شمالی وزیرستان میں ٹیلی فون ٹاور دھماکے سے تباہ

مقامی افراد کے مطابق دھماکہ اتنا زوردار تھا کہ لوگ گھروں سے باہر نکل آئے اور یہ سوچنے لگے کہ شاید ڈرون حملہ ہوا ہے۔ شدت پسندوں کے خلاف سکیورٹی فورسز کی ٹارگٹڈ کارروائیاں بھی جاری

شمالی وزیرستان کی تحصیل میرعلی کے گاؤں حسو خیل میں نامعلوم افراد نے ٹیلی فون ٹاور کو بم دھماکے سے اُڑا دیا، جس کے بعد سے پورے علاقے میں ٹیلی فون سگنلز بند ہوگئے ہیں۔(فائل تصویر: اے ایف پی)

پاکستان کے قبائلی اضلاع وزیرستان میں ایک دفعہ پھر حالت خراب ہونے لگے ہیں اور سنیچر کو ایک واقعے میں طالبان کی موجودگی کی اطلاع پر فوجی کارروائی میں سات مبینہ شدت پسند ہلاک جبکہ جوابی حملے میں سکیورٹی فورسز کے دو اہلکار بھی جان کی باز ہار گئے۔ دوسری جانب شمالی وزیرستان میں ہی ایک دوسرے واقعے میں ایک ٹیلی فون ٹاور کو بم دھماکے سے اُڑائے جانے کے بعد عام شہریوں میں خوف و ہراس پھیل گیا ہے۔

پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق سنیچر کو خفیہ ذرئع سے اطلاع ملی تھی کہ شمالی وزیرستان میں ذاکر خیل کے علاقے میں ایک ٹھکانے میں کچھ مسلح شدت پسند موجود ہیں، جن کے خلاف کارروائی عمل میں لائی گئی جس کے دوران شدت پسندوں کے ایک ٹھکانے کو بھی تباہ کردیا گیا۔

آئی ایس پی آر کے مطابق کارروائی کے دوران جان کی بازی ہارنے والے اہلکاروں میں ڈیرہ اسماعیل خان کے رہائشی 30 سالہ مومن شاہ اور ایبٹ آباد کے رہائشی محمد سجاد شامل ہیں۔

دوسرے واقعے میں شمالی وزیرستان کی تحصیل میرعلی کے گاؤں حسو خیل میں نامعلوم افراد نے ٹیلی فون ٹاور کو بم دھماکے سے اُڑا دیا، جس کے بعد سے پورے علاقے میں ٹیلی فون سگنلز بند ہوگئے ہیں۔

مقامی افراد کے مطابق دھماکہ اتنا زوردار تھا کہ لوگ گھروں سے باہر نکل آئے اور یہ سوچنے لگے کہ شاید ڈرون حملہ ہوا ہے لیکن کچھ دیر بعد معلوم ہوا کہ ٹیلی فون ٹاور کو اڑا دیا گیا ہے۔

شمالی وزیرستان سے امین خان نے بتایا کہ 'ایک طرف وزیرستان میں پاکستان کی مختلف یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم طلبہ تھری جی اور فور جی کے حصول کے لیے احتجاجی مظاہرے کررہے ہیں تو دوسری طرف موبائل فون کی سہولت بھی چھین لی گئی۔'

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے مزید کہا کہ 'وزیرستان پہلے سے اندھیرے میں تھا اور اب مزید اندھیرے میں چلا گیا ہے۔'

دوسری جانب جنوبی وزیرستان کے رہائشی وحید خان نے بتایا کہ کرونا (کورونا) وائرس کی وجہ سے لاک ڈاؤن یا سکیورٹی فورسز کی جانب سے ٹارگٹڈ کارروائیوں کی وجہ سے پورے وزیرستان میں فوج کی نقل و حرکت میں اضافہ ہوا ہے اور ایک جگہ سے دوسری جگہ تک جانے میں انتہائی مشکلات کا سامنا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ مقامی انتظامیہ کی طرف سے راہداری جاری کرنے بعد ہی کسی کو ایک جگہ سے دوسری جگہ تک جانے کی اجازت ہوگی۔

واضح رہے کہ وزیرستان میں فوجی آپریشنز سے بھاگے ہوئے شدت پسند طالبان کچھ عرصہ پہلے دوبارہ وزیرستان میں آگئے تھے۔ وہ پہلے تو اپنے آبائی علاقے تک محدود رہے اور بعد میں رفتہ رفتہ پرانے ٹھکانوں کو ایک دفعہ پھر آباد کرنے لگے۔

مقامی لوگوں کے مطابق شدت پسند طالبان نہ صرف اپنے پرانے ٹھکانوں کو آباد کرنے میں مصروف ہیں بلکہ مسلح ہوکر ایک جگہ سے دوسری جگہ تک سفر کرتے بھی نظر آتے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان