’عہدِ وفا‘ اداروں کی نہیں چار دوستوں کی کہانی تھی: مصطفیٰ آفریدی

آئی ایس پی آر اور مومنہ درید پروڈکشنز کی مشترکہ پیشکش ڈراما سیریل ’عہدِ وفا‘ بالآخر اختتام پذیر ہوا لیکن اپنے پیچھے چند اہم سوال چھوڑ گیا۔

ڈراما ’عہد وفاـ‘  چار دوستوں کی کہانی تھی جن میں سے ایک فوج، دوسرا بیوروکریٹ، تیسرا سیاستدان اور چوتھا میڈیا کو بطور پیشہ اپناتا ہے  (تصویر: سکرین گریب)

پاکستانی ڈرامہ سیریل ’عہدِ وفا‘ کے مصنف مصطفیٰ آفریدی نے کہانی کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ ڈرامے میں کسی بھی ادارے کو برا دکھانا ہرگز مقصد نہیں تھا۔

پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) اور مومنہ درید پروڈکشنز کی مشترکہ پیشکش ’عہدِ وفا‘، جو پاکستان ٹیلی ویژن اور ہم ٹی وی پر بیک وقت نشر کیا جاتا تھا، بالآخر اختتام پذیر ہوا لیکن چند اہم سوال پیچھے چھوڑ گیا۔

اس ڈرامے کے چند مناظر پر اور کہانی کے چند حصوں پر کافی اعتراضات سامنے آئے جیسے بطور سیاستدان ایک کردار کا بیوروکریسی پر اثر انداز ہونا اور میڈیا کا کردار وغیرہ۔

یہ چار دوستوں کی کہانی تھی جن میں سے ایک فوج، دوسرا بیوروکریٹ، تیسرا سیاستدان اور چوتھا میڈیا کو بطور پیشہ اپناتا ہے لیکن کہانی میں فوج کے علاوہ دیگر اداروں پر نکتہ چینی کی گئی ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو نے یہی سوال اور اعتراضات اس ڈرامے کے مصنف مصطفیٰ آفریدی کے سامنے رکھے اور اس ضمن میں ان کا مؤقف جاننا چاہا۔

مصطفیٰ آفریدی کا اپنے دفاع میں کہنا تھا کہ یہ کہانی چار اداروں کی نہیں بلکہ چار دوستوں کی ہے اور ان کی زندگی میں جو کچھ بھی ہوا، یہ ان کا انفرادی فعل تھا نہ کہ اجتماعی۔

مصطفیٰ آفریدی نے مزید کہا کہ ڈرامے کے چاروں کردار اپنی علیحدہ کہانی رکھتے ہیں اور وہ چاروں کردار سیاہ اور سفید نہیں تھے بلکہ وہ ’گرے‘ تھے یعنی ان میں کوئی مکمل طور پر صرف اچھا یا صرف برا نہیں تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر دیکھا جائے تو ہم نے فوج کے بارے میں بھی دکھایا کہ کیسے جب ایک شخص نے ’چیٹنگ‘ کی تو اس کے ساتھ کیا ہوا۔ اگر لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ سیاست دان کو برا دکھایا گیا ہے تو اس کی برائی (جو اس نے اپنے دوستوں کے ساتھ کی) ہم نے بطور سیاست دان نہیں بلکہ بطور ایک کردار یعنی شاہ زین دکھائی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے کہ ہمارے سارے سیاست دان بہت ہی برے ہیں یا تمام ہی بہت اچھے ہیں کیونکہ اچھائی اور برائی ہر جگہ ہوتی ہے اور یہ چلتی رہتی ہے۔

مصطفیٰ آفریدی نے مزید کہا کہ ہم نے خاص طور پر میڈیا کا کردار بہت ہی اچھا دکھایا ہے کہ کیسے ایک میڈیا کا کارکن چیزوں کو ٹھیک کرنے کی کوشش کرتا ہے، البتہ سب اداروں کی طرح میڈیا میں بھی اچھے اور برے لوگ ہیں۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ اس ڈرامے میں دیے گئے پیغام پر تنقید کی جا رہی ہے کہ پاکستان میں بس ایک ہی ادارہ ملک کا اصل محافظ ہے اور باقی سب ایسے ہی ہیں؟ جس پر مصطفیٰ آفریدی نے جواب دیا کہ ’ایسی کوشش نہیں کی گئی، البتہ یہ ان کی کوتاہی ہوسکتی ہے کہ وہ لوگوں کو شاید اپنا پیغام درست انداز میں نہیں دے سکے، ایسا جان بوجھ کر نہیں کیا گیا کہ ایک اچھا ہے اور باقی سب برے ہیں۔‘

اس سوال کے جواب میں کہ اس ڈرامے کو لکھتے وقت ان کے پاس کیا ہدایات تھیں؟ مصطفیٰ آفریدی نے بتایا کہ ان کو صرف اتنا کہا گیا تھا کہ چار دوستوں کی کہانی ہے، جو کالج میں ساتھ ہوتے ہیں اور ملک کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ انہیں صرف اتنا ہی کہا گیا تھا باقی تمام تر کہانی انہوں نے خود لکھی ہے اور یہ اچھی ہے یا بری اس کا فیصلہ وہ خود نہیں کرسکتے۔

آئی ایس پی آر کی جانب سے دیے گئے احکامات کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ’صرف فوج کے یونیفارم اور بیجز کے بارے میں ہدایات دی گئی تھیں جبکہ سکرپٹ میں بھی صرف فوج کے پروٹوکول سے متعلق اعتراضات سامنے آئے کہ جیسے کسی جنرل کے گھر میں ایسا ہوتا ہے یا ایسا نہیں ہوتا، ان کے سٹاف کے کتنے لوگ ہوتے ہیں، گاڑیاں کتنی اور کون سی ہوتی ہیں یا یونٹ کے سین میں کیا اور کیسا دکھانا ہے کیونکہ میں فوج سے تعلق نہیں رکھتا اس لیے مجھے ان کے پروٹوکول نہیں معلوم تھے، جو مجھے بتائے گئے، لیکن ایسی کوئی ہدایات نہیں تھیں کہ کسی کو اچھا یا کسی کو برا دکھانا ہے۔‘

دوسری جانب پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس کے سابق ڈائریکٹر اور سینینئر اداکار و ہدایت کار جمال شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’وہ سمجھتے ہیں کہ عوام کا پیسہ ہمیشہ قانونی اور ذمہ داری سے استعمال ہونا چاہیے، چاہے اسے کوئی بھی عوامی یا ریاستی ادارہ استعمال کرے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’آئی ایس پی آر کو ہمیشہ اظہار دلچسپی کے ٹینڈر طلب کرنے چاہییں چاہے وہ کوئی فلم بنائے، ٹی وی ڈراما یا کوئی گانا، کیونکہ اس کے پاس جو پیسے ہوتے ہیں وہ عوام کے پیسے ہوتے ہیں، اس لیے کسی کو بھی یہ کام دینے کا فیصلہ قابلیت اور بہترین کام پر ہونا چاہیے۔‘

جمال شاہ نے کہا کہ ’آئی ایس پی آر کو متنازع موضوعات پر فلموں اور ڈراموں سے، خاص کر جن میں سیاست دانوں یا سویلینز کو برا دکھایا جائے، اجتناب کرنا چاہیے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اگر اس وقت آپ فلم بنانے جائیں تو پاکستان کے سینکڑوں خوبصورت مقامات بھی فوج کے ہی پاس ہیں اور ان کی اجازت کے بغیر وہاں عکس بندی نہیں کی جاسکتی، اس لیے ضرورت ہے کہ اس کام کو بھی آسان بنایا جائے اور اہم تاریخی عمارتوں کو وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے پاس ہونا چاہیے تاکہ سیاحوں کی رسائی ممکن ہوسکے اور ملک میں سیاحت کو فروغ مل سکے۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی ٹی وی