کرونا وائرس منگا سے مردان کے دوسرے علاقوں میں پھیلنے لگا

مردان کے علاقے منگا میں پھیلنے والی کرونا (کورونا) وبا آہستہ آہستہ شہر کے دوسرے حصوں کو لپیٹ میں لیتی نظر آرہی ہے۔

اسلام آباد میں لاک ڈاؤن کے دوران جراثیم کش سپرے کرنے کی تیاری کی جا رہی ہے (اے ایف پی)

مردان کے علاقے منگا میں پھیلنے والی کرونا (کورونا)  وبا آہستہ آہستہ شہر کے دوسرے حصوں کو لپیٹ میں لیتی نظر آرہی ہے۔

مارچ کے اوائل میں سعودی عرب سے واپسی کے چند روز بعد منگا کے رہائشی سعادت خان کی موت کرونا وائرس کی وجہ سے ہونے والی بیماری کووڈ۔19 سے واقع ہوئی تھی۔

وہ کووڈ۔19 سے ہلاک ہونے والے پہلے پاکستانی شہری تھے۔صوبائی محکمہ صحت کی ایک رپورٹ کے مطابق سعادت نے کووڈ۔19 کی علامات ظاہر ہونے کے باوجود معاشرتی دوری پر عمل نہیں کیااور یوں وہ منگا میں درجنوں عزیزوں اور ملنے والوں کو کرونا وائرس منتقل کرنے کی وجہ بنے۔

چند روز قبل منگا سے تقریباً 20 کلومیٹر دور محلہ آموخیل میں شاکر خان نامی ایک شخص کی موت کے بعد مردان کی انتظامیہ حرکت میں آئی اور محلہ آموخیل کی چار گلیوں کو، جہاں شاکر کا مکان بھی واقع ہے، سیل کر کے رہائشیوں کو ان کے گھروں تک محدود کر دیا۔

سیل کی گئی گلیوں اور محلہ آموخیل کے دوسرے حصوں میں صفائی اور جراثیم کش ادویات کا سپرے کیا جا رہا ہے۔

یہی نہیں بلکہ شاکر کے گھرکی چار خواتین کے کرونا وائرس کے ٹیسٹ کیے  گئے ، جن کے مثبت آنے کے بعد انہیں قریبی عبدالولی خان یونیورسٹی میں قائم قرنطینہ مرکز منتقل کر دیا گیا۔

قرنطینہ منتقل کی گئی ان خواتین میں شاکر کی معمر والدہ، بیوی اور دو بیٹیاں شامل ہیں۔

مردان سے تعلق رکھنے والے سینیئر صحافی عاصی ہشت نگری نے متعلقہ حکام سے گفتگو کرنے کے بعد انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ چاروں خواتین کا کرونا ٹیسٹ پازیٹو آیا ہے اور انہیں قرنطینہ مرکز میں رکھا جا رہا ہے۔

سعادت خان اور شاکر خان میں کیا تعلق ہے؟

مردان سے تعلق رکھنے والے دونوں مرحومین کے درمیان ممکنہ تعلق یہ ہے کہ طبیعت خراب ہونے پر سعادت 16 مارچ کو ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال جاتے ہیں، جہاں ڈاکٹر علامات کو دیکھتے ہوئے کرونا ٹیسٹ کے لیے ان کے نمونے حاصل کر کے اسلام آباد بھیجتے ہیں۔

18 مارچ کو سعادت کا کرونا وائرس کا ٹیسٹ مثبت آنے کے بعد انہیں مردان میڈیکل کمپلیکس (ایم ایم سی) منتقل کیا جاتا ہے، جہاں شاکر وارڈ بوائے کی حیثیت سے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ مردان انتظامیہ اور صوبہ خیبر پختونخوا کا محکمہ صحت کرونا وائرس کو شاکر کی موت کی وجہ قرار دینے سے گریز کر رہا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کی موت سے متعلق مردان میڈیکل کمپلیکس سے جاری ہونے والی  رپورٹ کے مطابق انہیں دل کا  جان لیوا دورہ پڑا۔

مردان میڈیکل کمپلیکس میں پیرامیڈیکل سٹاف کی یونین کے صدرتاج محمد نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا شاکر کی ڈیوٹی کرونا وارڈ میں نہیں تھی اور نہ کبھی وہ اس طرف گئے  لہٰذا وہ کرونا وائرس سے کیسے متاثر ہو سکتے ہیں؟

تاج محمد نے کہا کہ شاکر دل کے عارضے میں مبتلا تھےاور ان کی موت اسی وجہ سے ہوئی، موت سے ایک روز قبل وہ بالکل ٹھیک ٹھاک تھے اور ہسپتال سے اپنی (دل کی بیماری کی) دوائی لے کر گئے تھے۔

تاہم اس امر کی وضاحت کوئی نہیں کر پا رہا کہ شاکر کی والدہ، بیوی اور دو بیٹیوں میں  کرونا وائرس کیسے منتقل ہوا اور انہیں قرنطینہ مرکز کیوں لے جایا گیا۔  مردان کی انتظامیہ بھی اس سلسلے میں خاموش ہے۔

یاد رہے کہ طبی  ماہرین کے مطابق کرونا وائرس انسانی جسم میں جن حصوں کو متاثر کرتا ہے ان میں سانس کی نالی اور پھیپھڑوں کے علاوہ دل بھی شامل ہے۔

میڈیکل نیوز ٹوڈے میگزین میں چھپنے والے مضمون' کرونا وائرس جسم پر کیسے اثر انداز ہوتا ہے؟ 'میں کہا گیا کہ کچھ لوگوں کو دوسروں کے مقابلے میں شدید پیچیدگیوں کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے، بنیادی صحت کی حالت کے حامل افراد کے لیےیہ خطرہ بڑھ سکتا ہے، جیسے امراض قلب، ذیابیطس اور پھیپھڑوں کی بیماریاں وغیرہ۔

مردان میڈیکل کمپلیکس میں فرائض سرانجام دینے والے ایک ڈاکٹر  کے مطابق  ہوسکتا ہے شاکر کرونا وائرس سے متاثر ہوئے ہوں لیکن کووڈ۔19 کی علامات ظاہر نہ ہوئیں ہو، جو  ایک عام سی بات ہے۔

انہوں نےنام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ  عین ممکن ہے کہ کرونا وائرس نے ان کے دل کو متاثر کیا ہو، جو ان کی موت کی وجہ بنا۔ 

انہوں نے کہا  کرونا وائرس کی وبا کے باعث صحت کے مراکز میں صرف اسی جرثومے سے متاثر ہونے والوں پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے، خصوصاً ایسے مریض جن میں کووڈ۔19 کی علامات ظاہر ہوں۔

عینی شاہدین کے مطابق شاکر کی میت آموخیل سے مردان ہی کے علاقے طورو میں ان کے آبائی گاؤں لے جائی گئی،جہاں جنازے میں طورو اور مایار سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔

انہوں نے کہا کہ جنازے میں کرونا وائرس سے ہلاک ہونے والوں کی تدفین کے لیے بنائے گئے قواعد ضوابط کو ملحوظ خاطر بھی نہیں رکھا گیا۔

ایسی صورت حال میں کچھ سوالات اٹھتے ہیں کیا شاکر کرونا وائرس کی وجہ سے ہلاک ہوئے؟ ان کی رشتہ دار خواتین کیسے اس جرثومے کے شکار بنیں؟ اور کیا منگا کے سعادت خان سے پھیلنے والے وائرس سے ہی شاکر یا ان کے گھر والے متاثر ہوئے؟

اگرچہ ان سوالات کے جواب ابھی معلوم نہیں اور شاید معلوم بھی نہ ہو سکیں۔ مگر یہ حقیقت اٹل ہے کہ کرونا وائرس تیزی سے پھیلے والا جرثومہ ہے  اور اس کے سامنے فاصلے کوئی معنی نہیں رکھتے۔ اس خطرناک یک خلیاتی جاندار کو روکنے کا واحد ذریعہ سوشل ڈسٹنسنگ یعنی ٰمعاشرتی دوری ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی صحت