر طالب علم پی ایچ ڈی اس امید سے کرے کہ مجھے نوکری مل جائے گی مگر جب وہ بے روزگار پی ایچ ڈیز کو دیکھتا ہے اور یونیورسٹیوں کے چکر لگاتا ہے، ہائیر ایجوکیشن کمیشن میں دھکے کھاتا ہے، منسٹروں کی سفارشیں پی ایچ ڈی کرنے کے بعد بھی جاری رہتی ہے تو رہی سہی امید بھی دم توڑ جاتی ہے۔

خیبر پختونخوا کی وومن یونیورسٹی صوابی میں دو سال پہلے شعبہ میڈیا سٹڈیز کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔ امسال وہاں کی چار لڑکیاں شعبہ سے فارغ التحصیل ہوگئی ہیں اور اب وہ صحافت کے میدان میں جانے کے لیے تیار ہیں۔ ان کا جاتے جاتے یہ سوال مجھے پریشان کر گیا ہے کہ ’سر کیا ہمیں جاب مل جائے گی؟ کیونکہ جو میڈیا کے حالات چل رہے ہیں اس میں تو نہیں لگتا کہ کچھ خاص ہو۔ ہم اتنے عمل طور پر مضبوط بھی نہیں کہ آسانی سے ملازمت حاصل کریں۔{ ان  کی خواش ہے کہ وہ اب اس شعبے میں جا کر اپنا نام روشن کریں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ملازمت ملنے کے ساتھ ساتھ ان کے سامنے ایک لمبی رواجوں کی ڈور بھی سر اٹھائے کھڑی ہے۔ جس معاشرے میں مرد کا میڈیا میں کام کرنا برا تصور کیا جاتا ہے وہاں خواتین کی کیا اوقات ہے! ان طالبات نے جیسے تیسے کر کے اس شعبے میں قدم تو رکھ لیا تھا۔ اپنے خاندان والوں کو یہ باور کرایا تھا کہ میڈیا میں صرف ٹی وی پر نظر آنا نہیں ہوتا بلکہ بیک گراونڈ میں سب سے زیادہ لوگ کام کرتے ہیں جس میں خواتین کی بھی ایک بہت بڑی تعداد ہے۔ مگر ہمارے پختون معاشر ے میں گھر والوں کو تو سمجھایا جا سکتا ہے مگر رشتہ داروں کو نہیں سمجھایا جا سکتا۔ وہاں اب بِھی اگر کہا جائے کہ لڑکا ٹی وی یا ریڈیو میں کام کرتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ یہ گناہ کا کام ہے اور یا پھر میراثی اور ڈم تصور کیا جاتا ہے پھر یہ تو خواتین ہیں جو میڈیا کی تعلیم حاصل کرتی ہیں۔

اس سوچ کی بنا پر صوبہ خیبر پختونخوا میں اس شعبہ میں لڑکیوں کی تعداد سب سے کم ہے۔ خاص کر اس شعبہ میں خواتین ٹیچرز کی کھپت ہے۔ اس یونیورسٹی میں جب فیکلٹی کی ضرورت پڑی تو صوبہ خیبر پختونخوا سے صرف دو تین ہی لڑکیاں تھیں جو ہائر ایجوکیشن کمیشن کے معیار پر پورا اترتی تھیں۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ خواتین کتنی کم ہیں اور جو ہیں وہ پنجاب کے شہروں سے تعلق رکھتی ہیں۔

اس صوبے میں میڈیا کے شعبہ میں اس وجہ سے لڑکیاں نہیں آتیں کیونکہ انہیں خاندان والے اگے جانے نہیں دیتے۔ اس شعبہ سے فارغ التحصیل ہونے والی یہ لڑکیاں ضلع صوابی اور نوشہرہ سے تعلق رکھتی ہیں جنہوں نے بی ایس سی زوالوجی میں کی تھی مگر میڈیا کا شعبہ جوائن کر لیا۔ جہاں یونیورسٹی میں ان کے لیے وہ سہولیات میسر نہیں تھیں جو کہ پرائیویٹ اداروں میں میڈیا کے شعبوں کا خاصہ ہوتا ہے۔ بہت کم سرکاری یونیورسٹیوں میں صحافت کے طلبہ کو عملی طور پر سکھایا جاتا ہے۔ ان طالبات کے ساتھ بھی وہی رویہ اپنایا گیا۔ مگر دوسرے سمسٹر کے بعد ان کو اس فیلڈ میں اپنا مستقبل روشن نظر آیا جب مجھ سمیت میرے دو اور کولیگ فہد منیر اور نیلم ظاہر نے ان طالبات کو صحافت کے ہر اینگل پر پڑھانا شروع کر دیا اور عملی طور پر بھی جتنا ہو سکتا تھا ان کی مدد کی جس سے ان کا مورال بلند ہوتا رہا۔

اب ان کی خواش ہے کہ وہ اس میدان میں کارہائے نمایاں انجام دیں۔ اور پھر چونکہ صحافت کے ٹیچنگ کے شعبے میں بہت کم خواتین ہیں اس لیے وہ اعلی تعلیم حاصل کرنے کی پر امید ہیں۔ان کی خواش ہے کہ والدین اپنے بچیوں پر اعتماد کریں تو لڑکیوں کے لیے صحافت سے اچھا کوئی نہیں شعبہ نہیں۔ کیونکہ اس شعبہ میں رہ کر وہ خواتین کے حقوق کے لیے لڑ سکتی ہیں اور خواتین کے مسائل کو اُجاگر کر سکتی ہیں۔ اب اس وومین یونیورسٹی صوابی میں بی ایس میں بھی کچھ طالبات نے داخلہ لے لیا ہے جس کے بعد یہ امید ہو چلی ہے کہ اب مزید طالبات بھی اس شعبے کو اپنا کر اپنے مسائل کے حل کے لیے اگے آئیں گی اور یہ شعبہ خواتین کی وجہ سے ترقی کرنے لگے گا جب وہ اپنے علاقے کی خواتین کے لیے آواز بلند کریں گی۔

مگر پھر بھی مجھے یہ سوال واقعی پریشان کیے رکھتا ہے جب سٹوڈنٹ پوچھتے ہیں کہ سر کیا ہمیں جاب مل جائے گی؟

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ