کرونا کا خطرہ:’پاکستان آنے والوں کو چیک کرنے کا کوئی سسٹم نہیں‘

حال ہی میں چین سے پاکستان واپس آنے والے طالب علم صدیق شاہد کا کہنا ہے کہ انہوں نے ایئر پورٹ پر حکام سے درخواست کی ان کا ٹیسٹ کیا جائے یا کم سے کم علیحدہ رکھا جائے لیکن ان کی نہ سنی گئی۔

’سرکاری ہسپتالوں کے ڈاکٹر جو ہمیشہ سے گرم نیند کرنے کے عادی تھے خود انسومنیا کے مریض بن چکے ہیں اور بعض اوقات تو ہسٹیریا اور شیزوفرینیا کے دائمی مریضوں کی طرح وارڈوں میں چیختے چلاتے اور اچھلتے پھرتے ہیں۔ نرسیں اور رضا کار ششدر آنکھوں سے اپنے ڈاکٹر اور مریضوں کو دیکھتے ہیں اور مزید تندہی سے اپنے کام میں جٹ جاتے ہیں۔‘

’میں وقت کے ایسے دورانیے میں پھنس چکا ہوں جہاں ہر دن موت کا دن ہے اور میں اپنی ڈائری کا ہر صفحہ آخری مہلت سمجھ کہ لکھتا ہوں لیکن میں پھر بھی تمہیں پریشان نہیں کرنا چاہتا۔‘

’اب کیمپس کے درختوں کے نیچے اور بس سٹاپوں پہ پڑے بینچوں پہ سوائے دھوپ کے کوئی نہیں بیٹھتا اور پارکوں میں بچوں کے جھولوں پہ گرد بیٹھ چکی ہے۔‘

اس تحریر کو لکھنے والے صدیق شاہد چین میں پی ایچ ڈی کر رہے تھے۔ جب کرونا وائرس کی وبا کے دوران وہ پاکستان آئے تو انہی دنوں ویب سائٹ ’ہم سب‘ پر لکھا گیا ان کا ایک بلاگ بہت زیادہ وائرل ہوا۔ اس کا عنوان تھا، ’کرونا ڈائری، چین سے آخری خط۔‘

اوپر دی گئی تین سطریں اسی بلاگ سے لی گئی ہیں جو چین کی موجودہ صورت حال کی بہترین عکاسی کرتی ہیں۔

میں پرسوں الحمرا لاہور میں کھڑا تھا۔ توقیر عباس ایک نوجوان کو مجھ سے ملوانے لائے۔ گلے ملے، سلام دعا ہوئی۔ توقیر نے بتایا کہ یہ صدیق شاہد ہیں اسی بلاگ والے، اور ابھی دس دن پہلے چین سے آئے ہیں۔

اب صدیق شاہد بتا رہے ہیں کہ چینی میڈیا وہاں ہونے والی بہت کم اموات کو رپورٹ کر رہا ہے۔ پورے ملک میں ایک موت کا عالم طاری ہے اور ادھر مجھے یہ موت پڑی ہوئی تھی کہ ابھی تو صدیق کو یہاں آئے دس دن نہیں ہوئے، اگر یہ خود کرونا وائرس کیرئیر ہوئے تو کیا ہو گا؟

پھر جب بہت ساری بات چیت ہو گئی تو میں نے سوچا کہ اب تو جو ہونا ہو گا ہو چکا ہو گا، انڈپینڈنٹ اردو کے لیے صدیق کی کہانی ہی رپورٹ کر لی جائے۔

چونکہ وہ اس وقت چین میں رجسٹرڈ سٹوڈنٹ ہیں تو بہت کھل کے وہ سب کچھ نہیں بتا پائے جو آف دا ریکارڈ بتا رہے تھے لیکن اس کے باوجود جتنی گفتگو انہوں نے کی، وہ کافی ہوشربا قسم کی تھی۔

سب سے اہم نکتہ یہ تھا کہ چین سے کوئی بھی پاکستان آ رہا ہے تو اسے چیک کرنے کا کوئی سسٹم موجود نہیں ہے۔ انہوں نے خود حکام سے درخواست کی کہ بین الاقوامی طریقے کے مطابق انہیں کم از کم علیحدہ رکھا جائے، قرنطینہ کا بندوبست کیا جائے، جو کٹس آئی ہیں ان کی مدد سے ان کا ٹیسٹ کیا جائے لیکن ان کی بات نہیں سنی گئی اور انہیں ایئرپورٹ سے باہر بھیج دیا گیا۔

باقی داستان انہی کی زبانی ان کے انٹرویو میں سنیے۔


 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی صحت