حفاظتی کٹس ہیں نہ تربیت، قرنطینہ مراکز پر ڈیوٹی کیسے کریں؟ اساتذہ

بونیر میں اساتذہ کی شکایت ہے کہ حکومت نے انہیں حفاظتی کٹس فراہم کیں نہ کوئی تربیت اور نہ ہی لاک ڈاؤن میں ٹرانسپورٹ میسر ہے۔

پاکستان میں جمعرات  کو کرونا وائرس کے مصدقہ کیسز کی تعداد  ساڑھے چار ہزار کے قریب پہنچ گئی(اے ایف پی)

'ہمیں کہا گیا ہے کہ ہم قرنطینہ مراکز میں ڈیوٹیاں سر انجام دیں گے۔ ان مراکز میں داخلی راستوں پر موجود افراد کی انٹری اور ان کے کھانے سمیت دیگر تمام انتظامات کا بندوبست  کریں گے۔ تاہم ہمیں کسی قسم کی حفاظتی کٹس فراہم کی گئی ہیں اور نہ ہی ہمارے لیے ٹرانسپورٹ کا کوئی بندوبست ہے۔'

یہ کہنا تھا خیبر پختونخوا کے ضلع بونیر سے تعلق رکھنے والے سرکاری سکول کے ایک استاد کا، جن کی حال ہی میں بونیر کے ایک نجی ہوٹل میں قائم قرنطینہ مرکز میں ڈیوٹی لگائی گئی ہے۔ وہ اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے کیونکہ میڈیا سے بات کرنے کے بعد انہیں اپنے خلاف حکومتی کارروائی کا خدشہ ہے۔

انھوں نے بتایا کہ پورے ضلعے میں 24 سرکاری اساتذہ آٹھ گھنٹے کی شفٹ میں قرنطینہ مرکز کے اندر مختلف نوعیت کی ڈیوٹیاں سر انجام دیں گے۔

'ہمیں کہا گیا کہ ہم قرنطینہ مرکز میں موجود افراد کی گیٹ پر انٹری کریں گے اور ان افراد کے کھانے پینے کے بندوبست میں معاون ہوں گے، لیکن ہم نے یہ ڈیوٹیاں دینے سے معذرت کر لی ہے۔'

انھوں نے بتایا کہ 'دو دن پہلے ہم نے اسسٹنٹ کمشنر سے ملاقات کے دوران واضح کر دیا تھا کہ حفاظتی کٹس کے بغیر ہم ڈیوٹیاں نہیں کر سکتے کیونکہ انٹری کے دوران اور متاثرین کو کھانا دینے کے دوران اساتذہ میں کرونا وائرس پھیلنے کا خدشہ موجود رہے گا۔'

اس پر اسسٹنٹ کمنشر نے انہیں بتایا کہ حکومت نے اساتذہ کے لیے حفاظتی کٹس فراہم نہیں کیں اور وہ ان کٹس کے بغیر ہی ڈیوٹیاں سر انجام دیں۔

مذکورہ استاد نے مزید کہا 'ہمیں یہ بھی بتایا گیا کہ اس وائرس کے نوجوانوں میں پھیلنے کا خطرہ کم ہوتا ہے، لہٰذا ہم بے خوف ہو کر ڈیوٹیاں کریں۔ تاہم جب ہم نے کہا کہ ہمارے گھروں کے بزرگوں کے لیے تو خطرہ ہو سکتا ہے تو ان کا جواب تھا کہ گھر نہ جائیں اور باہر رہنے کا کوئی بندوبست کریں۔

'اس لیے چھ اپریل کے اس نوٹیفیکیشن کے جواب میں ہم نے معذرت کر لی اور ضلعی انتظامیہ کو بھی بتا دیا کہ حفاظتی کٹس کے بغیر ہم ڈیوٹیاں نہیں کریں گے۔'

ان اساتذہ کے لیے ایک اور مسئلہ ٹرانسپورٹ کا بھی ہے۔ مذکورہ استاد نے بتایا کہ ان کا گھر قرنطینہ مرکز سے تقریباً چھ کلومیٹر دور ہے اور پبلک ٹرانسپورٹ بند ہونے اور ذاتی گاڑی بھی نہ ہونے کہ وجہ سے روز قرنطینہ مرکز جانا مشکل ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

'ہم نے اس معاملے پر بھی انتظامیہ سے بات کی لیکن ان کا کہنا تھا کہ عوام کی خدمت کے لیے ہمیں یہ قربانی دینا ہوگی۔

'ہمارا کام درس و تدریس کا ہے لیکن ہم اس خدمت کے لیے بھی تیار ہیں۔ ہمیں حفاظتی کٹس فراہم کر دی جائیں تب ہم یہ بھی کر لیں گے۔'

آل پرائمری سکول ٹیچرز ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری سمیع اللہ خلیل ہیں سمجھتے ہیں کہ اساتذہ سے ایک ایسی ڈیوٹی لینا جس میں انسانی صحت کے معاملات شامل ہیں، سمجھ سے بالاتر ہے۔

انھوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اساتذہ نے الیکشن، مردم شماری، پولیو سمیت ہر محاذ پر ڈیوٹیاں سر انجام دیں، تاہم کرونا وبا ایک حساس معاملہ ہے اور اس سے متعلقہ امور کے لیے تجربہ چاہیے۔

انھوں نے کہا 'ہم چاہتے ہیں کہ پہلے حکومت طب سے وابستہ افراد کو قرنطینہ مراکز میں تعینات کرے، اس کے بعد اگر خدا نخواستہ حالات ایسے ہوگئے کہ طبی عملہ کم پڑ گیا تو پھر اساتذہ بھی ڈیوٹی کے لیے تیار ہیں لیکن ڈیوٹی سے پہلے ان کو باقاعدہ ٹریننگ دینی چاہیے۔'

حفاظتی کٹس کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ کٹس نہ ہونے سے مسئلہ اور بھی بڑھ جائے گا کیونکہ اگر ان کے پاس ٹریننگ بھی نہ ہو اور کٹ بھی نہ ہوں تو وہ کس طرح قرنطینہ مرکز میں ڈیوٹی کریں گے؟

سیاسی پارٹیوں سے منسلک اساتذہ تنظیمیں بھی اس حکومتی فیصلے کو عجیب سجھتی ہیں۔ جماعت اسلامی کے زیر نگرانی ایک اساتذہ تنظیم کے صوبائی عہدے دار محمد شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ حکومت کی جانب سے اساتذہ کی نمائندہ تنظیموں کے ساتھ اس فیصلے سے قبل کوئی مشاورت نہیں کی گئی۔

'اگر حکومت مشورہ کرتی تو کوئی بہتر فیصلہ سامنے آسکتا تھا لیکن قرنطینہ مراکز میں اساتذہ کیسے ڈیوٹیاں کریں گے جو اس کام کے لیے تربیت یافتہ ہی نہیں۔'

'ہم ہر وقت تیار ہیں۔ راشن کی تقسیم یا عوام کا ڈیٹا اکٹھا کرنا ہے تو یہ کام ہم کر سکتے ہیں لیکن قرنطینہ مرکز میں ڈیوٹی سرانجام دینا ڈاکٹروں اور طبی عملے کا کام ہے، اساتذہ کو اس کام پر نہیں لگانا چاہیے۔'

اس معاملے پر انڈپینڈنٹ اردو نے صوبائی مشیر اطلاعات اور کرونا معاملات کے فوکل پرسن اجمل وزیر سے رابطہ کیا تو انھوں نے کہا کہ وہ اس معاملے کو دیکھنے کے بعد بات کریں گے لیکن بعد میں انھوں نے کوئی جواب دیا اور نہ فون اٹھایا۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان