کرونا کے دور میں ایسٹر: عبادات آن لائن، مالی مشکلات الگ

مہلک وبا کی وجہ سے ایسٹر کی عبادات آن لائن کی جارہی ہیں، دوسری جانب پاکستان میں مسیحی برادری کے کئی ارکان ملازمت سے محروم ہو چکے ہیں اور پریشان ہیں کہ ان کی گزر بسر کیسے ہوگی؟

عبادت گرجا گھروں میں ضرور ہورہی ہے، لیکن عوام کو وہاں جانے کی اجازت نہیں۔ پادری صاحب اپنے سٹاف کے ہمراہ گرجا گھر میں عبادت کرتے ہیں جبکہ عوام اس عبادت میں انٹرنیٹ کے ذریعے شامل ہو رہی ہے(تصویر: زین علی)

کرونا (کورونا) وائرس کے پھیلاؤ کے خدشے کے پیش نظر لگائے گئے لاک ڈاؤن کی وجہ سے اس سال ایسٹر کی تقریبات گرجا گھروں میں نہیں ہوں گی۔ پاکستان میں مسیحی برادری کے جن ارکان کے پاس سمارٹ فون ہے وہ مذہبی رسومات کی آن لائن ادائیگی سے واقف ہیں۔ دوسرے لوگ مکانوں کی چھتوں پر اکٹھے مذہبی رسومات ادا کرتے ہیں۔

تاہم کراچی کی رہائشی رابعہ طفیل مسیح ایسٹر کے موقع پر اپنا گزرا وقت یاد کرکے افسردہ ہیں۔

کراچی سے نامہ نگار زین علی کے مطابق رابعہ کا کہنا تھا: گذشتہ سال ان ایام میں انہوں نے 40 روزے رکھے تھے اور اپنے اہلخانہ کے ہمراہ عبادت کے لیے پینتی کوسٹر چرچ آف پاکستان میں گئی تھیں۔ سفید لباس زیب تن کیا تھا اور گرجا میں مسیحی گیت گا کر پرستش  کی تھی، اس کیفیت کو لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں۔ رواں سال کرونا وائرس کی وجہ سے حالات مختلف ہیں اور عبادات آن لائن کی جارہی ہیں۔'

بینکنگ کے شعبہ سے وابستہ رابعہ طفیل اپنے اہلخانہ کے ہمراہ گذشتہ تین دہائیوں سے کراچی کے علاقے کورنگی بھٹائی کالونی میں رہائش پذیر ہیں۔  ان کا کہنا ہے کہ ان کی کی زندگی میں یہ سال اپنی نوعیت کا منفرد اور تکلیف دہ سال ہوگا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کئی سالوں سے مذہبی طور طریقوں سے زندگی گزارنے والی رابعہ کا کہنا ہے کہ 'اس سال ایسٹر کا تہوار روایتی انداز میں نہیں منایا جارہا۔ ایسٹر کے موقع پر عبادت بھی آن لائن کی جارہی ہے، جس پر میں افسردہ ہوں۔' ان کے مطابق  یہ دن ان کے لیے پورے سال میں سب سے بڑی عبادت کا درجہ رکھتا ہے ۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ رواں سال کرونا وائرس کے باعث دنیا بھر میں احتیاطی تدابیر اپنائی جارہی ہیں۔ اس سلسلے میں پاکستان میں بھی خصوصی اقدامات کیے گئے ہیں۔ اس بار غم کی کیفیت میں وہ مذہبی رسومات ادا نہیں کر پا رہے۔

اس حوالے سے ترجمان سندھ حکومت مرتضیٰ وہاب کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومت ایسٹر کے موقع پر مسیحی برادری سے رابطے میں ہے۔ کرونا وائرس سے بچاؤ کے لیے لاک ڈاؤن کی صورت حال ہے۔ اس موقع پر اجتماعات پر پابندی لگائی گئی ہے جبکہ مسیحی برادری بھی پورا تعاون کر رہی ہے۔

رابعہ کے مطابق عبادت گرجا گھروں میں ضرور ہورہی ہے، لیکن عوام کو وہاں جانے کی اجازت نہیں۔ پادری صاحب اپنے سٹاف کے ہمراہ گرجا گھر میں عبادت کرتے ہیں جبکہ عوام اس عبادت میں انٹرنیٹ کے ذریعے شامل ہو رہی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا: 'انٹرنیٹ کے ذریعے سے عبادت میں شریک تو ہیں لیکن گرجا گھر میں جاکر عبادت کرنے کا احساس آج بھی رہتا ہے۔ اس بار گرجا گھروں میں کرونا وائرس سے بچاؤ کے لیے خصوصی دعائیں بھی کی جارہی ہیں۔'

مسیحی برادری کی مالی مشکلات

پاکستان میں کرونا وائرس کی وبا کے بعد مسیحی برادری کے کئی ارکان ملازمت سے محروم ہو چکے ہیں۔ ان کی سرکاری امداد تک بھی کوئی زیادہ رسائی نہیں ہے اور وہ پریشان ہیں کہ ان کی گزر بسر کیسے ہوگی؟

عامر گِل کا تعلق مسیحی برادری کے نچلے طبقے سے ہے۔ وہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے ایک امیر گھر میں صفائی کا کام کرتے تھے، تاہم کرونا وائرس کی وبا پھیلنے کے بعد انہیں نوکری سے نکال دیا گیا اور ملازمت سے نکالنے سے پہلے انہیں خبردار بھی نہیں کیا گیا۔

اتوار (12 اپریل) کو منائے جانے والے مسیحی تہوار ایسٹر سے پہلے موجود بے یقینی کی صورت میں خبررساں ادارے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے عامر گِل نے بتایا: 'ہماری حالت پہلے ہی اچھی نہیں ہے اور اب کرونا وائرس کی وبا کے بعد امیر لوگ یہ سمجھنے لگے ہیں کہ غریب وائرس کو ان کے گھر لے آئیں گے۔'

عامرگِل دو دوسرے ملازمین کے ساتھ اسلام آباد کی ایک بڑی کوٹھی میں کام کرتے تھے۔ وہ زیادہ تر پارٹیوں کے بعد صفائی کی ذمہ داری پوری کرتے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ نہیں جانتے کہ کوٹھی میں سونے کے کتنے کمرے ہیں لیکن انہیں یہ پتہ ہے کہ کوٹھی بہت بڑی ہے۔

گِل اسلام آباد کی کچی مسیحی بستی میں ایک کمرے میں چار بچوں کے ساتھ رہتے ہیں۔ انہوں نے کہا: 'میرے بچوں نے ایسٹر کے لیے مجھے نئے کپڑے اور جوتے لے کر دینے کا کہا لیکن میں نے انہیں جواب دیا کہ اس سال ہم ایسٹر نہیں منائیں گے۔'

کرونا وائرس کی وبا سے پہلے ہارون اشرف ایک ریستوران میں کام کرتے تھے لیکن وبا پھیلنے کے بعد وہ ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

 وبا نے ایسٹر کے خوشیوں بھرے تہوار کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ ایسٹر جو عام طور پر دوبارہ پیدائش، بہار اور فراوانی کا موقع ہوتا تھا، وہ اب ہارون اشرف کے مطابق 'بےسکونی اور مایوسی' سے بھرا ہو گا۔

25 سالہ ہارون اشرف کا کہنا تھا: 'کرونا وائرس نے منہ کا نوالہ تک چھین لیا ہے۔' انہیں اپنے بھائی، جو اب خود بھی بے روزگار ہیں، کے ساتھ مل کر سات لوگوں کے خاندان کی کفالت کرنی ہے جو دو کمروں کے فلیٹ میں سمٹ کر رہ گئے ہیں۔

ہارون اشرف سرکاری امداد کے لیے درخواست دینے کا سوچ رہے تھے لیکن ان پڑھ ہونا ان کے راستے کی رکاوٹ بن گیا۔

پاکستان کی مسیحی آبادی زیادہ تر پسماندہ علاقوں میں رہائش پذیر ہے۔ اسلام آباد میں بھی کئی مسیحی آبادیاں ہیں جن سے کچھ فاصلے پر امیر لوگ رہتے ہیں۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ڈپٹی ریجنل ڈائریکٹر برائے جنوبی ایشیا عمر وڑائچ کہتے ہیں: 'بحران کے اس موقعے پر وہ محدود وسائل کے ساتھ گنجان علاقوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔ انہیں بھوک یا کرونا وائرس میں کسی کے ظالمانہ انتخاب کے لیے نہیں چھوڑا جا سکتا۔'

حال ہی میں والد کی موت اور بعد میں بےروزگار ہو جانے کی وجہ سے اس سال شیرون شکیل کے لیے ایسٹر اذیت کا سبب ہے۔

 شکیل کا کہنا تھا: 'ہماری پاس خوراک ختم ہو رہی ہے۔' والد کی آخری رسومات کے اخراجات پورے کرنے کے لیے وہ پہلے سے مقروض ہیں۔ شکیل نے کہا: 'ہم ایسٹر کیسے منا سکتے ہیں؟'

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان